دنیا بھر میں کہیں قحط سالی سے عوام کا جینادوبھر
ہے توکہیں طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں نے انسانی زندگی کو داؤ پر لگا
رکھا ہے۔ جدید ترقی کے اس دور میں بنی نوعِ انسان آلودہ ہوا میں سانس لینے
اور آلودہ پانی پینے پر مجبور ہے یہی وجہ ہے کہ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی
آلودگی صحت مند معاشرے کی تشکیل میں ایک بڑی رکاوٹ بن رہی ہے۔ماحولیاتی
آلودگی کے سبب اس وقت پوری دنیا تشویش اور اضطراب میں مبتلاہے کیونکہ گرین
ہاؤس گیسز کے اخراج کی روز افزوں بڑھتی ہوئی مقدار کے باعث ان دنوں پانی،
ہوا اور درجہ حرارت جیسے گونا گوں ماحولیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا
ہے۔ آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے جہاں دنیا کی مجموعی اقتصادی پیداوار
میں بھی کافی کمی دیکھنے میں آئی ہے وہیں مختلف صنعتوں اور ٹرانسپورٹ سے
خارج والے نائٹروجن اور کاربن کے مرکبات کے اخراج سے بھی فضائی آلودگی میں
روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔فضاء میں اس وقت 31 فیصد کے لگ بھگ کاربن ڈائی
آکسائیڈ جیسی مہلک گیسیں موجود ہیں یہی وجہ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی سے دنیا
بھر میں ہر سال کم و بیش 30لاکھ جبکہ پاکستان میں 60ہزار کے لگ بھگ اموات
ہوتی ہیں،جنوب مشرقی ایشیاء اور دنیا کے کئی دیگر ممالک میں ہر 3 میں
سے2اموات آلودگی سے پیدا شدہ بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں ۔کرۂ ارض پر روز
افزوں ماحولیاتی آلودگی سے نئی پیدا ہونے والی بیماریوں کے باعث انسان کی
محفوظ بقاء شدید خطرات سے دوچارہے لہٰذا یہاں ضرورت اب اس امر کی ہے کہ
’’کرونا سے چھٹکارہ پانے کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے کیلئے
بھی ایسے اقدامات کئے جائیں کہ جس سے قدرتی ماحول کی بقاء کویقینی بنایا
جاسکے۔ایک معمولی سے وائرس نے نظام زندگی اس طرح مفلوج کر رکے رکھ دیا ہے
کہ پرانا معمول ایک خواب ہی رہ گیا ہے حالانکہ ماضی میں بھی کئی ایک وائرس
اور موذی امراض پھیلے تاہم کبھی کسی نئے وائرس یا فلو کی وجہ سے دنیا کا
نظام اس طرح معطل نہیں ہواتھا۔ حالانکہ عالمی افق پر ابھرتے ہوئے سپرپاور
چین میں نہ ہی انفراسٹرکچر کی کوئی کمی تھی اور نہ ہیں ہسپتالوں میں بنیادی
سہولیات کا فقدان لیکن پھر بھی وسطی صوبے ہْوبے کے سب سے گنجان آباد شہر
ووہان سے جنم لینے والے’’ کرونا ‘‘وائرس نے عالمی ’’دہشت ‘‘کا ایسا روپ
دھارا کہ یہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کیلئے بھی خوف
کی ایک علامت بن گیا۔جان لیوا وائرس انسانوں کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت کو
بھی نگل گیا ، اس وباء سے جہاں عالمی منڈی تباہی سے دوچار ہوئی وہیں تیل کی
قیمتیں کم ترین سطح پرپہنچنے سے چینی کرنسی یوآن کی قدبھی گر گئی ۔ دنیا کی
بڑی سٹاک مارکیٹس کریش کرگئیں۔ امریکہ ،یورپ ،بحرالکاہل اور ایشیا ء کے کئی
ممالک نے’’سپر سپریڈر‘ ‘ وائرس کی نئی مہلک قسم کے خلاف مزید احتیاطی
اقدامات متعارف کروائے گئے لیکن مہلک وبا پر مکمل قابو نہ پایا جا
سکاکیونکہ ’’کرونا‘‘کی دوسری لہر مزید خطرناک ہے جس سے بچاؤ کیلئے یورپ میں
لاک ڈاؤن جبکہ بیشتر ممالک میں حفاظتی ہدایات پر عملدرآمدکیا جا رہا
ہے،یہاں دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ’’کرونا‘‘وائرس سے متاثرہ بعض ممالک میں
جہاں لاک ڈاؤن اور سخت حفاظتی اقدامات کئے جانے پر زور دیاجاتا رہا تو وہیں
بعض ممالک اس سلسلے میں کی گئی سخت پابندیوں میں نرمی کر دی گئی ۔یاد رہے
کہ دنیا بھر میں اب تک 5کروڑ سے زائد افراد میں ’’کرونا‘‘ کی تشخیص ہوئی
ہے۔’’ کووڈ 19 ‘‘سے ہونے والی اموات کی تعداد12لاکھ کے لگ بھگ ہے۔یورپ میں
برطانیہ کے علاوہ فرانس، جرمنی، بیلجیئم اور یونان میں رواں سال کے دوسرے
لاک ڈاؤن کیا گیا ۔ سپین اور فرانس بھی’’ کرونا‘‘ سے سب سے زیادہ متاثرہ
ممالک میں شمارکئے جاتے ہیں جہاں سخت حفاظتی اقدامات کئے گئے ۔امریکہ اب تک
عالمی سطح پر’’کرونا‘‘ وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔
