"یاروں کے دم سے چمن میں بہار" ( حصہ اول)
تحریر: عارف مجید عارف
ہم فطرتا"سست الوجود واقع ہوئے ہیں۔۔اس بات میں کوئ دو رائے نہیں ہیں بلکہ
حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے کچھ اپنے آپ کو مارجن دے دیا ہے حالانکہ
بہت،زیادہ،بےحد اور کافی کے سابقے بھی شامل کرلیئے جائیں تو غلط نہ
ہوگا۔۔۔ہماری اس سست الوجودی کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ ہماری شوہرانہ زندگی
کیے مصائب کو بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ آخر کو آپ سب بھی تو شوہر قبیلے سے ہی
تعلق رکھتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ کچھ دکھ سانجھے بھی ہوتے
ہیں۔۔۔اپنی اسی سستی کی وجہ سے ہم اک لاجواب ملاقات کا احوال لکھنا چاہتے
ہوئے بھی نہ لکھ سکے۔۔۔۔۔ بالکل ایسے ہی جیسے آتش کی جوانی کے عالم میں
جتنی بھی ریشمائیں جوان ہوئیں اور تیر کمان ہوئیں ہم سب پر ڈورے ڈالنے میں
سستی کرگئے اور کسی اور دوست یا پڑوسی کہ دام الفت میں گرفتار ہوگئیں۔۔۔
اسی طرح بھائ اکمل معروف نے پہلی ہی گیند پر چھکا مارتے ہوئے اس ملاقات کا
قصہ لکھ ڈالا۔۔ لیکن جب ہم نے ان کا لکھا احوال ملاقات پڑھا تو طبعیت کی
ساری کلفت دور ہوگئی۔۔کیونکہ انہوں نے اس ملاقات کی وہ منظر کشی پیش کی کہ
ایسا لگتا ہے کہ اب بھی ملاقات جاری ہے۔۔۔انہوں اپنے قلم کا حق ادا کرتے
ہوئے ملاقات کا لطف دوبالا کردیا۔۔۔انہوں نے اس حسین ملاقات کو اتنے دلچسپ
پیراہے میں قلم بند کیا یے کہ انکے مشاہدے کی داد دینی پڑے گی کہ کوئ گوشہ
بھی نظر انداز نہیں ہوا۔۔۔پورے بیانیے میں انکی گرفت قلم اپنا آپ منواتی
رہی۔۔انکی اس خوبصورت تحریر کے بعد اب اس بیٹھک کے بارے لکھنا بےسود ہی تھا
لیکن کیا کریں کہ ہمارے پیٹ کا درد بھی سیاست دانوں کی حرص حوس کی طرح ختم
ہی نہیں ہو رہا تھا اسی لیئے ہم بھی یہ داستان لکھ رہے ہیں۔۔پہلے ہی عرض
کردیں کہ تمام کردار ۔۔مقامات اور واقعات حقیقی ہیں۔۔اور ان سے کسی کو
تکلیف ہوتی ہے تو ہوتی رہے۔۔سانوں کی۔۔۔
عرصہ تینتیس چونتیس سال قبل ہم اس دور کی نسل پر احسان کرتے ہوئے بچوں کے
لیئے لکھنا چھوڑ چکے تھے اور بچوں کے ادب سے دور دور رھے۔۔ویسے اس میں
"بچوں" کا لفظ اضافی ہے ہم ادب اداب سے کوسوں دور ہیں۔۔کورونا کے ابتدائ
ایام یعنی مارچ کے وسط سے کچھ فراغت حاصل ہوئی تو فیس بک میں غرق ہونے
لگے۔۔۔ہمارے اک ہم عصر خلیل ملک جو اب خلیل جبار یوچکے ہیں ان سے فیس بک پر
رابطہ ہے۔۔انکے فرینڈس پر نظر ڈالی تو نوشاد عادل کا نام دکھائ دیا۔۔۔نوشاد
عادل کی تحاریر ہم نونہال، سرگزشت اور جاسوسی ڈائجسٹ میں پڑھ چکے تھے۔۔۔وہ
بہت اچھا اور اچھوتا لکھتے ہیں۔۔پھر انکے نام کے ساتھ حیدرآباد لکھا ہوا
تھا جو ہمارا عشق ہے تو انہیں فرینڈ ریکوئسٹ بھیج دی جو دو اک دن میں منظور
