چار خواتین کے قتل و غیر سرکاری اداروں کی سرد مہری

ہونی کے بعد غیر سرکاری اداروں کی جانب سے اپنے"گند" کو چھپانے کیلئے سیکورٹی اداروں کو استعمال کرنے کی تک کونسی بنتی ہے اس بارے میں ابھی تک مکمل طور پر خاموشی ہیں یعنی اگر مراعات اور مزے ہیں تو صرف غیر سرکاری تنظیموں کی بیگمات اور موم بتی والی انٹیوں کے ہیں اور اگر کہیں پر غلطی ہو تو پھر سارا الزام سیکورٹی اداروں پر ڈالا جائے. ٹھیک ہے کہ اس میں سیکورٹی اداروں بشمول پولیس کی بھی غلطی ہے لیکن کیا ان خواتین اور ان کے گھروالوں کی مالی امداد اب سیکورٹی اداروں اور حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے. اس بارے میں سوال پوچھنے کی کوئی ہمت نہیں رکھتا.کیونکہ اب متعلقہ غیر سرکاری اداروں کی جانب سے یہ واویلا کیا جارہا ہے کہ اس بارے میں مکمل خاموشی اختیار کی جائے کیونکہ اس سے بین الاقوامی امدادی ڈونرز بھاگ جاتے ہیں.اور پھر علاقے کی ترقی کیلئے کچھ نہیں ہوتا
میر علی کے علاقہ ایپی میں قتل کئے جانیوالے بنوں کی چار خواتین کے المناک موت نے جہاں غیر سرکاری تنظیموں کی قلعی کھول دی ہیں کہ کس طرح این جی او ان خواتین کی قتل کے بعد اپنی بات سے مکر گئی تھی اور انہیں مراعات دینے سے انکاری ہوگئی تاہم بنوں کے شہریوں کی جانب سے احتجاج اور کاغذات سامنے آنے کے بعد غیر سرکاری تنظیم نے جاں بحق ہونیوالے چاروں خواتین کو پانچ پانچ لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا تاہم بنوں کی قومی جرگہ نے اس کو مسترد کیا ہے اور مزید امداد دینے کا مطالبہ کیا ہے ساتھ میں یہ بھی دھمکی دی ہے کہ اگر غیر سرکاری تنظیموں نے اس حوالے سے کوئی اقدام نہیں اٹھایا تو وہ بنوں سمیت تمام علاقوں میں غیر سرکاری تنظیموں پر پابندی عائد کی جائے گی -

سوال یہاں پر ان اداروں کی کارکردگی پر اٹھ رہا ہے جن کا کام سیکورٹی کا ہے اور سیکورٹی کی بنیادی ذمہ داری سے انہوں نے مکمل طور پر آنکھیں بند کر رکھی ہوئی ہیں-بنوں میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم جنہیں پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک غیر سرکاری کالج نے نے مذکورہ پراجیکٹ دیا تھا کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی کہ بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم " ڈبلیو ایچ ایچ"نے مذکورہ پراجیکٹ کس بنیاد پر ایک پرائیویٹ کالج کے حوالے کیا .جو خود بھی غیر قانونی طریقے سے چل رہا ہے کیونکہ متعلقہ غیر سرکاری کالج کی مالک ایک سرکاری اہلکار ہے اور بغیر این او سی کے متعلقہ کالج چل رہا ہے کیونکہ سرکاری ملازمین کے گورنمنٹ سروسز رولز کے تحت کسی بھی سرکاری افسر کی اہلیہ این او سی کے بغیر روزگار نہیں کرسکتی.اور وہ بھی ایسی صورت میں جہاں پر متعلقہ اہلکار ملازم ہو اور اسی سے وابستہ پرائیویٹ ادارے کھولے جائے اور غیر ملکی پراجیکٹ حاصل کئے جائیںجبکہ یہ کالج بھی ٹیکنیکل ٹریننگ بورڈ اور ایس ڈی سی ، سکلڈ ڈویلپمنٹ کونسل خیبر پختونخواہ سے رجسٹرڈ ہوں. یہ وہ سوال ہے جو غیر سرکاری تنظیموں کو رجسٹرڈ کرنے والوں سے کرنیکی ضرورت ہے لیکن وہاں پر "نوٹ " کے چکر نے سب کی آنکھیں بند کر رکھی ہوئی ہیں-

