ارشادربانی ہے :’’۰۰۰۰ اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی
مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر، البتہ مردوں کو ان پر
فضیلت ہے،اور اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے‘‘۔ اس فضیلت کی حکمت یہ نہیں ہے
کہ ازدواجی رشتے میں مرد اپنی فوقیت پر فخر جتا ئیں جب ایسا کیا جاتا ہے تو
نیوٹن کے تیسرے قانون کے مطابق اس پر اعتراض کا ہونا فطری امر ہے۔ مغرب زدہ
لوگ اس کو مساوات مردو زن کی خلاف ورزی قرار دے دیتے ہیں حالانکہ ہر مملکت
میں ایک سربراہ ہوتا ہے مگراس کو باشندوں کی توہین نہیں سمجھا جاتا ۔ تنظیم
کے منتظم اعلیٰ پر لوگ ناز کرتے ہیں ۔ دفتر میں ایک چیف ایکزکیوٹیوکی فوقیت
کو عملہ پر باعثِ عار نہیں سمجھتا۔ اسی طرح ایک خاندان کی کمان کا بھی کسی
ایک کے ہاتھ میں ہونا مطابق ِفطرت ہے ورنہ یہ نظام درہم برہم ہوجائے
گا۔عموماً تعمیری کمپنی کا سربراہانجنیئرکو بنایاجاتاہے کیونکہ وہ اس ذمہ
داری کو ادا کرنے کی بہتر صلاحیت رکھتا ہے ۔اسی طرح خاندان کے منتظم عائد
ہونے والی ذمہ داریوںکو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ شوہر اور بیوی
میں سے کون اس کی اہلیت رکھتا ہے ۔
قرآن حکیم میں قوام والی آیت کے اندر فرمایا گیا ہے:’’ مرد عورتوں کے
محافظ و منتظم (حاکم) ہیں ۔ اس لئے کہ اللہ نے بعض (مردوں) کو بعض (عورتوں)
پر فضیلت دی ہے اور اس لئے( بھی ) کہ مرد (عورتوں پر) اپنے مال سے خرچ کرتے
ہیں۔ ‘‘۔ یہاں قوامیت کےحوالے سے اولین ذمہ داری حفظ و امان کی بیان ہوئی
ہے۔ اس کام کے لیے دنیا بھر کی فوجوں پر نگاہ ڈالی جائے تو وہاں مردوں کا
غلبہ دکھائی دیتاہے۔ خواتین اگر موجود بھی ہیں تو ان کی تعدادآٹے میں نمک
کے برابر ہے اور میدانِ کارزار میں تو خیر مرد ہی مرد نظر آتے ہیں ۔ اس
ذمہ داری کی ادائیگی کےلیے ظاہرہے خاندان کاقوام مرد ہی ہوگا ۔ دوسری معاشی
ذمہ داریبھی بالکلیہ شوہر پر تفویض کی گئی ہے ۔ دنیا کی ہر تہذیب میں یہی
تقسیم کار رہا ہے ۔ مغرب کے ترقی پذیر معاشرے میں بھی امیر کبیر خواتین خود
کو معیشت کے بکھیڑے سے دوررکھ کر شوہر کی کمائی پر عیش کرتی ہیں۔
عصرِ حاضرمیں غریب اور متوسط طبقے کی خواتین پر مساواتِ مردو زن کےپر فریب
نعرے کی آر میں گھر سنبھالنے کے ساتھ ساتھ معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی
ڈال دیا گیا ہے۔ اس طرح مرداپنی ذمہ داری سے پلہ جھاڑ کر صنف نازک کا
استحصال کرتاہے ۔ ا ٓزادیٔ نسواں کے نشے نے خواتین کی نظر میں اسمصیبت کے
طوق کو گلے کا ہار بنادیا ہےیہی وجہ ہے کہ وہ بیزار ہونے کے بجائے اس پر
نازاں وشاداں رہتی ہے۔ قوامیت کے درجہ پر فائز کرکےدین اسلام شوہر پر کئی
ذمہ داریاں عائد کرتا ہے۔مثلاًمہر کے بارے میں فرمایا : ’’عورتوں کو ان کا
مہر راضی وخوشی سے ادا کرو‘‘۔ بیوی کے لیےکھانے، پینے، رہنے، سونے اور لباس
کے اخراجات بالکلیہ شوہر کے ذمہ ہیں مگراپنے مہر اور وراثت کے مال پر بیوی
پوری طرح خود مختار ہے ۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید میں اپنے
گھر والوں پر خرچ کرتا ہے تو وہ صدقہ ہوگا‘‘۔ بیوی کے ساتھ حسن معاشرت کی
تاکید میں فرمایا:’’ان کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی بسر کرو اگر وہ تمہیں
ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز جوتمہیں پسند نہ ہو، اللہ نے اُسی میں
بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو ‘‘۔اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اگر بیوی کی کوئی
بات یا عمل ناپسند آئے تو تم غصہ نہ کرو کیونکہ اس کے اندر دوسری خوبیاں
موجود ہیں جو تمہیں اچھی لگتی ہیں‘‘۔نیز اپنی زوجہ سے صلاح و مشورہ کی بھی
تلقین فرمائی ہے ۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی مکرم ﷺ گھر کے مختلف
کاموں میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ قوامیت کا تعلق فخر و امتیاز سے نہیں بلکہ وہ تو
ان ذمہ داریوں کی ادا ئیگی سے مشروط ہے۔
|