ہوگئی۔۔نوشاد عادل کی قلم کاری تو اک طرف ۔۔۔انکے بھائ عمیر عادل کی مصوری
کے شاہکاروں نے ہمیں مسحور کردیا۔۔۔انکے فن اور نوشاد عادل کی تحاریر پر
فیس بک پر گفتگو ہونے لگی۔۔۔وہ نہ جانے کیوں ہمارے دل میں گھر کرگئے بلکہ
یوں کہیں کہ ان سے چھوٹے بھائ والی انسیت پیدا ہوگئی ۔۔۔
اسی دوران فون نمبر کا تبادلہ ہوا۔۔اور ہم نے انہیں فون کیا۔۔۔آپ نوشاد بات
کر رہے ہیں۔۔جواب ملا نہیں۔۔تو ہم بولے تو پھر آپ ناشاد ہیں شکر کریں برباد
نہیں ہیں۔۔دوسری طرف سے ہنسے کی آواز آنے لگی۔۔ انکی شرارتوں سے تو ہم انکی
آپ بیتی پڑھ کر واقف ہی تھے۔۔یہ دو اجنبیوں کے دوران پہلی گفتگو تھی جس میں
تکلف کا شائبہ بھی نہ تھا۔۔۔وہ ٹیلیفونک گفتگو 45 منٹ جاری رہی۔۔۔ وہ ہمیں
فیس بک پر سر کہتے تھے جو ہم نے اصرار کرکے بڑے بھای کے صیغے میں تبدیل
کرایا۔۔۔دوران گفتگو بھی اور اس سے قبل بھی وہ ہمیں دوبارہ لکھنے کے سلسلہ
کو شروع کرنے کی کوشش میں لگے رہے اور ہم ٹالنے کی۔۔۔۔ دونوں طرف سے
آزادانہ خیالات کا تبادلہ ہوتا رہا۔۔۔پھر یہ خوشگوار بات چیت اختتام تک
پہنچی۔۔۔
اس گفتگو کے دوچار دن بعد ہی حیدرآباد میں برساتوں کے اک طویل سلسلے کا
آغاز ہوگیا۔۔۔انہی برساتوں کے دوران ایک دن بھائ اکمل معروف سے ٹیلیفونک
رابطہ ہوا۔۔۔اکمل معروف موجودہ دور کے بچوں کے بہت اچھے ادیب و شاعر ہیں
اور بہت ہی کاٹ والے افسانچے بھی تخلیق کرتے ہیں۔ایک ہی علاقے میں رہائش
پزیر ہونے باوجود ہم اجنبی تھے۔۔۔یہ پہلا موقع تھا کہ ان سے بات ہو رہی
تھی۔۔۔اس گفتگو کے دوران رسم تعارف بھی ادا ہوگیا اور کچھ باہمی دلچسپی کی
باتیں بھی ہوئیں۔۔۔ان سے ایک تعلق یہ بھی نکل آیا کہ میرے 40 سال پرانے
عزیز دوست شمیم مرتضی جوکہ سی ایس ایس افسر ہونے کے ساتھ ایک اچھے شاعر و
ادیب بھی ہیں اور انکا ایک شعری مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے۔۔وہ اکمل بھائی
کے سابقہ پڑوسی ہیں اور اب بھی رابطے میں ہیں۔۔۔۔اکمل بھائ سے جلد ملاقات
کے وعدے پر یہ گفتگو تمام ہوئی۔۔۔۔
( حصہ دوم )
اس سے قبل کہ اس قسط کا آغاز کیا جائے ہم اس احوال ملاقات کے عنوان کے بارے
میں یہ واضح کردیں کہ اس میں ہم نے یاروں "کے" دم سے بہار کا ذکر کیا ہے
یاروں "کی" دم سے نہیں ۔۔ ہاں کچھ ایسے نام نہاد یار بھی ہیں کہ جن کی دم
پر پیر پڑجائے تو جان کو آجاتے ہیں اور نہ ہی ہم نے ایسے یاروں کا ذکر کیا
ہے ہے کہ جو ناک میں دم کر دیتے ہیں ۔۔۔۔
چلیے واپس احوال ملاقات کی کی طرف آتے ہیں تو ذکر ہورہا تھا اکمل بھای سے
ٹیلی فونک گفتگو کا۔۔اکمل بھائی سے بات ہوئی اس سلسلے میں ایک بات بھول گئے
تھے وہ اب یاد آئی تو اس کا ذکر کر نا ضروری ہے۔۔ اکمل بھائی نے ہم سے
