تحریر۔۔۔۔عارف مجید عارف۔۔
( حیدرآباد)
" اچھا سر! اب اجازت دیں۔۔۔۔ آپ بہت شفیق اور انسان دوست ہیں"
" نہیں بیٹا۔۔یہ سب اللہ کا کرم ہے کہ تم جیسے طالب علموں کی وجہ سے فیض
رسانی کا سلسلہ جاری ہے" ۔۔۔۔۔خاور سلطان نے اپنے پاس آئے ہوے طالب علم
نعیم احمد کو رخصت کرتے ہوئے کہا ۔
************---------*********-----------***********
خاور سلطان ایک سرکاری محکمے میں 19ویں گریڈ کے افسر تعینات تھے۔۔۔۔۔ اس کے
ساتھ ساتھ وہ ایک نامور ادیب بھی تھے سی ایس ایس پاس کرنے کے باعث ان کی
قابلیت کسی تعارف کی محتاج نہ تھی اتنے بڑے افسر ہونے کے باوجود وہ بہت ہی
نفیس نیک اور انسان دوست آدمی تھے انہیں مالی طور پر کسی قسم کی کوئی
پریشانی نہیں تھی صرف نئی نسل کی ترقی وتعمیر کے لیے وہ سی ایس ایس کے
امتحانات میں شرکت کے خواہشمند طالبعلموں کو اس اکیڈمی میں تعلیم دیا کرتے
تھے ۔۔۔۔اکیڈمی سے ملنے والا معاوضہ بھی بعض اوقات مستحق طالب علموں کی فیس
کی مد میں دے دیا کرتے تھے۔۔۔ سی ایس ایس کی تربیت کے دوران ہی ان کی کتب
شائع ہونی شروع ہو چکی تھیں۔۔۔ اب تک ان کی تخلیق کردہ 10 سے زائد کتابیں
اور ایک شعری مجموعہ شائع ہو چکا تھا ۔۔۔
اب جبکہ ان کی عمر 55 سال سے بھی زائد ہو چکی تھی اور ان کی اولادیں بھی
صاحب اولاد ہوچکی تھیں۔۔۔ وہ اب بھی بچوں کے لیے کہانیاں لکھا کرتے تھے اور
بڑوں کے ساتھ بچوں کے بھی نامور ادیبوں میں بھی ان کا شمارہوتا تھا ۔۔۔
بلکہ بچوں کے لیے کہانیاں لکھنا تو ان کا اولین شوق اور جنون تھا ۔۔۔۔۔۔
خاور سلطان آج جب اکیڈمی سے فارغ ہو کر گھر پہنچے تو ان کی طبیعت کچھ سست
اور گری گری سی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔۔ ان کا معمول تھا کہ وہ شام دفتر سے
گھر آ کر کچھ دیر آرام کرنے کے بعد سات بجے اکیڈمی روانہ ہو جایا کرتے تھے
جہاں سے ان کی واپسی رات 10 بجے تک ہوتی تھی آج بھی دس بجے سے زیادہ کا وقت
ہو چکا تھا۔۔۔۔کھانے اور نماز سے فارغ ہوکر وہ اپنی خواب گاہ میں آگئے
" کیا بات ہے جناب ! کچھ طبعیت ناساز ہے کیا آپ کی"۔۔۔۔؟ ۔۔انکی بیگم ان کی
حالت کو بھانپ کر بولیں۔۔۔۔
“ جی۔۔۔کچھ ایسا ہی محسوس کر رہا ہوں۔۔۔نہ جانے کیا بات ہے۔۔۔۔۔آپ ایسا
کریں کہ چائے کی ایک پیالی لائبریری میں بجھوادیں ۔۔۔۔۔میں کچھ وقت وہاں
گزارنا چاہتا ہوں "
یہ کہہ کر وہ اپنے گھر میں بنی لائبریری جسے وہ اپنا خزانہ کہا کرتے تھے کی
طرف روانہ ہوگئے۔۔۔۔ملازمہ کے بجائے خود ان کی بیگم چائے لیکر لائبریری
پہنچیں تو دیکھا کہ خاور سلطان آرام کرسی پر دراز اونگھ رہے ہیں۔۔۔۔وہ اپنے
شوہر کی مزاج شناس تھیں اسی لیے چائے رکھ کر واپس چلی گئیں۔۔۔۔
