بلال بہت پیارا اور ذہین بچہ تھا
۔ پانچویں جماعت میں زیر تعلیم تھا ۔ جب سے اس کی موسم گرما کی تعطیلات
شروع ہوئی تھیں اس کا تو خوشی سے برا حال تھا کیونکہ امی،ابو نے کہا تھا کہ
وہ ایک ماہ کے لئے اسے اور اسکی بڑی بہن سعدیہ کو ملتان نانی کے گھر بھیجیں
گے لیکن پہلے ان دونوں کو چھٹیوں کا کام مکمل کرنا ہوگا جو انہوں نے جون کے
پہلے دو ہفتوں میں ہی کرلیا ۔ ابو ان کے ٹکٹ لے آئے تھے ۔ بیس تاریخ کو ابو
ان دونوں بہن بھائی کو ملتان لے جاتے ۔ خوشی کی وجہ سے انہیں تو نیند بھی
نہیں آرہی تھی ۔
ایک دن امی اور ابو نے بلال ، سعدیہ اور سب بہن بھائی سے کہا کہ“ہم ضروری
کام سے جارہے ہیں ۔ تم گھر میں ہی رہنا ۔ باہر نہ جانا اور کوئی شرارت نہ
کرنا“ بلال اور سب نے امی،ابو سے وعدہ کیا کہ وہ گھر میں ہی مل جل کے
کھیلیں گے ۔
امی۔ابو کے جانے کے بعد تھوڑی دیر تو وہ سب ملکر کھیلتے رہے پھر ٹی وی پر
کارٹون لگا کر بیٹھ گئے ۔ یہ تو بلال کے بھی بہت ہی پسندیدہ کارٹون تھے ۔
کچھ دیر بعد بلال نے سعدیہ سے کہا“ چائے بنالو“
سعدیہ جو کارٹون دیکھنے میں مگن تھی ٹی وی اسکرین پر نظریں جمائے جمائے ہی
بولی ‘ بھئی ! میں ابھی نہیں تھوڑی دیر بعد بنادونگی“
لیکن بلال کا تو چائے پینے کو بہت دل چاہ رہا تھا اس لئے وہ چپکے سے اٹھا ۔
کچن میں گیا اور چائے کی کیتلی میں تھوڑا سا پانی ڈالا اور ڈھیر ساری چینی
اور پتی ڈال کر چولہا جلادیا ۔ اب وہ وہیں کھڑا ہوکر چائے بننے کا انتظار
کرنے لگا ۔
کچھ دیر بعد سعدیہ نے گردن موڑ کر دیکھا تو بلال کمرے میں نہیں تھا ۔ وہ
تیزی سے اٹھ کر کچن میں گئی اور جیسے ہی اسے چولہے کے پاس کھڑا دیکھا زور
سے چلائی“بلال!“
بلال نے جیسے ہی اس کی آواز سنی گھبرا کے سیڑھیوں کی طرف بھاگا کیونکہ امی
اسے چولہے کے پاس جانے سے منع کرتی تھیں اس لئے وہ سمجھا سعدیہ اسے مارے گی
اور امی،ابو سے شکایت بھی کردے گی۔
اچانک اس کا پاؤں مڑا اور وہ دوری سیڑھی پر ہی پاؤں پکڑ کے بیٹھ گیا اور
زور زور سے رونے لگا ۔ سب بہن بھائی اور سعدیہ گھبرا گئے کہ اسے کہیں زیادہ
چوٹ نہ لگی ہو مگر وہ ہاتھ ہٹا کر پاؤں کسی کو دکھا ہی نہیں رہا تھا بس زور
زور سے روئے جارہا تھا کہ گیٹ پر ابو کی موٹر سائیکل رکنے کی آواز آئی۔
سعدیہ نے بھاگ کر گیٹ کھولا ۔ امی اور ابو نے بلال کے رونے کی آواز سنی تو
تیزی سے اوپر آئے ۔ ابو نے بلال کو گود میں اٹھایا اور جلدی سے حکیم صاحب
کے پاس لے گئے ۔
انہوں نے پاؤں دیکھا تو بتایا کہ موچ آئی ہے ۔ پھر انہوں نے تیل مل کر پاؤں
پر پٹی باندھی اور زیادہ چلنے پھرنے کو منع کیا اور تاکید کی کہ بلال آرام
کرے تاکہ جدی پاؤں ٹھیک ہوجائے ورنہ سوجن اور بڑھ جائے گی۔
ابو بلال کو گھرلائے تو امی نے اسے سمجھایا“دیکھا بیٹا! میں تمہیں اسی لئے
شرارتوں سے منع کرتی ہوں اب تمہارا پاؤں ٹھیک ہونے میں ٹائم لگے گا ۔ اب
تمہیں پتہ چلا کہ جو بچے امی اور ابو کا کہنا نہیں مانتے انہیں نقصان
اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ ان سے اللہ میان بھی ناراض ہوجاتے ہیں اور چوٹ لگاکر
سزا دیتے ہیں“
بلال نے امی اور ابو سے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ انکی ہر بات مانے گا ۔ ایسی
شرارتیں نہیں کرے گا جن سے نقصان اٹھانا پڑے اور اب مکمل آرام کرے گا تاکہ
ملتان نانی کے گھر جانے سے پہلے پاؤں ٹھیک ہوجائے اور چلنے پھرنے بلکہ
بھاگنے دوڑنے لگے ۔
امی نے بلال کو پیار سے گلے لگا لیا۔
(ٰیہ کہانی میں نے دی پروگرامرز اسکول میں پڑھنے
والے اپنے ٹیوشن اسٹوڈنٹ بلال کو اس کے اردو کے گرمیوں کی چھٹیوں میں ملنے
والے ہوم ورک میں لکھوائی ہے ) |