پوچھا کہ ارے بھائی آپ کیا کرتے ہیں تو ہم نے جواب دیا کہ بھائی ہم گالیاں
سنتے ہیں۔۔۔ بولے ۔۔اس کا کیا مطلب ہے؟۔۔۔ہم نے جواب دیا کہ مطلب یہ ہے کہ
ہم محکمہ پولیس میں ملازم ہیں اور محکمہ پولیس کے حصے میں جو کردہ اور
ناکردہ گناہوں کی گالیاں آتی ہیں ہم اس کے حصہ دار ہیں اور اس لئے بھائی ہم
نے کہا کہ ہم گالیاں سنتے ہیں۔۔ لیکن یاد رہے اب عوام کی گالیوں میں پولیس
کا حصہ بہت کم ہو گیا ہے اور اسکا بہت بڑا حصہ اپنے کرتوت کی بنا پر محکمہ
واپڈا نے اپنے سر لے لیا ہے اور اب وہ ان گالیوں سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔۔۔
اس روداد ملاقات کی جب گزشتہ دنوں پہلی قسط پوسٹ ہوئی تو اس میں نوشاد عادل
نے اپنے تبصرے میں ہمہارے جواب میں لکھا کہ ارے بھائی آپ کہاں بوڑھے ہیں
ابھی تو آپ جوان ہیں تو ان کی اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ ہمیں تو بھائی آےدن
یہ باور کرایا جاتا ہے اور یہ کلمات سننے کو ملتے ہیں کہ اب بڑھاپے میں بھی
آپ کے چونچلے بڑھتے ہی جارہے ہیں چھچھور پن ختم نہیں ہورہا ہے ۔۔اب آپ خود
ہی بتایئے کہ ہم اپنے آپ کو بوڑھا نہ گردانے تو کیا کریں۔۔۔۔ ویسے دوستوں
حق ایمان سے بتائیے یہ تجربہ تو آپ سب کے ساتھ بھی ہوتا ہوگا ۔۔۔یہ اور بات
ہے کہ آپ مانیں یا نہ مانیں ہم تو اس بات کا ببانگ دہل اعلان کر رہے ہیں
۔۔۔۔۔
اب واپس چلتے ہیں احوال ملاقات کی طرف۔۔۔تو ذکر ہو رہا تھا کی اکمل معروف
بھائ سے ٹیلی فونک گفتگو ختم ہو گئی تھی۔۔۔
چند بعد نوشاد عادل کا میسنجر پر پیغام ملا کہ میں جمعہ 8 محرم کی شام حیدر
آباد آ رہا ہوں اور ہفتے کی شام واپس کراچی چلا جاؤں گا تو آپ سے اکرم
بریانی پر ملاقات ضرور ہوگی۔۔۔۔۔ ہم نے انہیں فون پر بتایا کہ ہم محرم کے
ابتدائ دس دنوں میں بے انتہا مصروف ہوتے ہیں کیونکہ ہماری نوکری کی نوعیت
مووی آڈیو ویڈیو اور فو ٹو گرافی ہے اور محرم کے دنوں میں ہمارا کام بہت
بڑھ جاتا ہے ۔۔۔۔۔ان دنوں ہم صبح کے گئے رات دیر تک واپس آتے ہیں۔۔ یا ایسا
ہوتا ہے کہ صبح چلے جائیں تو شام ساڑھے چھ بجے واپس آ کر نو بجے دوبارہ
جانا ہوتا ہے پھر رات گئے ڈھائی تین بجے واپسی ہوتی ہے تو بڑا مشکل ہو جائے
گا اس ملاقات کے لیے وقت نکالنا بہرحال دیکھیں۔۔ اللہ تعالی شاید کوئی سبیل
نکال دیں ۔۔۔ تو انہوں نے کہا کہ فکر کی کوئی بات نہیں ہے وقت ملے تو
ملاقات کر لیجئے گا ورنہ پھر کبھی آئندہ سہی۔۔۔
جمعہ 8 محرم کی سہ پہر ہم اپنے دفتر میں بیٹھے تھے کہ کہ نوشاد عادل کا
میسج آیا کہ میں اور وجاہت کراچی سے نکل رہےہیں اور سیدھا لطیف آباد گیارہ
نمبر پہنچیں گے آپ سے آٹھ بجے ملاقات ہوگی۔۔۔۔ ہم نے انہیں فورا کال کی اور
کہا کہ بھائی ہم ابھی دفتر میں ہیں اور اور ہمیں شام گھر جا کر دس بجے واپس