*۔۔۔۔۔۔ *۔۔۔۔ *۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔*
خاور ایک انتہائی پڑھے لکھے ،علم دوست اور مہذب خاندان میں پیدا ہوا تھا ۔۔
اس کے والدین اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ادب شناس بھی تھے۔ اس کے
مرحوم نانا ماہر تعلیم کے علاوہ کئی کتابوں کے مصنف تھے۔۔اس کے دونوں بڑے
بہن بھائی بھی اچھے اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے خاور دونوں بہن
بھائیوں سے چھوٹا تھا اپنے والدین کی آخری اولاد ہونے کے باوجود وہ بہت
فرمابردار اور تمیز دار بچہ تھا۔۔۔ وہ آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا اس کے
ساتھ ساتھ کھیلوں سمیت دیگر سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیا کرتا تھا اپنے
اسکول کی جانب سے معلومات عامہ اور تقاریر کے مقابلوں میں بھی حصہ لیتا تھا
اور کافی انعامات بھی جیت چکا تھا۔۔۔۔۔۔ گھر کے دیگر افراد کی طرح مطالعہ
کا شوقین تھا۔۔۔ اس کے گھر روزانہ اخبار کے علاوہ بڑوں اور بچوں کے معیاری
رسائل بھی باقاعدگی سے آتے تھے۔۔۔۔۔۔مطالعے کے اسی شوق کی وجہ سے اسے خیال
آیا کہ اسے بھی کہانی لکھنا چاہیے اور اس کا نام بھی اخبار اور رسائل میں
کہانی لکھنے والوں میں آنا چاہیے تاکہ اسکول اور خاندان میں اس کا نام فخر
سے لیا جائے اور وہ بھی ایک اچھا ادیب کہلائے۔۔۔۔۔۔
یہ آج سے اڑتیس چالیس سال قبل کا زمانہ تھا جب خاور کے ذہن میں کہانیاں
لکھنے اور اپنا نام روشن کرنے کا خیال آیا تھا ۔۔۔۔ مطالعے کے شوق اور
خاندانی پس منظر کے باعث میں وہ جلد ہی ایک چھوٹی سی کہانی لکھنے میں
کامیاب ہوگیا اور کسی کو بتائے بغیر اس نے وہ کہانی بچوں کے ایک رسالے میں
ارسال کر دی اور اگلے ماہ کا انتظار کرنے لگا کہ اس کی کہانی شائع ہو جائے
گی۔۔۔۔۔ مگر جب اگلے ماہ کا رسالہ آیا تو اسے بہت مایوسی ہوئی کیونکہ اس کی
کہانی رسالے میں شامل نہیں تھی ۔۔۔۔ پھر یکایک اسے خیال آیا کہ اتنی جلدی
کیسے کہانی شائع ہو سکتی ہے اسے دو تین ماہ تو کم ازکم انتظار کرنا چاہیے
یہ خیال ذہن میں آتے ہی اس کی مایوسی کے تمام بادل چھٹ گئے اور اسی انتظار
کی کیفیت میں اس نے دو تین کہانیاں اور لکھ لیں اور انہیں مختلف رسائل میں
ارسال کردیں۔۔۔۔۔۔۔۔
چار پانچ ماہ بعد جب ایک صبح اس نے نئے آنے والے رسالے کو کھولا تو خوشی سے
پھولے نہ سمایا کیونکہ اس کی پہلی تحریر رسالے کے نئے لکھنے والے ناموز
ادیبوں کے سلسلے میں شامل تھی اس نے فورا اپنی یہ کاوش اپنے گھر والوں کو
دکھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کس کی کہانی نقل کی ہے آپ نے"؟۔۔۔۔ بھائجان مسکرائے۔۔
"یہ میں نے خود لکھی ہے۔۔۔۔بھائجان۔۔آپ الزام نہ لگائیں"۔۔۔۔۔خاور کی
آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔۔
"آپ اس کی حوصلہ شکنی نہ کریں۔۔۔۔مجھے یقین ہے کہ خاور نے خود لکھی
ہے۔۔۔۔آخر معلومات عامہ اور تقریری مقابلے بھی تو جیت چکا ہے"۔۔۔۔اسکی آپی
اسکی حمایت میں اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔۔۔
"ارے۔۔ارے۔۔۔میں تو مذاق کر رہا تھا۔۔۔۔مجھے معلوم ہے کہ ہمارا خاور کتنا
قابل اور باصلاحیت ہے۔۔۔۔یہ کبھی غلط کام نہیں کرے گا"۔۔بھائجان نے اسے
تھپکی دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔
"لیکن خاور میں تمہیں ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ کہانیاں لکھنا ایک اچھی
اور تعمیری سرگرمی ہے لیکن یہ یاد رہے کہ تعلیم پر توجہ سب سے افضل ہے
۔۔۔اس میں کوئ کوتاہی نہ ہو"۔۔
"بھائجان آپ بے فکر رہیں میں تعلیم پر مکمل توجہ دونگا اور اعلی مقام حاصل
کرونگا۔۔ لیکن میں ایک نامور اور بڑا ادیب بھی بننا چاہتا ہوں۔"خاور کے
لہجے میں اک عزم تھا۔۔۔۔
" اچھی بات ہے۔۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔مگر ایک بات ذہن نشیں کرلو کہ
اگر تم بڑے اور اچھے انسان نہ بن سکے تو باقی سب کچھ بے معنی ہے۔۔۔کوئ بڑا
ڈاکٹر ہوتا ہے۔۔کوئ بڑا وکیل ۔۔کوئ بڑا افسر۔۔ یعنی زندگی کے ہر شعبہ میں
ایک سے ایک قابل اور بڑے لوگ مل جاینگے لیکن ان سب صلاحیتوں کے ساتھ بڑا
اور اچھا انسان ہونا بہت ضروری ہے۔۔۔بڑا اور اچھا انسان دوسروں کے لیے دل
میں درد رکھتا ہے اور لوگوں کی مدد کرتا ہے اور یہی اللہ تعالی کو بہت پسند
ہے۔۔۔تم وعدہ کرو کہ اچھی تعلیم کے بعد جو بھی شعبہ اپناوگے اسکے ساتھ اچھے
انسان بھی ثابت ہوگے۔۔۔۔۔
"جی بھائجان۔۔۔میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ انشا اللہ تعالی ایسا ہی
ہوگا"۔۔خاور نے انہیں یقین دلا یا۔۔۔۔
کچھ ہی عرصے میں اس کی کہانیاں باقاعدگی سے مختلف رسائل میں شائع ہونے لگ
گئیں ۔۔۔ اسکول ، خاندان اور دوستوں میں اسے فخر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا
اب خاور کو دھن سوار ہوگئی تھی کہ اسے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ
ایک بڑا اور مشہورادیب بھی بن کر دکھانا ہے کہ لوگ اس کی مثال دیں کہ دیکھو
یہ ہے خاورجو کئی کتابوں کا مصنف ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
******----******-----***“
"خاور!۔۔ تم نے آفاق اثری کا نام سنا ہے۔۔۔؟ بھائجان کے لہجے میں استہفام
تھا۔۔۔۔“
"جی وہ تو بچوں کے بہت مشہور ادیب ہیں۔۔۔۔ بلکہ وہ میرے پسندیدہ مصنفین میں
شامل ہیں۔۔"
"کیا تم ان سے ملاقات کرنا چاہتے ہو"۔۔؟ ۔۔بھائجان مسکرائے۔۔
