#العلمAlilm علمُ الکتاب ((( سُورةُالحِجر ، اٰیت 80 تا
84 ))) ایک سَنگ تراش اور سَنگ دِل قوم !! ازقلم... علامہ اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ولقد
کذب اصحٰب
الحجرالمرسلین 80
واٰتینٰھم اٰیٰتنا فکانواعنہا
معرضین 81 وکانواینحتون
من الجبال بیوتااٰمنین 82 فاخذتھم
الصیحة مصبحین 83 فما اغنٰی عنھم ما
کانوایکسبون 84
ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ھے کہ پَتھر کی چٹانیں تراش کر پَتھر
کے گھر بنانے والی اُس قوم نے بھی اللہ تعالٰی کے مُتعدد رسولوں کی تکذیب
کی تھی جس قوم کو ھم نے اپنے رسولوں کی صداقت کی مُتعدد نشانیاں بھی دکھائی
تھیں لیکن جس سَنگ دِل قوم کو ھم نے اپنے رسولوں کی صداقت کی وہ نشانیاں
دکھائی تھیں اُس سَنگ دِل قوم نے پہاڑوں اور چٹانوں کو تراش کر اُن میں
اپنے لیۓ وہ بے خطر ٹھکانے بنالیۓ تھے جو اُس کے خیال کے مطابق ھمارے کسی
آسمانی اور ناگہانی عذاب کی پُہنچ سے بہت دُور تھے لیکن پھر ایک دن سُورج
کی پہلی کرن نکلنے سے پہلے ہی اَچانک اُس قوم کو اُس قوم کے جُرمِ تکذیب کی
اُس سزانے آکر دبوچ لیا تھا جو مادرِ فطرت کی ایک خوفناک چیخ کی صورت میں
اُس کان میں آئی تھی اور اُس کی جان نکال کر نکل گئی تھی اور اُس قوم کے وہ
سَنگی ٹھکانے اُس قوم کو اللہ تعالٰی کی طرف سے آنے والی اُس سنگین سزا
نہیں بچا سکے تھے !
🌹 مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات ! 🌹
اٰیاتِ بالا میں اَصحابِ حِجر کے نام سے جس قوم کا ذکر کیا گیا ھے اِس قوم
کا پہلا دور ابراھیم علیہ السلام کے عھدِ نبوت سے پہلے اور نُوح علیہ
السلام کے عھدِ نبوت کے بعد کا دور ھے ، یہ قوم اپنے پہلے دور میں قومِ عاد
کے نام سے مشہور ہوئی تھی اور اپنے دُوسرے دور میں اِس قوم نے عادِ ثانیہ
اور قومِ ثمُود کے نام سے شہرت حاصل کی تھی ، عادِ اُولٰی میں اللہ تعالٰی
نے ھُود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تھا اور یہ قوم اپنے زمانے کی ایک
ایسی طاقت ور قوم تھی کہ جس نے اپنے معلوم دور کی ساری دُنیا کو ہلا کر رکھ
دیا تھا اور اِس قوم کے سیاسی اقتدار اور صنعتی دبدبے کا دائرہ ایشیا و
افریقہ تک پھلا ہوا تھا ، اِس قوم کے تعمیراتی کاری گر بڑے بڑے ستونوں پر
بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کرنے میں اپنی مثال آپ تھے لیکن یہ ترقی یافتہ قوم
کفر و شرک میں مُبتلا ہو کر اللہ تعالٰی کے رسولوں کی کُھلم کُھلا توہین و
تکذیب کرنے لگی جس کے نتیجے میں اِس قوم پر آندھی کی صورت میں اللہ کا وہ
عذاب آیا جو سات دن تک اِس پر جاری رہا اور اِس عذاب سے اِس قوم وہی چند
گنے چُنے لوگ بچے جو اپنے نبی ھُود علیہ السلام سے آنے والے عذاب کی خبر
سُن کر آنے والے عذاب سے پہلے ہی ھُود علیہ السلام کے ساتھ ہجرت کر کے حجاز