بھی آنا ہے کیوں کہ محرم کے سلسلے میں ہم ان دنوں میں رات کے وقت ایک سرچ
آپریشن کرتے ہیں جس میں تمام ہوٹل، ہاسٹل اور گیسٹ ہاؤس کی تلاشی لی جاتی
ہے کہ کوئی شرپسند عناصر تو وہاں رہائش پذیر نہیں ہے ۔۔۔اس لیئےکوشش کرتے
ہیں کہ ملاقات کا کوئ حل نکل آئے۔۔۔
ساڑھے سات بجے جب ہم گھر واپس جا رہے تھے کہ گھر جا کر نماز کی ادائیگی اور
کھانے کے بعد ہمیں پھر دس بجے واپس اس مقام پر پہنچنا تھا جہاں ہم تمام
افسران کو جمع ہوکر اس سرچ آپریشن کے لیے جانا تھا تو سات بجے ہم نے گھر کے
لیئے نکلنے سے پہلے نوشاد عادل کو فون کیا کہ بھائی ! ۔۔۔کیا پروگرام ہے تو
انہوں نے کہا کہ ہم حیدرآباد کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں اب جو بھی پروگرام
ہو گا میں آپ کو بتا دوں گا۔۔۔۔
ہم گھر کے لیئے روانہ ہوگئے۔۔۔۔ابھی شاور لینا شروع کیا تھا کہ باہر چارجنگ
پر لگا فون چلانے لگا۔۔۔کچھ دیر بعد دیکھا تو نوشاد عادل کی کال
تھی۔۔۔انہیں فون کیا تو کہنے لگے آپ اکرم بریانی پہنچ جائیں۔۔ہم وہیں آرہے
ہیں۔۔۔(یہاں اکرم بریانی کی انتظامیہ کے کوئ صاحب یہ تحریر پڑھ رہے ہوں تو
ان سے درخواست ہے تھوڑی بہت تحفتا" بریانی کا تو ہمارا حق بنتا ہے۔۔۔۔آخر
اتنی بار انکا تذکرہ کر چکے ہیں اور آگے بھی ہوگا تو اسے مفت کا اشتہار
جانیئے۔۔۔)
حصہ آخر
گزشتہ قسط کا اختتام اس بات پر ہوا تھا کہ نو شاد عادل نے اکرم بریانی
پہنچنے کا پیغام دیا تھا۔۔ سو ہم مطلوبہ جگہ پہنچ گئے جو ہمارے گھر سے موٹر
سائیکل پر صرف پانچ منٹ کی مسافت پر واقع ہے ۔۔ وہاں پہنچ کر ہم نے
نوشادعادل کو فون کیا تو وہ کہنے لگے آپ وہیں رکیں میں وجاہت کو بھیج رہا
ہوں آپ کو لے آئے گا۔۔۔
اب جب وجاہت کا ذکر آیا ہے تو ان کا تعارف بھی ہونا بہت ضروری ہے ۔۔ وہ
ہمارے لئے ہم ان کے لئے یکسر اجنبی ہیں ۔۔ان کا تعارف یہ ہے کہ وہ بھی بچوں
کے لیے کہانیاں لکھتے ہیں گو کہ ہم ان کی کسی بھی تحریر سے مستفید نہیں ہو
سکے ہیں لیکن نوشاد عادل اور اکمل بھائی کی یہ رائے کہ ان کی کہانیاں بہت
اچھی ہوتی ہے ۔۔ بہت مقدم ہے ۔۔ ان کا دیگر تعارف یہ ہے کہ وہ ہم سب سے کم
عمر ہیں اکمل بھائ کے پڑوسی ہیں جبکہ نوشاد عادل سے کراچی میں میل ملاپ
رکھتے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کے جو ان کا دھانسو قسم کا تعارف ہے وہ یہ ہے
کہ وہ پی سی ایس کا امتحان پاس کر کے سندھ گورنمنٹ میں بطور اسسٹنٹ کمشنر
افسر تعینات ہیں۔۔ اب ہمیں یہ فکر لاحق ہو گئی تھی کہ یہ جو اسسٹنٹ کمشنر
وغیرہ قسم کے لوگ ہوتے ہیں ان کو پروٹوکول دینا پڑتا ہے گفتگو میں خیال
رکھنا پڑتا ہے ۔۔یہ افسران اکثر مصنوعی خول میں رہتے ہیں ۔۔ان کے ساتھ
بیٹھک میں نہ جانے کیا ہوگا ہمارے منہ سے کوئی الٹی سیدھی بات نکل گئی
تو۔۔۔ کیونکہ ہم ٹہرے زمانے بھر کے بدتمیز حد تک منہ پھٹ ۔۔۔ جو دل میں آتا
