پیارے دوستوں !نبی پاکﷺ کو اللہ تعالی نے عظیم علم عطا
فرمایا ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : اور تمہیں سکھادیا جو کچھ تم نہ
جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے ۔ (النساء :۴/۱۱۳)
اور فرماتا ہے :رحمٰن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایاانسانیت کی جان محمّد کو
پیدا کیا ما کان وما یکون کا بیان انہیں سکھایا۔ (الرحمن :۵۵/۴۔۱)
یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ مخلوق میں سب سے زیادہ علم اللہ تعالی نے ہمارے نبی
ﷺکو عطا فرمایا ہے ،اسی علمِ عظیم کی روشنی میں حضور ﷺ نے متعدد غیبی خبریں
دی ہیں جن میں سے کئی پوری ہوچکی ہیں ،اور بہت سی پیشگوئیاں ایسی ہیں جو
قربِ قیامت میں پوری ہوں گی ،ہم نے یہاں بعض ان پیشگوئیوں سے متعلق بعض
احادیث طیبہ کو جمع کیا ہے جن کا ظہور ہوچکا ہے ،مقصود یہی ہے کہ مسلمانوں
کے دل میں حضور ﷺ کے اس عظیم معجزہ کو دیکھ کر آپ ﷺ کی مزید محبت اور
عقیدت پیداہو اورغیر مسلم اگر ان اس مضمون کا مطالعہ کریں تو ان کے دل میں
اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کی صداقت پیدا ہو اور یہ مختصر مضمون ان کے
ایمان کا سبب بنے۔
حضرت سعید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی
عنہ رسول اللہ ﷺ کو وضو کرا رہے حضور ﷺ نے دورانِ وضو ایک یا دو بار ان کی
طرف سرِ مبارک اٹھا کر دیکھا اور ارشادفرمایا اے معاویہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ !اگر تم کو کسی علاقہ کا والی بنا دیاجائے تواللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور
عدل کرنا !حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: مجھے اس وقت سے یہ یقین
تھا کہ مجھے کسی منصب کاوالی بنا یا جائے گا اور اس کی وجہ رسول اللہ ﷺ کا
یہ ارشاد تھا، حتی کہ میں اس معاملے میں مبتلا ہوگیا ۔ (مسند احمد ، برقم
:۱۶۹۳۳ ، ۲۸/۱۲۹)
تجزیہ :اس حدیث پاک میں حضور ﷺ کی ایک عظیم پیشگوئی کا بیان ہے کہ حضور ﷺ
نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو پہلے ہی سے اس بات کی خبر دے دی تھی
کہ وہ عنقریب منصبِ ولایت پر فائز ہوں گے پس جس طرح حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا
تھا اسی طرح رونما ہوا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کو
شام کا والی بنایا تھا ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دورِ خلافت
میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو آپ کے منصب پر قائم رکھا حتی کہ جب حضرت
عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کیا گیا تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ
تعالی عنہ سے بیعت نہیں کی ، اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے شام میں پھر
مصر میں اپنی مستقل حکومت بنالی ، جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ شہید
ہوگئے اور مسلمانوں نے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت کر لی تو
حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے چند ماہ خلافت کرنے کے بعد مسلمانوں
کے عظیم تر مفاد کے لیے خلافت سے دستبردارہوکر حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی
عنہ سے بیعت کرلی اور یوں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ تمام ہی اسلامی
شہروں کے خلیفہ ہوگئے ۔ حضرت معاو یہ رضی اللہ تعالی عنہ کم و بیش سال بطورِ
امیر اور بیس سال بطورِ خلیفۃ المسلمین رہے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ :
۶/۱۲۰)
حضرت ام حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ ان
کے گھر آئے اور ان کے قریب سوگئے پھر حضور ﷺ ہنستے ہوئے بیدار ہوئے ،میں
نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ !آپ ﷺ کو کس چیز نے ہنسایا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا
مجھے میری امت کے کچھ لوگ دکھائے گئے جو سمندر کے راستے جہاد کریں گے وہ