چلے گۓ اور اِس قوم کے اُن چند مومن و مُسلم اَفراد کے سوا دیگر تمام مُنکر
و مُتکبر اَفراد صفحہِ ہستی سے مٹا دیۓ گۓ تھے ، قومِ عاد کےجو بَچے کُھچے
لوگ اِس عذاب سے پہلے ہجرت کر کے حجاز گۓ تھے اُن کے بچے کُھچے خاندا و
قبائل سے اُس نئی قوم نے جنم لیا تھا جو عادِ ثانیہ یا قومِ ثمُود کے نام
سے مشہور ہوئی تھی ، حجاز کی طرف ہجرت کرنے کے بعد جب قومِ ثمُود پھیلی تھی
تو خلیجِ فارس و حضر موت اور سرزمینِ عراق تک پھیلتی چلی گئی تھی ، اِس قوم
میں ایک زمانے تک اللہ تعالٰی کے اَنبیاء و رُسل کی آفاقی تعلیمات کی وہ
روشنی موجُود رہی تھی جس سے اِس قوم میں لقمان جیسے صاحبِ علم و حکمت لوگ
پیدا ہوۓ تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عادِ ثانیہ بھی عادِ اُولٰی کے
نقش قدم پر چل پڑی تھی ، عادِ اُولٰی جو بڑے ستون کھڑے کرکے بڑے ستونوں پر
بڑے بڑے گھر کھڑے کردیتی تھی تو عادِ ثانیہ نے بھی اپنے زمانے میں اپنے
پرکھوں کے اُس فن تعمیر کو اِس طرح زندہ کیا تھا کہ یہ لوگ بڑے بڑے پہاڑوں
اور بڑی بڑی چٹانوں کو تراش کر اپنے لیۓ بڑے بڑے محل نما گھر بنانے لگے تھے
اور وہ لوگ اپنے زمانے میں اپنے اسی فَن حجر تراشی کی وجہ سے اَصحاب الحجر
کہلانے لگے تھے ، اٰیاتِ بالا کے اَلفاظ بالا "المرسلین " کے مطابق اللہ
تعالٰی نے اِس قوم میں اپنے مُتعدد رسول مبعوث کیۓ تھے لیکن قُرآنِ کریم نے
اُن میں سے قابلِ ذکر ہستی کے طور پر صرف صالح علیہ السلام کا ذکر کیا ھے ،
صالح علیہ السلام نے قومِ ثمود کی ھدایت و اصلاح کے لیۓ بار بار جو کوششیں
کیں تھیں اور قومِ ثمود نے بار بار اپنی جس مُشرکانہ سرکشی کا مظاہرہ کرتے
ہوۓ جس طرح اُن کی نبوت اور اُن کے پیغام نبوت کا انکار کیا تھا اُس کی
تفصلیلات ھم سُورةُالاَعراف اور سُورَہِ ھُود میں بیان کر چکے ہیں ، قُرآنِ
کریم نے اِس مقام پر جس "الحجر" کا ذکر کیا ھے وہ قومِ ثمود کا مرکزی شہر
تھا اور بعض اہلِ تحقیق کے مطابق اِس تباہ شُدہ شہر کے آثار مدینہ کے شمال
مغرب میں موجود شہر "العلاء" سے چند میل دُور اُس راستے پر نظر آتے ہیں جو
مدینے سے تبوک کی طرف جاتا ھے ، ابنِ بطوطہ کے مطابق جب ساتویں ہیجری میں
اُس کا یہاں سے گزر ہوا تھا تو اُس وقت قومِ ثمُود کی وہ سنگی عمارات
موجُود تھیں اور اُن سنگی عمارت پر کُھدے ہوۓ نقش و نگار اِس طرح نظر آتے
تھے کہ جیسے آج ہی وہ بناۓ گۓ ہوں ، ہر چند کہ زمین کی ہر ایک اُمت قُرآن
کی مخاطب اُمت ھے لیکن قُرآن کی براہِ راست اور پہلی مخاطب اُمت صرف اُمتِ
مُسلمہ ھے اِس لیۓ اِس کتاب کی آیات میں جو عبرتیں ہیں اُن عبرتوں کی
مُخاطب بھی یہی اُمتِ مُسلمہ ھے جس کے ہر پیدا ہونے والے فرد اور ہر مرنے
والے فرد پر قُرآن کی جواب دہی کا قرض ھے !!
|