"ہاں ہاں کیوں نہیں۔۔۔یہ تو میری خوش قسمتی ہوگی۔۔۔۔۔لیکن ایسا کیسے ممکن
ہے"۔۔۔۔
"شائد تمہیں علم نہیں کہ آفاق اثری صاحب ہمارے ہی شہر سے تعلق رکھتے
ہیں۔۔۔وہ میرے ایک دوست کے عزیز ہیں اور قریب ہی رہائش پزیر ہیں۔۔۔میں اپنے
دوست سے بات کرکے تمہیں ان سے ملاقات کے لیے لے جاونگا"۔۔۔بھائجان نے اسے
امید دلائی۔۔۔
*******-----******------*******
اگلے ہی ہفتے خاور بھائجان اور ان کے دوست کے ہمراہ آفاق اثری کے گھر کے
ڈرائنگ روم میں ان کا منتظر تھا ۔۔۔ ڈرائنگ روم میں ہر طرف اچھی تصاویر
،مصنوعی پھول اور مختلف ریکس میں کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔۔۔ کچھ ہی دیر میں
آفاق اثری صاحب کمرے میں داخل ہوئے ۔۔ خاور نے ان کی شخصیت میں کشش محسوس
کی وہ خاور سے محبت سے ملے اور اس کی شائع شدہ کہانیوں پر بھی نظر ڈالی اور
بولے یہ اچھا مشغلہ ہے تم اسے جاری رکھو یہ تمہاری تعلیم میں بھی معاون
ثابت ہو گا۔۔۔۔ خاور نے ہمت کرکے ان سے اجازت لے لی کہ وہ اپنی کہانیوں پر
اصلاح لے سکے۔۔۔ آفاق صاحب رضامند ہوگئے اور اسے صرف چھٹی والے دن ہی آنے
کی تاکید کی ۔۔۔۔ خاور خوشی خوشی گھر واپس پہنچ گیا لیکن اسے نہ جانے کیوں
یہ احساس ہو رہا تھا کہ آفاق صاحب کا رویہ ، انداز گفتگو اور وہ خود کچھ
بناوٹی سے ہیں اور بہت کچھ چھپا کر بول رہے ہیں لیکن اس نے اس خیال کو فورا
دل سے نکال دیا کہ ایسا ممکن نہیں آفاق صاحب تو بڑے اچھے ادیب اور انسان
ہیں ۔۔۔۔۔۔
خاور اب اور بھی دل جمعی سے کہانیاں لکھنے لگا ۔۔۔ اس کی کوشش تھی کہ کہانی
ایسی ہو کہ آفاق صاحب کو بھی پسند آئے اور اس کی بھی کہانیاں بچوں کے سب سے
بہترین رسالے "تعلیم اور تہذیب" میں شائع ہو جائیں ۔۔۔۔۔"تعلیم اور تہذیب"
بچوں کا بہترین رسالہ تھا اس کا معیار اتنا اعلی تھا کہ ملک کے بڑے بڑے
ادیب اس میں لکھا کرتے تھے آفاق اثری صاحب بھی ان ادیبوں میں شامل تھے ان
کی تقریبا ہر ماہ ہی کہانی شائع ہوتی تھی۔۔۔ خاور کا نصب العین تھا کہ وہ
بھی ان مستند ادیبوں میں شامل ہو جائے جن کی نگارشات اس معتبر رسالے میں
شائع ہوتی ہیں اور وہ سب کو فخریہ طور پر بتائے کہ اب وہ اتنا اچھا لکھ
سکتا ہے کہ "تعلیم و تہذیب" میں بھی شائع ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
خاور دو تین بار آفاق صاحب کے گھر جا چکا تھا جو اس کی رہائش گاہ سے 15 منٹ
کی سائیکل کی مسافت پر واقع تھی ۔۔۔آفاق صاحب اس کی کہانیوں پر کبھی کبھی
معمولی سی اصلاح کر دیا کر دیتے تھے کہ ٹھیک ہے لکھتے رہو۔۔۔۔۔
کچھ عرصے بعد خاور نے ایک ایسی کہانی لکھ لی جس کے متعلق اس کا خیال تھا کہ
یہ اس کی اب تک کی سب سے اچھی تحریر ہے اس کہانی کو"تعلیم اور تہذیب" میں