ہے وہ کہہ دیتے ہیں ۔۔۔ہمارے لیئےاپنی بات کو اپنے منہ میں رکھنا بہت مشکل
کام ہے۔۔خیر دیکھا جائے گا۔۔۔۔ اللہ مالک ہے
ہم وجاہت کا انتظار کرنے لگ گئے جب پانچ سات منٹ گزر گئے اور کوئی صاحب آتے
ہوئے نظر نہیں آئے تو ہم نے پھر نوشاد اور اکمل بھائ فون کیا تو دونوں طرف
سے یہ جواب ملا کہ نمبر بند ہے ۔۔۔ ہم نے پھر دو تین منٹ وجاہت صاحب کا
انتظار کیا ۔۔۔ہمیں یہ فکر تھی کہ وقت تیزی سے گز رہا ہے اور ہمارے دفتر
جانے کا وقت قریب آتا جارہا ہے۔۔۔۔ایک بار پھر نوشاد عادل کا نمبر ملایا تو
اتفاق سے نمبر مل گیا ۔۔بولے جس علاقے میں اکمل بھائ کا گھر ہے یہاں موبائل
فون کے سگنل کم زور ہیں۔۔۔ ایسا کریں کہ آپ وہیں رکیں۔۔ ہم خود آرہے ہیں۔۔۔
اب صورتحال یہ تھی کہ میرے لیے تینوں صاحبان اور میں تینوں کے لیئے اجنبی
تھا ۔۔۔ اکرم بریانی کے بالکل ہی سامنے ایاز بک ڈیپو واقع ہےجس کے ساتھ ہی
کبھی ریاض لائبریری ہوا کرتی تھی جس سے ہماری بڑی یادیں وابستہ ہیں۔۔۔ہم
وہیں کھڑے انکی راہ دیکھ رہے تھے۔کچھ ہی دیر میں اک رکشے سے دونوں برآمد
ہوئے اور ہمیں ڈھونڈنے لگے ۔۔ ہم سڑک پار کرکے انکے پاس پہنچے اور دونوں کو
ایک ساتھ گلے لگا لیا جو احساس ہوا وہ پنجابی میں بیان کرنے میں زیادہ لطف
ہے۔۔یعنی ٹھنڈ پے گئی۔۔ یوں ہم نے "ادب" کے دائیں اور بائیں دونوں جہاں
مکمل طور پر اپنے سینے میں سمو لیے اور اب تمام کا تمام "ادب" ہمارے بازووں
میں تھا ۔۔ اس لئے خبردار ۔۔حد ادب ۔۔ اب کوئی بھی ہمیں "بےادب" نہ
کہے۔۔زندگی میں دونوں سے اولین ملاقات تھی لیکن ایسا لگ دے رہا تھا کہ ہم
سب بہت پرانے ساتھی ہیں۔۔ حسب معمول اکرم بریانی میں بہت رش تھا بڑی مشکل
سے ایک مشترکہ میز پر چار نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔۔ ہمارے
استفسار پر بتایا گیا کہ وجاہت ابھی پانچ منٹ میں پہنچنے والے ہیں ۔۔ گفتگو
کا سلسلہ شروع ہوا اور اس گفتگو میں میں ایک فیصد بھی شائبہ نہ تھا کہ ہم
زندگی میں پہلی دفعہ مل رہے ہیں سارے تکلف وغیرہ ایک طرف تھے ۔۔ بے تکلفانہ
گفتگو چل رہی تھی ہم نے نوشاد عادل سےکہا کہ آپ کی آپ بیتی اور کچھ تحریریں
پڑھنے اور آپ کی تحریروں کی کثیر تعداد دیکھ کر جب ہم نے آپکی عمر و ہیئت
دیکھی تو ہم نے آپ کو "پاکٹ سائز بم شیل "کا خطاب دیا ہے تو ہسنے لگ گئے۔۔
ہماری اور نوشاد عادل کی گفتگو مقبول جہانگیر،جبار توقیر،مرغوب احمد
راحت(ایم اے راحت)،محی الدین نواب ،احمد اقبال کے طرز تحریر سے ہوتی ہوئ
الف صدیقی کے سلسلوں "کھلاڑی" اور"دائرے" تک جا پہنچی تھی کہ نہ جانے کس
بات پر ہماری شادی کا ذکر نکل آیا تو ہم نے کہا کہ ہمارا تو ابھی "ہنی مون"
چل رہا ہے تو دونوں کے چہروں پر حیرت تیرتی نظر آئ۔۔غالبا" دونوں سوچ رہے