صدارتی انتخاب سے چند روز قبل یہاں ریکارڈ 94 ہزار نئے متاثرین کی تصدیق
ہوئی، اب تک مجموعی طور پر متاثرین کی تعداد ایک کروڑ جبکہ کرونا سے2لاک سے
زائد اموات ہو چکی ہیں۔ امریکی صدار تی انتخابات کے دوران 21 ایسی ریاستوں
میں وبا ء تیزی پھیلی جو اہم سمجھی جاتی تھیں۔برطانیہ میں اب تک11 لاکھ سے
زائدافراد اس وائرس سے متاثرجبکہ تقریباً 50ہزار اموات ہوچکی ہیں۔
’’کرونا‘‘کی پہلی لہر نے جب دنیا کے بیشتر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا
تو ٹرین، بس اور فضائی سروس مکمل بند ہونے سے ریلوے سٹیشنز اور ائیرپورٹس
سنسان نظر آئے،برٹش ائیرویز اور انڈونیشیا کی ائیر لائن نے چین کے لئے جبکہ
روسی ائیر لائن نے پیرس،روم سمیت کچھ یورپی ممالک کے لئے بھی پروازیں منسوخ
جبکہ امریکہ ،کینیڈا ، جرمنی اور نیوزی لینڈنے اپنے شہریوں کے لئے سفری
وارننگ جاری کیں،جاپان نے خصوصی طیارے کے ذریعے اپنے شہریوں کو ووہان سے
نکالنے کو ترجیح دی ، شمالی کوریا نے کسی بھی غیر ملکی سیاح کیلئے اپنے ملک
کے دروازے بند کردئیے،ایران،بنگلہ دیش ،بھارت ،اور دیگر ایشیائی ممالک کی
صورتحال بھی کچھ ایسی ہی رہی۔جاپانی کارساز کمپنی نے 9 فروری تک چین میں
اپنے پلانٹس بند کرنے کا اعلان کیا ۔ دنیا کی بڑی معاشی طاقتوں نے مزید
مالی نقصان سے بچنے کے لئے عالمی ادارہ صحت(ڈبلیوایچ او ) اور گلوبل ہیلتھ
سکیورٹی ڈویژن کو خبردارکر دیا ہے کہ عالمی ہیلتھ ایمرجنسی کے نفاذکی صورت
میں دنیا کے بڑے ممالک اور کارپوریشنز دونوں عالمی اداروں کی فنڈنگ بند
کردیں گے ، یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ کسی عالمی ادارے کو اقدامات کرنے سے
بلیک میلنگ کرکے روکا گیا ہو بلکہ ماضی میں بھی عالمی سطح کی
کارپوریشنزاکثربراہ راست یا حکومتوں کے ذریعے ایسے معاملات میں ملوث رہی
ہیں ۔ 2002 ء میں بھی چین میں اسی قسم کے وائرس سے سینکڑوں افراد ہلاک
اورہزاروں متاثر ہوئے تھے۔ 2003ء میں’’ چائنیز سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ
پروٹیکشن ‘‘کے5 سائنسدانوں کی سنگین غلطی کی وجہ سے’’ SARS‘‘سارس نامی
وائرس دنیا بھر کے 26ممالک میں پھیلا جس سے ہزاروں افراد اس کی لپیٹ میں
آئے۔عالمی سائنسدانوں کے مطابق’’ SARS‘‘کی مزید پیچیدہ شکل’’ کرونا ‘‘وائرس
ہے اور ان کے خیال میں یہ اسی وائرس کا ایک تسلسل ہے جسے اس صدی کی پہلی
دہائی میں مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا،اس وائرس کے پھیلنے کی بڑی وجہ
ان افراد کو قرار دیا گیا جن کی غذا میں سانپ اور چمگادڑیں شامل ہیں کیونکہ
اس سے پہلے’’ SARS‘‘وائرس کے حوالے سے بھی یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ چمگادڑ
سے پھیلا تھا اور ان دونوں وائر س سے ہونے والی بیماری کی علامات بھی
تقریباً ایک جیسی ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ 7سوبرس قبل طاعون کی وباء جسے’’
سیاہ موت‘‘ بھی قرار دیاگیا تھا نے 1346ء سے 1353 ء تک یورپ اور ایشیا ء کے
ممالک کو اس قدر اپنی لپیٹ میں لئے رکھاکہ 20 کروڑ افراد زندگی کی بازی ہار
گئے اور اب پراسرار موذی مرض نے امریکہ، آسٹریلیا ،جاپان، جنوبی کوریا،
تھائی لینڈ، فلپائن، تائیوان،پاکستان ،بھارت،جنوبی کوریا سمیت دنیا بھر کے
ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کو شدید تشویش میں مبتلا کررکھاہے۔کرونا
وائرس کی بہت سی اقسام ہیں لیکن ان میں سے 6 اور اس حالیہ وائرس کو ملا کر7
ایسی قسمیں ہیں جو انسانوں کو متاثر کرتی ہیں انہی کی وجہ سے بخار سے سانس
کی نالی میں شدید مسئلہ ہوتا ہے۔دنیا بھر میں 70 فیصد سے زائد طبی اموات
موذی امراض جیسا کہ ہیپاٹائیٹس، ذیابیطس، ٹی بی، ایڈز اور کینسر کے باعث
ہوتی ہیں لیکن 80 فیصدکے لگ بھگ افراد کا تعلق ان ممالک سے ہے جو ترقی پذیر
اورپسماندہ ہیں،مقام افسوس ہے کہ پاکستان کا شمار بھی انہی ممالک میں ہوتا
ہے جہاں ہر سال لاکھوں افراد انہی موذی امراض کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے
ہیں کیونکہ اس کی بڑی وجہ طبی سہولیات کا فقدان اور سرکاری ہسپتالوں کی
ناقص صورتحال ہی گردانی جاتی ہے ۔
|