ایسے ہوں گے جیساکہ بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں ۔حضرت ام حرام رضی اللہ تعالیٰ
عنہا نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ اللہ عزّوجل سے دعا کیجیے کہ اللہ عزّوجل
مجھے ان میں سے کر دے آپ ﷺ نے ان کے لیے دعا کی ،پھر سو گئے۔پھر آپ ﷺ
ہنستے ہوئے بیدار ہوئے ،میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ !آپ ﷺ کس بات پر ہنس
رہے ہیں ،فرمایا مجھے میری امت کے کچھ لوگ دکھائے گئے جو اللہ عزّوجل کی
راہ میں جہاد کریں گے میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ !میرے لیے دعا کریں کہ
اللہ تعالیٰ مجھے ان میں سے کر دے ۔آپ ﷺ نے فرمایا تم پہلے لشکر میں سے ہو
۔حضرت ام حرام بن ملحان حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے زمانے میں
سمندر کے راستہ جہاد میں گئیں جب وہ غزوے سے واپس لوٹ رہے تھے وہ شام میں
اترے ، حضرت ام حرام بنت ملحان کے سوار ہونے کے لیے سواری کو قریب لایا گیا
تواس سواری نے آپ کو گرا دیا اور آپ جان بحق ہو گئیں۔ (صحیح البخاری ،
برقم :۲۷۹۹ ، ۴/۱۸)
تجزیہ :اس حدیث پاک میں حضور ﷺ کی عظیم پیشگوئیاں ہیں پہلی پیشگوئی یہ ہے
کہ میری امت کے لوگ سمندری جہاد کریں گے اور دوسری پیشگوئی یہ ہے کہ امِّ
حرام بنت ملحان بھی اس جہاد میں شریک ہوں گی ،پس جس طرح حضور ﷺ نے فرمایا
تھا اسی طرح سے ہوا ، حضرت امّ حرام بنت ملحان رضی اللہ تعالی عنہا جس غزوے
میں شہید ہوئی اس کا نام غزوۂ قبرس ہے ، یہ غزوہ ۲۷ھ ۔ میں ہوا ،یہ غزوہ
حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے دورِ خلافت میں ہوا اس لشکر کے امیر حضرت
معاویہ بن ابوسفیان تھے ۔ حضرت ام حرام حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی محرمہ
ہیں اس پر سب کا اتفاق ہے۔ اختلاف اس میں ہے کہ وہ آپ ﷺ کی محرمہ کس جہت
سے تھیں یا تو آپ کی رضاعی خالہ ہیں یا آپ ﷺ کے والد گرامی حضرت سیدنا
عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خالہ ہیں یا حضرت سیدنا عبدالمطلب کی خالہ
ہیں کیونکہ حضرت سیدنا عبداللہ اور حضرت سیدنا عبدالمطلب بنی نجار کے رشتہ
دار ہیں،بہرحال حضور انور ﷺ کا ان کے پاس جانا،کھانا پینا،وہاں سونا بالکل
جائز تھا۔(مرقاۃ المفاتیح :۹/ ۳۷۴۸)
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی پاک ﷺ کے
پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا جس نے فاقہ کی شکایت کی
،پھر دوسرا شخص آیا جس نے راستہ میں ڈاکوؤں کی شکایت کی ۔آپ ﷺ نے ارشاد
فرمایااے عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ!کیا تم نے’’ اَلْحِیرَہ‘‘ دیکھا ہے؟میں
نے عرض کیا :میں نے اس کو دیکھا تو نہیں لیکن مجھے اس کی خبر دی گئی ہے
،آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم ایک مسافر ہ کو
دیکھو گے جو ’’ اَلْحِیرَہ‘‘سے سفر کر کے کعبہ کا طواف کرے گی اوراس کواللہ
تعالیٰ کے سوا اور کسی کا خوف نہیں ہو گا۔میں نے اپنے دل میں کہا پھر اس
شہر کے ڈاکو کہاں چلے جائیں گے جنہوں نے شہروں میں فتنہ اور فساد کی آگ
بھڑکا دی ہے ۔(پھر فرمایا)اور اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم دیکھو گے
کہ ایک شخص مٹھی بھر سونا یا چاندی لے کر نکلے گا اور اس کو لینے والے کو
ڈھونڈے گا اور اسے کوئی شخص نہیں ملے گا جواس کو قبول کر لے۔اور تم میں سے
ضرور ایک شخص قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس
کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا جو ترجمہ کرے۔اللہ
تعالیٰ فرمائے گا کیا میں نے تمہاری طرف کوئی رسول نہیں بھیجا تھا جس نے تم
کو تبلیغ کی ؟وہ کہے گا کیوں نہیں اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا میں نے تم کو
مال نہیں دیاتھا جو تم سے زائد تھا؟وہ کہے گا کیوں نہیں !پھر وہ اپنی دائیں
طرف دیکھے گا تو صرف جہنم نظر آئے گی اور بائیں طرف دیکھے گا تو صرف جہنم
نظر آئیگی ۔حضرت عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ
کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آگ سے بچو ،خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے (کے
صدقہ)سے،اور جس کو کھجور کاٹکڑا نہ ملے تو وہ کوئی نیک بات کہہ دے ،حضرت
عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مسافر ہ کو دیکھا جس نے ’’
اَلْحِیرَہ‘‘ سے سفر کر کے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور اس کو اللہ تعالیٰ کے
سوا کسی کا خوف نہیں تھا،اور میں ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے کسری بن
ہرمز کے خزانو ں کو کھولا اور اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی توتم ضرور وہ
نشانی دیکھ لو گے جو نبی کریم ﷺ نے فرمائی تھی کہ ایک آدمی مٹھی بھر (سونا
یا چاندی )لے کر نکلے گا۔ (صحیح البخاری ، برقم : ۳۵۹۵ ، ۴/۱۹۷)
تجزیہ : اس طویل حدیث پاک میں جو پیشگوئیاں حضور ﷺ نے بیان فرمائی ہیں ، ان
کا بعینہ اسی طرح واقع ہونے کا مشاہدہ راویٔ حدیث خود بیان کر رہے ہیں
۔شارحینِ حدیث نے لکھا کہ حضور ﷺ کی بیان کردہ آخری پیشگوئی حضرت عمر بن
عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہ کے دورِ خلافت میں پوری ہوئی اور اس پیشگوئی
کا ظہور امام مہدی کے آنے کے بعد بھی ہوگا جیساکہ متعدد احادیث مبارکہ میں
آیا ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا کسریٰ فوت ہوگا اور اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں ہوگا اور جب قیصر
ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہوگا اواس ذات کی قسم جس کے
قبضہ و قدرت میں میری جان ہے ! تم ضرور ان کے خزانوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ
میں تقسیم کرو گے ۔(صحیح البخاری : ۳۰۲۷ ، ۴/۶۳)
تجزیہ : اس حدیث پاک میں حضور ﷺ کی عظیم پیشگوئیاں ہیں کہ کسری اور قیصر
ہلاک ہوں گے اور ان کی حکومتیں ختم ہو جائیں پھر نہ تو کوئی کسری ہوگا اور
نہ ہی قیصر نیز اس حدیث پاک میں اس بات کا بھی بیان ہے کہ مسلمان قیصر اور
کسری کی سلطنتوں کو فتح کر لیں گے اور ان دونوں کا خزانہ مسلمان اللہ تعالی
کی راہ میں خرچ کریں گے ۔
حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کے پاس کسریٰ کی پوستین لائی گئی اور ان کے سامنے رکھ دی گئی
،اور قوم میں حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔حضرت
عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسریٰ بن ہرمز کے کنگن ،حضرت سراقہ بن
مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیے ،انہوں نے ان کواپنے ہاتھوں میں پہن لیا
جوان کے کندھوں تک پہنچ گئے ۔جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
حضرت سراقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں میں کنگن دیکھے تو فرمایا :
الحمدللہ !
امام شافعی علیہ الرحمۃ نے کہا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت
سراقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کنگن اس لیے پہنائے تھے کہ نبی پاک ﷺ نے
حضرت سراقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کلائیوں کو دیکھتے ہوئے
ارشادفرمایاتھا،گویا کہ تمہارے ہاتھ کسریٰ کے کنگن پہنے ہوئے ہیں ،امام
شافعی علیہ الرحمۃ نے کہا جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسریٰ
کے کنگن حضرت سراقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پہنائے تو کہا تمام تعریفیں
اللہ عزّوجل کے لیے ہیں ،جس نے کسریٰ بن ہرمز سے کنگن چھین کر سراقہ بن
جعشم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پہنا دیے جو بنو مدلج کا ایک اعرابی ہے ۔
(دلائل النبوۃ للبیہقی : ۶/۳۲۶)
تجزیہ :اس حدیث پاک میں حضور ﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ کسری کا ملک فتح
ہوگا ، اور کسری کے سونے کے کنگن مسلمانوں کے قبضہ میں آئیں گے اور وہ
کنگن حضرت سراقہ پہنیں گے پس جس طرح حضور ﷺ نے فرمایا تھا اسی طرح وقوع میں
آیا ۔ اللہ پاک ہم سب کو نبی پاک ﷺ کی برکات سے دنیا اور آخرت میں مزید
مستفیض کرے !آمین
|