تھے کہ "چاچا" کا دماغ چل گیا ہے جو اس عمر میں بیاہ رچایا ہے
انکی حیرت کو ختم کرتے ہوئے بتایا کہ ہماری شادی کو صرف سات ساڑھے سات ہزار
دن ہی تو گزرے ہیں تو ہماری اس توجیہہ پر دونوں کے چہروں پر ایک میٹھی سے
مسکراہٹ رقصاں نظر آئ ۔۔ہم نے انہیں "علامہ عارف مجید عارف" کا مشہور قول
سنایا کہ اگر زوجین میں محبت کے ساتھ باہمی احترام ، بے تکلفی اور شگفتگی
کا رشتہ ہو تو شب وصل سے وقت لحد تک ہنی مون جاری رہتا ہے۔۔۔اب سب احباب
خود اندازہ لگا لیں کہ وہ ہنی مون منارہے ہیں یعنی چاند کو شہد میں ڈبو رہے
ہیں یا آٹھ آٹھ آنسو رو رہے ہیں۔۔
جبکہ اکمل معروف بھائ سے بھی سلسلہ گفتگو جاری تھا اور ہم ان سے ان کی
زندگی اور ہمارے مشترکہ شناساوں کے متعلق بات چیت کرتے رہے ہمارے دل میں
اکمل معروف کے لیے بڑی محبت تھی اور ہم ان کا شکر ادا کر رہے تھے کہ انہوں
نے یہاں ہم سب لوگوں کو جمع کیا۔۔ لیکن اس جمع کرنے کے بارے میں بھی ہمیں
شریر نوشاد عادل کی تخلیق کردہ ایک اصطلاح یاد آگئی کہ وہ کہتے ہیں کہ جس
طرح تھانے سے تھانے دار ہوتا ہے اسی طرح جمع سے جمعدار ہوتا ہے ۔۔اکمل بھائ
بخدا ہم نے آپ کوایسا کچھ نہیں کہا ہے صرف نوشاد عادل کی اصطلاح کا ذکر کیا
ہے۔۔
اس اثنا میں وجاہت صاحب داخل ہوئے جب ہم نے دیکھا تو جو ہم نے سوچ رکھا تھا
وہ اس کے بر عکس مسرور قسم کے لڑکے نظر آیے۔۔۔ اور اپنے نام کے مطابق بہت
وجیہہ تھے۔ جب ان کے ساتھ دو چار باتیں ہوئیں تو اس بات کی بڑی خوشی ہوئی
کہ اسسٹنٹ کمشنر کی "افسری" نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا ہے اور ان میں "ایسے
افسران" والی کوئی ایک بھی "خوبی" موجود نہیں ہے
کچھ ہی دیر میں ہمارے سامنے بریانی کی پلیٹیں سج گئیں۔۔کھانا تناول کرنے کے
دوران بھی بریانی اور قورمے کی ہر سو چھائ ہوئ اشتہا انگیز خوشبو بھی اس
گفتگو کی مہک کے آگے ماند تھی جو ہمارے مابین جاری وساری تھی۔۔ کھانے کے
اختتام پر ہمیں اندازہ ہوا کہ ہم چاروں ہی اس اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں کہ
جو صرف جینے کے لئے کھاتے ہیں اور ہم سب کا اس اکثیریت ذرا بھی تعلق نہیں
ہے کہ جو صرف کھانے کے لئے جیتے ہیں۔۔(اس میں غذا کے علاوہ دیگر "کھانے"
والی اشیاء بھی شامل ہیں)۔۔
کھانے کے بعد یہ طے پایا کہ چائے پی جائے اور کسی اچھی سکون کی جگہ پی جائے
۔۔۔ کیوں کہ اس وقت ہلکی پھوار پھر سے شروع ہو چکی تھی اس لیے کسی کھلی جگہ
بیٹھنا مناسب نہ تھا۔۔ ہم نے کہا کہ یہ کرتے ہیں کہ ہمارے گھر واقع 10 نمبر
چلتے ہیں وہاں ظفر لسی والے کی دکان میں بھیٹتے ہیں ( یاد رہے کہ ظفر لسی
والا کراچی تک مشہور ہے )۔۔جس کے برابر میں ایک پٹھان کا چائے کا ہوٹل بھی
ہے تو وہیں چلتے ہیں تاکہ چائے اور لسی کے ساتھ ساتھ اپنی باتوں کا کا