شائع ہونا چاہیے ۔۔۔۔ وہ یہ کہانی لے کرآفاق صاحب کے پاس جا پہنچا آفاق
صاحب نے کہانی اپنے پاس رکھ لی اور کہا کہ میں ابھی مصروف ہوں اگلے ہفتے آ
کر لے جانا۔۔۔۔
ایک ہفتے کے بعد بعد خاور کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا کیونکہ آفاق اثری
صاحب نے اس کی کہانی پر توجہ دیتے ہوئے نہ صرف یہ کہ پوری کہانی اپنے ہاتھ
سے لکھ دی تھی بلکہ ابتدائی پیراگراف بھی اپنے الفاظ میں لکھ کر یکسر تبدیل
کر دیا تھا جبکہ باقی تمام کہانی خاور کی ہی لکھی ہوئی تھی بس آفاق صاحب نے
اپنے ہاتھ سے تحریر کر دی تھی ۔۔۔۔کہانی دیتے ہوئے یہ کہا کہ تمہارے والے
مسودےپر چائے گر گئی تھی اس لیے اس کہانی کو میں نے دوبارہ لکھ دیا ہے اب
تم اسے جہاں چاہے بھیج سکتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاور نے صاف ستھری تحریر میں یہ کہانی لکھ کر بچوں کے رسالے "تعلیم و
تہذیب" میں ارسال کر دی۔۔ اس نے مدیر کے نام خط میں لکھ دیا تھا کہ وہ آفاق
اثری صاحب کا شاگرد ہے اور اس کہانی میں انہوں نے اصلاح بھی کی ہے۔۔۔۔ اسے
یقین تھا کہ یہ کہانی ضرور "تعلیم و تہذیب" میں شائع ہو جائے گی اب اسے
انتظار تھا کہ کب اس کی تحریر شائع ہوتی ہے اور اس کی خواہش پوری ہوتی
ہے۔۔۔۔ا سے امید تھی کہ اگلے چھ ماہ کے اندر اس کی کہانی شائع ہو جائے گی۔۔
******----*******-------*****
آفاق اثری اپنے گھر میں مطالعے میں مصروف تھے کہ ان کا فون بج اٹھا (یہ وہ
دور تھا کہ جب موبائل فون کا تصور بھی نہ تھا اور ٹیلیفون کی سہولت بھی کسی
کسی کو ہی میسر تھی)۔۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے فون اٹھایا تو دوسری جانب رسالہ "تعلیم اور تہذیب" کے مدیر اجمل
خلجی تھے۔۔۔۔
" اسلام وعلیکم! اثری صاحب کیسے مزاج ہیں"۔۔؟
"وعلیکم اسلام۔ الحمد للہ۔۔۔۔ کیسے یاد فرمایا حضور نے"۔
"آفاق صاحب۔۔کمال ہے آپ خود تو لاجواب لکھتے ہی ہیں۔۔ آپ کے شاگرد بھی بہت
اچھا لکھ رہے ہیں"۔۔۔
"میرے شاگرد"۔۔؟۔۔اثری صاحب کے لہجے میں حیرت تھی۔۔
"جی جی آپ کے شاگرد کا ذکر ہے۔۔۔۔خاور نامی آپ کے شاگرد نےایک بہت اچھی
کہانی بھیجی ہے۔۔اور آپ کا حوالہ بھی دیا ہے کہ آپ نے کچھ نوک پلک سنواری
ہے۔۔۔۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ اتنی بہترین کہانی ہے کہ میں نے اسے موقع کی
مناسبت سے دو ماہ بعد آنے والے خاص نمبر کی خاص کہانی کے طور پر منتخب کر
لیا ہے جو کہ ابتدائی رنگین صفحات میں شائع ہوگی بلکہ سرورق پر بھی اس کا
ذکر ہوگا ۔۔۔۔۔ اور آفاق صاحب آپ کی کہانی بھی درمیانی صفات میں اسی شمارے
میں شائع ہو جائے گی " مدیر خلجی صاحب روانی سے بولتے چلے گئے۔۔۔۔۔۔
