شاکر انور کی افسانہ نگاری ’ستمبر کا سمندر‘کی روشنی میں
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
شاکر انور کی افسانہ نگاری ’ستمبر کا سمندر‘کی روشنی میں ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کچھ عرصہ قبل شاکر انور صاحب نے اپنا ناول ”دھواں“ بھجوایا تھا، اسے پڑھا اور اس پر کچھ لکھا بھی تھا۔ پسندیگی کی وجہ ہی ہوگی کہ اب انہوں نے اپنے افسانوں کا مجموعہ ”ستمبر کا سمندر: منتخب افسانوں کا مجموعہ“ عنایت فرمایا۔اکثرکرم فرما اپنی تخلیقات مجھے تحفہ میں دیا کرتے ہیں، بعض کہہ دیتے ہیں کہ کتاب پر کچھ لکھ دیجئے گا بعض کی خاموشی بتارہی ہوتی ہے کہ وہ خواہش رکھتے ہیں کہ ان کی کتاب پر کچھ لکھا جائے۔ ہماری رائے میں کتاب تحفہ میں دینے والے کا اتنا تو حق بنتا ہے کہ اگر ہم اس کتاب پر کچھ لکھ سکتے ہوں تو ضرور لکھیں۔ میں اسی کلیہ پر عمل پیرا ہوں، کوشش کرتا ہوں کہ جو کتاب مجھے ملے اس پر اظہار خیال کروں۔ ناول دھواں‘ سے یہ بات تو واضح ہوگئی تھی کہ شاکر انور کہانی لکھنے کا گر جانتے ہیں، کہانی کار ہیں تو افسانہ نگار بھی لازمی ہوں گے اس لیے کہ ایک کہانی کار ہی افسانہ یا ناول کی جانب قدم بڑھاتا ہے۔ان تینوں اصناف کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کہانی گویا زمین کو سیراب کرتی نالی، افسانہ کی مثال دریا کی ہوسکتی ہے اور ناول نثری اصناف کا سمندر ہے۔ شاکر صاحب پہلے سمندر میں غوطہ زن ہوئے اور خوب تیراکی کے جوہر دکھائے، پھر دریا میں تیراکی کے جوہر دکھائے اورافسانوں کا مجموعہ ”ستمبر کا سمندر“ سامنے لے آئے۔ اب کہانی کی باری ہے۔ یقینا کہانیاں بھی انہوں نے لکھی ہوں گی،اب ان کی کہانیوں کے مجموعے کا انتظار رہے گا۔انہوں نے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ ’افسانہ پڑھنا اور لکھنا ان کا Passion ہے، وہ کہانیوں کو ہوا میں کسی مہک کی طرح ڈھونڈتے رہتے ہیں‘۔ان کا یہ خیال عندیہ دے رہا ہے کہ کہانیوں کا مجموعہ انہوں نے جمع کر لیا ہے۔وہ کسی بھی وقت منظر عام پر آسکتا ہے۔ افسانوں کے مجموعے کے عنوان ”ستمبر کا سمندر“ پر کچھ دن غور کرتا رہا کہ ستمبر کا سمندر سے کیا تعلق ہوسکتا ہے،سمندر تو ہر ماہ کی 14 تاریخ کو عروج پر ہوتا اوراس کی لہرے ساحل کو بھپرے ہوئے شیر کی مانند ٹکرے ماررہی ہوتی ہیں۔ایسا صرف ستمبر میں ہی نہیں ہوتا۔ پھر سوچا کہ یہ ستمبر کہیں ستم گر تو نہیں، لیکن کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا اور یہ سوچ کر کہ مصنف عام طور پر اپنی کتاب یا مضمون کا عنوان پر کشش، جاذب نظر، مقناطیسی خصوصیات کا حامل رکھتے ہیں تاکہ قاری شکل دیکھ کر ہی متوجہ ہوجائے۔ ابھی اظہاریہ لکھنا شروع ہی کیا تھا کہ شاکر صاحب نے میسیج کیااور پوچھا ’میرے افسانوں کا مجموعہ ستمبر کا سمندر آپ کو مل گیا‘۔ میسیج پڑھ کر جواب ہاں میں تو دیا ساتھ ہی اپنی الجھن کو سلجھانے کا خیال بھی در آیا اور میں نے انہیں لکھا ”جی فروری میں ملا تو یہ تو فروری کا سمندر ہوا“ ستمبر کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟،انہوں نے وضاحت کچھ اس طرح سے کی ”درا صل میں دمام، سعودی عرب ستمبر میں گیا تھا وہاں کا سمندراتنا خوبصورت تھا کہ بے ساختہ میرا دل اس نام کی طرف مائل ہوا اور ستمبر کا سمندر وجود میں آیا“۔ اس طرح یہ معمہ تو حل ہوا کہ افسانہ نگار نے اپنے مجموعہ کا عنوان ستمبرکا سمندر کیوں رکھا۔لیکن صاحب ہم نے اپنی کھلی آنکھوں سے دمام کا سمندر تو نہیں دیکھا البتہ جدہ کا سمندر اور ساحل ضرور دیکھا بلکہ کئی بار دیکھا اور اپنے کراچی کے سمندر سے موازنہ کیا، ہمیں تو اپنے کراچی کا سمندر زیادہ روشن، جیتا جاگتا، کھلواڑ کرتا، اچھلتا کودتا، لہراتا اور مسکراتا لگا۔ اپنی اپنی رائے ہے، سعودی عرب کی سرزمین سے عقیدت اور محبت اپنی جگہ ہے۔ افسانہ نگار نے پیش لفظ میں سچ لکھا کہ’’کہانی بنانا تو آسان ہوتا ے مگر کہانی کو افسانہ بنانا اور پھر ایک اچھا اور ٹھوس افسانہ بنانا مشکل مرحلہ ہوتا ہے“۔ بعض افسانہ نگار یہی کچھ کیا کرتے ہیں کہ کسی بھی کہانی کو کھینچ تان کے لمبا چوڑا کیا اور اسے افسانہ کا نا م دیدیا۔ کہانی ہی تو کسی افسانے یا ناول کی بنیاد ہوتی ہے لیکن وہ اپنی جگہ خود ایک مکمل حیثیت بھی رکھتی ہے۔ اگر کہانی لکھی گئی ہے تو اسے کہانی ہی رہنے دیا جائے تو زیادہ مناسب ہوتا ہے، کہانی کو افسانہ کہہ دینے سے وہ افسانہ نہیں بن جاتی۔ پیش نظر افسانوں کا مجموعہ ”ستمبر کا سمندر“ اس اعتبار سے افسانوں کا ہی مجموعہ ہے، شاکر انور نے کہانی کو افسانہ نہیں بنایا بلکہ حقیقت میں انہوں نے افسانے لکھے اور بلا شرکت غیرے یہ کہا جاسکتا ہے کہ شاکر انور ایک پختہ کار افسانہ نگار ہیں۔شاکر انور کے افسانوں میں کسی قسم کا الجھاو، پیچیدگی، گھمبیر قسم کی باتیں نہیں، الفاظ عام بول چال والے جملے، کہانی میں تجسس پایا جاتا ہے، پلاٹ مضبوط، انداز بیان سلیس اور سادہ ہے۔شاکر انور کے افسانوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ افسانے کو اپنے ارد گرد کے ماحول، حالات، واقعات، معاشرہ میں جنم لینے والی اچھائی اور منفی رویوں، غمی اور خوشی کے واقعات کو اپنی کہانیوں اور افسانوں میں جگہ دیتے ہیں۔ ان کے کردار اس ہی کے آس پاس بکھرے ہوئے ہیں وہ انہیں ہی کسی نہ کسی کہانی یا افسانے میں جگہ دے دیتے ہیں۔ مجموعی طور پر ان کے تمام افسانے معاشرہ میں ہونے والے حالات، واقعات، اچھائیوں اور خرابیوں کا احاطہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مجموعہ کا پہلا افسانہ’زرد پتوں کی موت‘ ہے۔ کہا نی دو پردیسیوں اسد اور اسلم کے سنگا پور کے ایک پارک میں ملاپ سے شروع ہوتی ہے جن کا تعلق اتفاق سے پاکستان کے شہر حیدر آباد سے ہوتا ہے۔ اسلم صاحب تین چار دن پارک نہیں آتے تو ان کی بیگم انیتا پارک آتی ہیں اوراپنے شوہر کے دوست اسلم صاحب کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاتی ہے۔ جہاں اسلم صاحب ان کی آمد کے منتظر ہوتے ہیں۔ان کے بیٹے کا نام بنٹی اور بیٹی سریتا تھا۔ اسلم صاحب کی موجودگی میں مکالموں کا خوبصورت تبادلہ ہوتا ہے، خاص طور پر جب اسلم صاحب واپس جانے لگتے ہیں تو انیتا ان سے کہتی ہے کہ ’پھر کب آئیں گے“، اس پر انیتا کا شوہر کہتا ہے اسد بھائی مجھ سے زیادہ اب ان کو آپ کا انتظار ہورہاہے‘۔ یہ جملہ اسد صاحب کو مصنوعی ہنسی پر مجبور کردیتا ہے۔ اسد صاحب سنگا پور سے باہر چلے جاتے ہیں واپسی کئی دن بعد ہوئی تو ایک دن انیتا اچانک اسد سے ملتی ہے کہتی ہے ”آپ سے ایسی امید نہیں تھی۔ بالکل غیر نکلے“۔وہ اسد کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر کی جانب چل دی، راستہ میں اسد انیتا سے کہتے ہیں ’آپ کے پتی دیو یعنی شوہر آفس سے گھر آگئے؟انیتا بے ساختہ کہتی پتی دیو۔۔۔؟’ہماری شادی نہیں ہوئی‘۔پھر انیتا وضاحت کرتی ہے کہ در اصل دونوں ایک خوبصورت مگر نازک بندھن میں اچانک بندھ گئے تھے، آپ اسے دوستی کہہ لیں‘ پھر ہم ساتھ رہنے لگے، پھر ہمارے دو بچے ہوئے۔اسد صاحب ناول نگار ہوتے ہیں۔ اسلم صاحب اور انیتا کے درمیان تلخ کلامی ہوتی ہے۔ اسلم صاحب کہتے ہیں اسد بھائی میری بیوی صائمہ عدنان کے ساتھ سنگا پور آئی ہوئی تھی۔ جب تک ماں زندہ تھی میں پاکستان چلا جاتا تھا۔ ایک دن اچانک سریتا کا ہاتھ تھامے‘ انیتا سامنے آگئی۔ سریتا مجھے دیکھتے ہی ڈیڈی ڈیڈی کہہ کر مجھ سے لپٹ گئی۔ صائمہ بچے کے ساتھ پاکستان واپس چلی گئی، پھر اس کی شادی ہوگئی، تعلق ختم ہوگیا۔ انہیں مکالموں پر افسانہ کا ہوتا ہے۔ افسانہ ’آدھی عورت‘ میں عورت سے جو جملے ادا کرائے ان میں ایک خا ص ندرت دکھائی دیتی ہے،عورت کہتی ہے کہ ”میں اب جان سکی کہ مرد دوسری عورت کے سامنے کتنا بے بس ہوتا ہے۔ممی ٹھیک کہتی تھیں کہ مرد اور سمندر پر کبھی بھروسہ نہیں کرنا۔ کتنا مان تھا مجھے سلمان پر۔ اپنی سارے ندگی کی خوشیاں، خوشبوں کے سارے جذبوں کے سارے لمحے میں نے اس کے لیے رکھ چھوڑے تھے لیکن!!! لیکن اُف میرے خدا!! روٹا نا ہوٹل کی تین راتیں اس نے اس چڑیل کے ساتھ بسر کیں“۔ افسانہ میں الفاظ اور جملے ادبی چاشنی لیے ہوئے ہیں۔ افسانہ ”ڈنک“ ایک ڈاکٹر اور ایک مریضہ کی داستان ہے، جس کی ابتدا اس جملے سے ہوتی ہے کہ”سمندر کی طرف سے آتی ہوائیں تیز اور سرکش ہوتی ہیں‘، پھر تیز ہوائیں اور سرکشی رنگ لاتی دکھائی دیتی ہے۔ ڈاکٹر دلنواز کا ایک دوست اس کی کلینک پر بیٹھا تھا اتنے میں ایک مریضہ آئی ڈاکٹر اس کا چیک اپ کرتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ اس کابلڈ پریشر زیادہ ہے، روز آکر چیک کرایا کرو۔ مریضہ کے کلینک کے چلے جانے کے بعد ڈاکٹر کا دوست ڈاکٹر سے کہتا ہے ”ڈاکٹر صاحب! اس عورت کا بلڈ پریشر تو بالکل نارمل تھا۔ 120/80، ڈاکٹر اپنے دوست کو جواب دیتا ہے ’سمجھا کرو سائیں! ڈاکٹر مسکرایا“۔ اس جملے سے ڈاکٹر نے مریضہ کے ساتھ کیا کچھ کیا ہوگا اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔افسانہ ”امید اور خواب‘‘ دو محبت کرنے والوں کی کہانی ہے۔ افسانہ ”بارش“ ایک لڑکی کی کہانی ہے جواپنی جوانی کی پہلی سیڑھی پر پہلی غلطی کر بیٹھی تھی۔ اس کا شوہر ریحان ملک سے باہر تھا۔ واپسی کی اطلاع پر وہ اس کی تیاری کرتی ہے۔ اس کی آمد کا وقت قریب آتا ہے تو فون کی گھنٹی بجتی ہے، آواز اس شخص کی ہوتی ہے جس کے ساتھ اس نے پہلی غلطی کی ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں منفی خیالات جنم لیتے ہیں، وہ اپنی سوچوں میں اس شخص کے بارے میں نہ معلوم کیا کیا سوچتی ہے، اس کے شوہر کی آمد سے قبل ہی عدنان اس کے گھر آجاتا ہے جسے دیکھ کر وہ سہم جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تمہاری امانت واپس کرنے آیا ہوں، وہ ایک پیکٹ نکال کر اس کی جانب بڑھاتا ہے، کانپتے ہاتھوں سے اس نے اسے پکڑااور یہ کہا کہ اپنا خیال رکھنا، یہ کہہ کر وہ واپس ہوتا ہے باہر بارش تیز ہورہی تھی“۔ ”افسانہ بادل اور تتلی“معاشرہ میں ہونے والے واقعات میں سے ایک ہے۔اسی طرح دیگر افسانے جیسے ایک دوپہر، صبح کا آسمان، ممتا، بھنور، بادل اور تتلی، طوفان، مسیحا، شاید پاتال تک۔ تحفہ، سائرن، خواب‘ خوشبو اور خاموشی، جمیر ہ بیچ، دھند میں لپٹے ارمان، مٹی، احساس، اڈیالہ جیل کا قیدی اور محبت ایک عام ساواقعہ شامل ہیں۔مختصر یہ کہ شاکر انور جتنے اچھے ناول نگار ہیں ان کے افسانے معاشرہ کی منفی اور مثبت حالات، واقعات،چھوٹی بڑی، اچھی اور منفی کہانیوں کے گردہی گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ بلا شبہ وہ ایک عمدہ افسانہ نگار ہیں۔ (6مارچ 2021ء)
|