ماحول وہی سجایا جائے ۔۔ وجاہت نے یہ کہا کہ عارف بھائی ۔۔۔ اکمل بھائی کی
ٹانگ میں تکلیف ہے انہیں آپ اپنی موٹر سائیکل پر بٹھا لیجئے میری موٹر
سائیکل تھوڑی بلیلہ ٹائپ کی ہے تو ہم نے ایسا ہی کیا۔۔۔ اکمل بھائی کو لےکر
چائے خانے کی طرف روانہ ہوئے راستے میں ان سے باہمی دلچسپی کی گفتگو ہوتی
رہی بلکہ ہم نے اس چائے خانے کے قریب اپنا گھر بھی انہیں دکھایا کہ کبھی
موقع ہو تو آ جاسکیں۔۔۔
پھوار تھوڑی اور تیز ہو گئی تھی ہم چائے خانے کے اندر بیٹھ گئے کر نوشاد
عادل اور وجاہت کا انتظار کرنے لگے ۔۔ دو چار منٹ کے بعد بعد یہ دونوں
تشریف لے آئے۔۔۔ ہم نے ہوٹل کے باہر ہی ان کو روکا اور کہا کہ وجاہت آپ
اندر بیٹھیں میں آپ کی موٹر سائکل پر نوشاد عادل کو اپنا غریب خانہ دکھا کر
آتا ہوں ۔۔انہوں نے موٹر سائکل ہمارے حوالے کی اور کہا بھائ۔۔تھوڑے بریک کم
ہیں اس کا خیال رہے۔۔۔ہم نوشاد عادل کو لے کر اپنا گھر دکھانے روانہ ہوئے
۔۔پہلے ہی مذکور ہے کہ پھوار پڑ رہی تھی اور سڑک پر کیچڑ کے باعث کاف پھسلن
تھی ۔۔ابھی کچھ قدم ہی آگے بڑھے تھےکہ سامنے سے ایک کار کو تیزی سے آتا
دیکھ کر بریک لگانے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ اس نام کی کوئی چیز
موٹرسائیکل میں موجود نہیں ہے۔۔۔ نوشادعادل کو تو اس بات کا احساس بھی نہ
ہوا ہوگا کہ ہم نے کتنی کمال مہارت سے موٹر سائیکل کو لہرا کر آگے جاتی
ہوئی خیمہ زن( عبایوں میں ملبوس) عورتوں کے ٹولے میں غروب ہونے سے
بچایا۔۔۔ہم اس کیچڑ میں مل کر گل و گلزار تو ہوتے نہ ہوتے لیکن تماشائے سر
بازار ضرور ہوتے ۔۔۔۔ ہماری اور شائد نوشاد عادل کی زندگی میں یہ واحد
اتفاق ہوتا کہ ہماری بیگمات کے علاوہ بھی دنیا میں کسی عورت کو بھی اعزاز
حاصل ہوجاتا کہ ہمیں صلواتیں سنا سکیں۔۔۔ اللہ تعالی نے بڑا کرم کیا کہ ہم
کیچڑ میں لت پت ہونے کے ساتھ ساتھ عورتوں سے جنگ سے بھی بچ گئے ۔۔ویسے بھی
یہ آفاقی حقیقت ہے کہ چاہے سو فیصد آپ حق پر ہوں اور مقابل خاتون ہوں تو آپ
کو ہارنے علاوہ کوئی دوسرا راستہ میئسر نہیں ہوتا۔۔۔۔کچھ ہی لمحات بعد
ہمارا گھر سامنے تھا جو ہم نے انہیں دکھایا اور واپس چائے خانے کی طرف
روانہ ہو گئے۔۔وہاں پہنچ کر نوشاد عادل کی فرمائش پر لسی اور باقی سب لوگوں
کے لئے چائے منگوائ گئی۔۔۔
اکمل معروف اور ہم ان سے کافی معلومات حاصل کر تے رہے اور وہ بھی اپنے
تجربات ہمیں منتقل کرتے رہے۔۔کہانی کی بنت،منظر نگاری اور دیگر پہلوں پر
رہنمائ کرتے رہے اور اپنی آنے والی کاوشوں کے متعلق بتانے لگے اور ہم سے
اصرار بھی کرتے رہے کہ عارف بھائی دوبارہ لکھنے کی طرف آ جائیں۔۔۔ ہم نے
کہا کہ بھائی اب ان تلوں میں تیل نہیں۔۔ اب یہاں سے کچھ نہیں نکلے گا ۔۔۔
وجاہت شائد کچھ کم گو ہیں۔۔ ہم نے ان سے بھی ان کی تحاریر،تعلیم ،نوکری اور