خلجی صاحب کی پوری بات سنتے ہی آفاق صاحب کی عجیب سی کیفیت ہوگئی اور وہ
ایک لمحے میں فیصلہ کرتے ہوئے بولے۔۔۔
"خلجی صاحب یہ لڑکا تو میرے ایک عزیز کے توسط سے مجھ تک پہنچا تھا چھوٹی
موٹی فضول قسم کی کہانیاں لکھ لیتا ہے میں دل رکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کر
دیتا ہوں ۔۔۔ کبھی کبھاراصلاح بھی کر دیتا ہوں بعض اوقات تعریف بھی کردیتا
ہوں اور جس کہانی کا ذکر آپ کر رہے ہیں وہ تو میری تحریر کردہ ہے اور مجھے
کچھ دنوں سے مل ہی نہیں رہی تھی ۔۔۔ اب سمجھا کہ موصوف چرا کر لے گئے
ہیں۔۔آپ اسے بالکل شائع نہ کریں میں جلد آپ کو اس کا ثبوت بھیجتا ہوں
کیونکہ آپ میرے طرز تحریر کو پہچانتے ہیں ۔۔۔اس لئے اس چالاک لڑ کے یہ لکھ
دیا کہ میں نے اصلاح کی ہے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فون بند کرتے ہیں آفاق اثری کا موڈ انتہائی بگڑ چکا تھا وہ غصے بڑبڑانے لگے
کہ۔۔۔۔ہونہہ۔۔۔ وہ کل کا بچہ اور مجھ پر فوقیت پاکر رنگین صفات میں نمایاں
طور پر شائع ہو ۔۔۔۔خاص کہانی کا درجہ بھی پائے۔۔۔اور سرورق کی زینت بھی ہو
اور اس کے مقابلے میں میری کہانی درمیانی غیر رنگین صفحات میں شامل ہو۔۔۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آفاق اثری جیسا مشہور ادیب ایک بچے کے مقابلے میں
نیچا ہوجائے۔۔۔۔۔۔۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔۔۔۔۔۔غصے کے عالم میں وہ ایک
نوآموز ادیب کو اپنا مدمقابل سمجھ بیٹھے تھے۔۔۔۔۔کچھ دیر کے بعد انہوں نے
اپنے عزیز کے توسط سے خاور کو ملنے کا پیغام بھیجا اور تاکید کی کہ ان کی
اصلاح شدہ تحریر بھی ساتھ لے کر آئے۔۔۔۔۔۔
خاور یہ پیغام ملتے ہیں آفاق اثری سے ملنے ان کے گھر پہنچ گیا۔ ۔ آفاق اثری
نے دو چار باتوں کے بعد اسے کہا کہ وہ یہ مسودہ ان کے پاس چھوڑ جائے ۔۔۔ تو
خاور نے انہیں بتایا کہ وہ تو یہ تحریر سالہ "تعلیم اور تہذیب" کو بھیج چکا
ہے تو اثری صاحب نے جواب دیا کہ فکر نہ کرو رسالے کے مدیر مجھ سے رابطے میں
ہیں۔۔۔۔ ان کو کچھ ترمیم اور اضافے کے بعد دوبارہ بھیج دیں گے ۔۔۔۔ خاور ان
کو دعائیں دیتا ہوا خوشی خوشی گھر کی طرف روانہ ہو گیا کہ آفاق اثری صاحب
کو اس کا کتنا خیال ہے کہ کہانی کو اور بہتر کر رہے ہیں۔۔۔
******----*****----*****
کچھ دنوں کے بعد خاور کو "تعلیم اور تہذیب" کی جانب سے ایک خط موصول ہوا
خاور لفافہ تھام کر بہت خوش تھا کہ یقینا اس کی کہانی کے شائع ہونے کے
متعلق خوش خبری ہوگی۔۔۔۔ اس نے بے تابی سے لفافہ چاک کیا ۔۔جوں جوں وہ خط
کا متن پڑھتا گیا اس کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا اور آنکھوں سے
آنسو بہنے لگے۔۔۔۔۔۔ "تعلیم اور تہذیب" کے مدیر نے اس کو لعن طعن کی تھی
