موجودہ دور علم وفن اورتعلیم و
تربیت کے عروج کا دور سمجھا جاتا ہے، ہر شخص اعلیٰ تعلیم کے حصول میںدر، در
کے چکر کاٹ رہا ہے اور جب کسی کو زبان الٹی کرکے Yes،No،ڈ یڈی ، ممی اور
اسی طرح کے مزید چند ڈائیلاگ بولنا آجائیں تو وہ خود کو بڑاخوش قسمت،بلند
منصب اور معاشرہ کا معزّز ترین فرد سمجھنے لگتا ہے اور اسی طرح کے الفاظ
بول کر اپنی ناک اونچی کرنے کے زعم میںمبتلا رہتا ہے ۔اور اگر کوئی شخص ’’گوروں‘‘کی
یہ’’ کالی زبان ‘‘نہ بول سکے تو اسے Dull(احمق)تصور کیا جاتا ہے۔
بعض حضرات تو محض چند الفاظ رٹ کر اپنی’’ عزت‘‘ بنانے کے چکروںمیں ہوتے ہیں
اور بس!…لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے لو گ کہلاتے تو مسلمان ہیں لیکن
زیادہ تران کا حال یہ ہو تا ہے کہ اسلام کی ابتدائی تعلیم سے بھی بے بہرہ
اور تہی دامن ہوتے ہیں۔کلمہ اور نماز تک کا تلفظ(لفظ پڑھنے کا طریقہ بھی)
درست نہیں ہوتا،وضو اور طہارت کا صحیح طریقہ نہیں آتا۔اس کی بنیادی وجہ یہی
ہے کہ زیادہ تر وا لدین نے ابتداء سے ہی اپنی اولاد کو دینی اور مذہبی
تربیت سے محروم رکھا ہے، پیدا ہوتے ہی اسے تلاوت و نعت کی جگہ گانوں کی
آواز سننے کو ملی، جب کچھ قوتِ گویائی حاصل ہوئی توکلمہ طیبہ کی جگہ ابو ،امی
اورخاندان کے بڑے لوگوں نے ایک دوسرے کو گالیاں دینا سکھایا اورکچھ مزید
ہوش سنبھالا تو وہ زمانہ لڑتے جھگڑتے گزر گیا۔نہ ماں نے ’’پہلی تربیت گاہ‘‘
ہونے کا کردار ادا کرتے ہوئے اسے احساس دلایا کہ وہ مسلمان ہے اور اس پر
اسلام کے کچھ حقوق اور فرائض ہیں اور نہ ہی باپ نے اپنااسلامی فریضہ
اداکرتے ہوئے اسی کسی دینی ماحول کے حوالے کیااور نہ ہی بذات خود تعلیم
وتربیت کی ذمہ داری سنبھالی،اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب وہ ’’بہادر خان‘‘
اسلام اور مسلمانی کو صرف’’مولویّت‘‘قرار دے کر اس کے تصور سے بھی
دوربھاگنے لگا اور نتیجہ یہ نکلا کہ
نہ سیکھا دین رہ کر شیخ کے گھر میں
پلے کالج کے چکر میں مرے صاحب کے دفتر میں
اور پھر
کیا کہوں احباب کیا کارے نمایاں کر گئے
بی۔ اے کیا، نوکرہوئے،پنشن ملی اور مر گئے
ظاہر ہے کہ ایساانسان اور تو سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن وہ اسلامی معاشرے کا
فرد کہلانے کا حقدار نہیں ہے،کیونکہ اسلام کے نزدیک اصل اور بنیادی چیز
دینی اور مذہبی تربیت ہے، باقی سب ہیچ…ملاحظہ ہو!
o…حضور اکرم انے ارشاد فرمایا:
مانحل والد ولدا من نحل افضل من ادب حسن۔(ترمذی جلد۲صفحہ ۷ ۱)
یعنی باپ کااپنی اولادکے لیے اچھے ادب سے بہترکوئی تحفہ نہیں ۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
من کانت لہ ثلاث بنات اوثلاث اخوات اوابنتان او اختان فاحسن صحبتھن واتقی
اللہ فیھن فلہ الجنۃ(ترمذی جلد۲صفحہ۱۳)
جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں،دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں ،اور وہ ان کی
اچھی تربیت کرے اوران کے متعلق خدا سے ڈرے تو اس کے لیے جنت ہے۔
o…مزید ارشاد فرمایا:
اذا أفصح أولادکم فعلموھم:لاالہ الا اللہ۔۔الخ۔(عمل الیوم واللیۃ صفحہ۱۴۵)
جب تمہاری اولاد واضح طور پر باتیں کرنے لگے تو انہیں لاالہ الا اللہ کی
تعلیم دو ۔
o…ایک اور روایت میں فرمایا:
ادبوا اولادکم علی ثلاث خصال حب نبیکم وحب اہل بیتہ و قرأۃ القرآن۔(الجامع
الصغیر جلد۱صفحہ۴۲)
یعنی اپنی اولاد کو تین چیزیں سکھاؤ!اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی
محبت ،آپ ا کے اہل بیت رضی اللہ عنہم کی الفت اور قرآن کی تلاوت۔
٭…حضرت زیاد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
نحن نقرء القرآن ونقرئہ ابناء نا ویقرئہ ابنآء نا ابنآئہم الی یوم
القیامۃ۔(ابن ماجہ صفحہ۳۰۳،مشکوۃ صفحہ۳۸)
یعنی :ہم خود بھی قرآن پڑھتے ہیں اور اپنے بیٹوں کو بھی سکھاتے ہیں اور
ہمارے بیٹے اپنے بیٹوں کو قیامت تک قرآن سکھاتے رہیں گے۔
ترمذی کی روایت میں ہے وقد قرأنا القرآن فواللہ لتفرأنہ نسائنا وابنآئنا ۔
الحدیث ۔(ترمذی جلد۲صفحہ ۹۰،دارمی جلد۱صفحہ ۹۹)
اور تحقیق ہم نے قرآن پڑھا قسم بخدا!ہم اسے ضرور بضرور خود پڑھیں گے اور
اپنی عورتوں اور بیٹوں کو پڑھائیں گے۔
معلوم ہوا کہ والدین پر لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کو دینی تعلیم دیں یا
دلوائیں تاکہ اسے دین فطرت یعنی اسلام کی خوبیوں کا علم ہواور اس کی زندگی
اسلام کے آفاقی اصولوں کے سانچے میں ڈھل جائے اور دارین کی سعادتوں سے بہرہ
یاب ہوسکے۔ |