دیگر چیزوں کے متعلق بات چیت کی ۔۔۔ان سے گفتگو کرکے اندازہ ہوا کہ وہ
اسسٹنٹ کمشنر ضرورہیں لیکن ان تمام خرابیوں سے دور ہیں جوکہ افسر شاہی کا
خاصہ سمجھی جاتی ہیں۔۔۔ ہمیں تو وہ بڑے اچھے لگے ۔۔ اسی اثنا میں ہم نے
محسوس کیا کہ ہم تو چائے پی رہے لیکن نوشاد عادل باتوں میں مگن ہو کر لسی
کو فراموش کر چکے ہیں ہم نے کہا بھائ لسی تو پی لیں۔۔۔۔ پھر انہوں نے لسی
کو عزت بخشی۔۔ ہمارے دل میں یہ بات آئی کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ لسی کو
دیکھ کر انہیں ان تمام افراد کا عموما" اور کسی "خاص الخاص زنانہ ہستی" کا
خیال نہ دل میں در آیا ہو کہ جو دماغ کی لسی بنانے میں کمال رکھتی ہو ۔۔
اپ کیوں کہ ساڑھے نو بجے چکے تھے اور ہمیں دس بجے اس مقام پر جہاں تمام
افراد کو جمع ہوکر سرچ آپریشن پر نکلنا تھا۔۔اس دفتر میں فون کیا تو یہ
خوشگوار جواب مل کہ ابھی کوئ نہیں آیا ہے۔۔ یوں ہمیں کچھ اور وقت مل گیا کہ
ہم اس حسین محفل سے کچھ اور خوشبو کشید کر سکیں۔۔۔قصہ مختصر یہ کہ دو چار
تصویریں بنائی گئی۔۔نوشاد عادل سے ان کی گذشتہ لطیف آباد میں گزری زندگی کے
بارے میں گفتگو بھی ہوئ۔۔ اکمل بھائ سے بھی اسی موضوع پر بات چیت جاری
رہی۔۔اب 10 بج چکے تھے اور ہم یہ دعا کر رہے تھے کہ بارش تھوڑی سی تیز ہو
چکی ہے تو شاید سرچ آپریشن ملتوی ہوجائے لیکن یہ ہمارا خام خیال تھا کہ
پولیس کے کام کبھی بھی نہیں رکتے ہیں۔۔ دوبارہ فون کیا تو معلوم ہوا کہ آ
جائیے کچھ لوگ آچکے ہیں ۔۔بالکل بھی دل نہ چاہتے ہوئے احباب سے اجازت لی
اور اور اپنی نوکری کے لیے روانہ ہوگئے گئے۔۔ہمارے دل کی وہی حالت تھی کہ
گویا کسی کو اپنی شادی کی دوسرے ہی دن طویل عرصے کے لیئے کہں روانہ ہونا پڑ
جائے۔۔۔ہمارا بس نہیں چل رہا تھا کہ کچھ ایسا ہو جائے کہ ہم واپس اسی جگہ
پر پہنچ جائیں ۔۔۔جب رات گئے ڈھائی تین بجے گھر پہنچے تو دل کر رہا تھا کہ
ان میں سے کسی ایک کو فون کریں پھر خیال آیا کہ یہ تو بہت نامناسب وقت ہے
سب لوگ سو رہے ہوں گے اے تو ہم بھی اسی یادگار ملاقات کی یادوں کو دل میں
بسائے سونے کی کوشش میں مصروف ہوگئے ۔۔ کیوں کہ ہمیں معلوم تھا کہ اگلا دن
نوشاد عادل کا بہت مصروف ہے اور ان کو واپس کراچی بھی جانا ہے اس لیے ہم نے
انہیں فون نہیں کیا۔۔۔اب دعا کر رہے ہیں کے جلد ہی کوئ موقع لگے تو مزید
احباب کو بھی شامل کرینگے۔۔۔خاص طور پر بھائ فاروق دانش کو جنہوں نے بعد
میں شکوہ بھی کیا کہ اکیلے اکیلے ملاقات کرلی۔ اگر وہ یہ احوال پڑھ رہیں
ہیں تو اب وہ بخوبی آگاہ ہوچکے ہونگے کہ یہ سب کتنی عجلت میں ہوا ہے۔۔بہر
حال یار زندہ صحبت باقی۔۔۔۔کیونکہ یاروں کے دم سے ہی ہے چمن میں
بہار۔۔۔(ختم شد)۔۔۔۔
( آپ کی رائے کا انتظار رہے گا )۔۔
|