اور لکھا تھا کہ آپ کو شرم نہیں آتی کہ آپ نے اتنے مشہور ادیب کی کہانی چرا
کر اپنے نام سے بھیج دی۔۔ اپنی عمر دیکھیں اور اپنے کرتوت دیکھیں۔۔۔ آپ کو
ہمیشہ کے لئے بلیک لسٹ کردیا گیا ہے آئندہ رابطہ نہ کریں۔۔۔۔۔۔
خاور نے جو آفاق اثری کا پیکر تراشا تھا وہ یکایک ٹوٹ گیا وہ تو انہیں بہت
بڑے ادیب کے ساتھ ساتھ بہت بڑا انسان بھی سمجھتا تھا لیکن وہ اتنے چھوٹے
اور گھٹیا ثابت ہوں گے اسے یہ گمان بھی نہ تھا۔۔۔۔
غصے کی کیفیت میں اس نے الماری میں سے اپنی لکھی ہوئی کہانیاں باہر نکالیں
اور پھاڑنے لگا۔۔۔۔اسی اثنا میں اس کے بھائی جان کمرے میں داخل ہوئے
"یہ کیا کر رہے ہو اور تمہاری آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں"۔۔۔
خاور نےچپ چاپ مدیر صاحب کا لکھا خط ان کی طرف بڑھادیا اور جب بھائجان خط
پڑھ چکے تو اس نے کہا کہ انہیں جاکر آفاقی اثری صاحب سے پوچھنا چاہیے کہ
انہوں نے ایسا کیوں کیا لیکن اس کے بھائی جان جو خود بھی آفاق اثری کی اس
گھٹیا حرکت کی وجہ سے حیرت زدہ تھے نے منع کردیا کہ کوئی فائدہ نہیں ہے اس
گھٹیا آدمی سے ملنے کا۔۔ اب تم اس کے قریب بھی مت جانا۔۔۔۔
"تم دل چھوٹا نہ کرو یہ تمہارے لئے ایک چیلنج ہے کہ اب تمہیں تعلیم کے ساتھ
ساتھ کہانیاں لکھنے میں بھی اپنا نام بنانا ہے کہ آفاق اثری اور رسالہ کے
مدیر بھی جان جائیں کہ تم کتنا اچھا لکھتے ہو اور تمہیں اس سے بھی زیادہ
اچھا انسان بن کر دکھانا ہے ۔۔آفاق اثری کی طرح نہیں جو ادیب تو بہت اچھا
ہے مگر انسان بالکل بھی اچھا نہیں ہے تمہیں دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا
کرنی ہیں۔۔۔۔۔ کیا خیال ہے وعدہ کرتے ہو یہ چیلنج قبول ہے۔۔" بھائی جان نے
اس کی ہمت بڑھائی۔۔۔
"انشا اللہ تعالی بھائی جان میں وعدہ کرتا ہوں کہ اب میں یہ سب کچھ کر کے
دکھاؤں گا اور اور انسان تو بہت ہی اچھا بن کر دکھاؤں گا اور آپ سب کا سر
فخر سے اونچا کروں گا" خاور کی آنکھوں میں الگ ہی چمک تھی۔۔۔۔
*****------*****-------*****
چند لمحات کے بعد خاورسلطان کی آنکھ کھلی تو بیگم کی لائی ہوئی چائے ابھی
گرم تھی۔۔۔۔ ان کی طبیعت اب مکمل بحال ہو چکی تھی اور وہ کافی سرشاری محسوس
کر رہے تھے ۔۔۔ چائے پیتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ اللہ تعالی کا جتنا شکر ادا
کیا جائے کم ہے کہ اس نے ان کی ہر خواہش اور ہر ادارے کو پایہ تکمیل تک
پہنچایا اور مجھے اپنے بندوں کے لئے مددگار اور محبت کرنے والا بنایا یا
اور ہر ایک کے لیے مجھے فیض رسانی کا ذریعہ بنایا ۔۔۔۔
کچھ ہی دیر بعد وہ مصلے پر کھڑے شکرانے کے نفل ادا کر رہے تھے
۔۔۔۔ تحریر:عارف مجید عارف۔۔ حیدرآباد
|