میر علی کے علاقے ایپی میں سلائی کڑھائی کی تربیت دینے والی چار خواتین میں دو بہنیں بھی شامل ہیں جن کے والدین انتہائی ضعیف ہے اور گھر میں معذور دیگر افراد بھی شامل ہیں جن کی رزق کی خاطر یہ خواتین ملازمت کرنے پر مجبور تھی .اسی طرح کی صورتحال دیگر دو خواتین کی بھی ہیں .مجبوری میں کئے جانیوالے ان نوکریوں کے پیچھے مزے کس کے ہیں . یہ وہ سوال ہیں جو بین الاقوامی امدادی ادارے ڈبلیو ایچ ایچ اور اس کے ساتھ کام کرنے والی تمام پارٹنرز سے کرنیکی ضرورت ہے. کروڑوں مالیت کے اس پراجیکٹ میں ایک سو چالیس کے قریب مقامی خواتین کو تربیت فراہم کی جارہی تھی تاہم اب جبکہ بنوں کی مقامی این جی او پر متعلقہ خواتین کیلئے ادائیگیوں پر دبائو بڑھ رہا ہے تو متعلقہ این جی او نے پشاور میں غیر سرکاری تنظیم سے اس حوالے سے رابطہ کیا ہے اور ادائیگی کیلئے کہا گیا ہے ، تاہم پشاور کی غیر سرکاری کالج نے اس پراجیکٹ کے بارے میں کسی بھی قسم کی معلومات دینے سے معذور ی ظاہر کی ہے.ان کے مطابق بائیس لاکھ روپے سکالرشپ کیلئے رکھے گئے ہیں جبکہ چالیس لاکھ روپے دیگر مدات میں رکھے گئے ہیں.پراجیکٹ کی تخمینہ اور نقصان ہونے کی صورت میں متعلقہ خواتین کو کتنی امداد دی جائیگی کے بارے میں ابھی تک مکمل خاموشی ہیں. تاہم سرکاری اداروں کے آنکھوں میں سرمہ ڈالنے کیلئے اب یہ مشہور کیا جارہا ہے کہ ان چاروں خواتین کو شہداء پیکج میں شامل کرکے انہیں مالی امداد دی جائیگی ساتھ میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ہونی کو کون روک سکتا ہے اور یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے تھا.

بحیثیت مسلمان یہ سب کا ایمان ہے کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے اور ہونی کو کوئی ٹال نہیں سکتا ، لیکن ہونی کے بعد غیر سرکاری اداروں کی جانب سے اپنے"گند" کو چھپانے کیلئے سیکورٹی اداروں کو استعمال کرنے کی تک کونسی بنتی ہے اس بارے میں ابھی تک مکمل طور پر خاموشی ہیں یعنی اگر مراعات اور مزے ہیں تو صرف غیر سرکاری تنظیموں کی بیگمات اور موم بتی والی انٹیوں کے ہیں اور اگر کہیں پر غلطی ہو تو پھر سارا الزام سیکورٹی اداروں پر ڈالا جائے. ٹھیک ہے کہ اس میں سیکورٹی اداروں بشمول پولیس کی بھی غلطی ہے لیکن کیا ان خواتین اور ان کے گھروالوں کی مالی امداد اب سیکورٹی اداروں اور حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے. اس بارے میں سوال پوچھنے کی کوئی ہمت نہیں رکھتا.کیونکہ اب متعلقہ غیر سرکاری اداروں کی جانب سے یہ واویلا کیا جارہا ہے کہ اس بارے میں مکمل خاموشی اختیار کی جائے کیونکہ اس سے بین الاقوامی امدادی ڈونرز بھاگ جاتے ہیں.اور پھر علاقے کی ترقی کیلئے کچھ نہیں ہوتا.

سیکورٹی اداروں کی اگر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام ٹیکسوں کے پیسہ مرنے والے خواتین کو دے تو پھر ان کی یہ بھی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ چیک کرے کہ کس طرح بغیر این او سی کے مختلف غیر سرکاری ادارے اس وقت کام کررہے ہیں جنہیں ڈیپارٹمنٹ سمیت مختلف اداروں میں بیٹھے کالی بھیڑوں کا تعاون حاصل ہے. اور وہ صرف اپنے مالی مفاد کی خاطر غیر قانونی طریقوں سے اداروں کی رجسٹریشن کرواتے ہیں انہیں پراجیکٹ ملتے ہیں اور بغیر این او سی کے کام چلتا رہتا ہے جبکہ موجودہ کیس میں ٹیکنیکل ٹریننگ بورڈ خیبر پختونخواہ سمیت سکلڈ ڈویلپمنٹ کونسل خیبر پختونخواہ سے بھی پوچھنے کی ضرورت ہے کہ آپ لوگ صرف اپنے "پیٹ بھرنے کیلئے بیٹھے ہوئے ہیں"
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498091 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More