کرکٹ میں جب کوئی نیا کھلاڑی ٹیم میں شامل ہوتا اسے اس کے
ساتھی یہ سمجھاتے کہ آپ کریز پر ٹہرنے کی کوشش کریں اگر آپ آتے ہی چوکے اور
چھکے مارنے لگیں گے تو آپ کو کرکٹ شائقین کی تالیوں کی گونج میں و قتی
تعریف و توصیف تو مل جائے گی لیکن بہت جلد ہی آؤٹ ہو کر پویلین میں واپس
چلے جائیں گے ۔جو کھلاڑی کریز پر کھڑے رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر گیند
کو اس کی میرٹ پر کھیلتے ہیں یا آپ ٹک ٹک کرتے ہیں تو اسی ٹک ٹک سے آپ کے
ایک ایک اور دو دو رنزبنتے رہیں گے ،اور جب کوئی لوز بال آگئی تو چوکے اور
چھکے بھی لگ جائیں گے ۔اس طرح آپ ایک قابل ذکر اسکور کرکے واپس جائیں گے
اور اسی حکمت عملی کے باعث آپ کی ففٹی یا سنچری بھی آسانی سے بن سکتی ہے ۔
صبح نماز فجر کے بعد ایک ساتھی کے ساتھ چائے کے دور کے ساتھ کچھ گپ شپ بھی
ہوتی ہے ایک چھوٹا اخبار علی الصبح جسے ہوٹل میں ایسی بیٹھکوں میں جہاں
دوچار لوگ مجلسی نشست سجائے بیٹھے رہتے ہیں صبح کا وہ چھوٹا سا اخبار ہر
ایک کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔بڑے اخبار جو گھر پر آتے ہیں اس میں تو کچھ دیر
ہوتی ہے ہم یہ دیکھتے ہیں اس چھوٹے سے اخبار میں تقریباَ تمام اہم خبریں
ہوتی ہیں ۔
تین چار روز پہلے اس میں ایک چھوٹی سی خبر نظر سے گزری کہ "مریم نواز کو
ملک سے باہر جانے کی اجازت نہ دینے کی وجہ سے عمران خان اور اسٹبلشمنٹ میں
اختلافات پیدا ہو گئے "بعد میں جو خبریں سننے کو ملیں ان سے معلوم ہوا کہ
مریم نواز صاحبہ ملک سے باہر جانا چاہتی تھیں اور اس کے لئے انھوں نے
بالواسطہ ان مقتدر قوتوں سے رابطہ کیا جن کے خلاف وہ صبح شام سخت قسم کے
بیانات دیتی رہتی ہیں اس حوالے سے جب عمران خان سے رابطہ کیا گیا تو بقول
ایک سینئر تجزیہ نگار عمران خان صاحب نے سختی سے انکار کردیا اور یہاں تک
کہا کہ چاہے میری وزارت عظمی ٰ چلی جائے میں اسے باہر جانے کی اجازت نہیں
دوں گا ان کے سامنے نواز شریف کا کیس موجود تھا کہ جن کی ساری میڈیکل
رپورٹیں ایسا لگتا ہے جعلی تھیں کہ جس میں ان کی طبعیت کو اتنی سیریز
کنڈیشن میں بتایا گیا تھا کہ اگر انھیں علاج کے لئے باہر جانے نہ دیا گیا
تو کوئی خوفناک حادثہ ہو سکتا ہے حکومت کے ایوانوں میں خوف کی یہ لہر چل
رہی تھی کہ جیل میں نواز شریف کے ساتھ کوئی المناک سانحہ ہو گیا تو حکومت
کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے ۔اس تناظر میں وزیراعظم عمران خان نے علاج کی
خاطر نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دے دی ۔نواز شریف صاحب جب لندن ایئر
پورٹ پر اترے تو ان کی چال ڈھال سے یہ پتا ہی نہیں لگ پارہا تھا کہ کوئی
مریض اپنا علاج کرانے آیا ہے بلکہ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کسی بزنس ٹور پر
آئیں ہیں نواز شریف صاحب جب سے لندن گئے ہیں ایک دن کے لیے بھی ہسپتال میں
داخل نہیں ہوئے ،البتہ ان کے لیبارٹری ٹیسٹ کی خبریں آتی رہتی ہیں ۔ان تمام
صورتحال کی روشنی میں عمران خان صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو
گیا ۔اسی لیے انھوں نے مریم نواز کے معاملے میں سخت موقف اختیار کر لیا ہے
۔
سینئر تجزیہ نگار جناب ہارون الرشید کا کہنا ہے کہ عمران خان صاحب کو مریم
نواز کو باہر جانے کی اجازت دے دینا چاہیے ان کا کہنا ہے کہ مریم اگر باہر
چلی گئیں تو حکومت مخالف تحریک ٹھنڈی پڑ جائے گی ۔نواز شریف صاحب نے جو
دھوکا دیا ہے اس کی وجہ سے وزیر اعظم نے سخت موقف لے لیا ،حمزہ شہباز ضمانت
پر رہا ہو گئے ہیں ۔ن لیگ کے کارکنان نے جیل سے باہر حمزہ شہباز کا پر جوش
استقبال کیا اور ایسے نعرے لگارہے تھے جیسے کہ ان پر سے کرپشن کا کیس ہی
ختم ہوگیا ہو ۔حمزہ شہباز کو اسپیس دینے کے لیے مریم کو تھوڑا پیچھے ہٹنا
پڑے گا ،صوبہ پنجاب میں اسپیکر پرویز الٰہی نے جوڑ توڑ کی صلاحیتوں کا بھر
پور استعمال کرتے ہوئے جس طرح بلا مقابلہ سینیٹرز کامیاب کرائے ہیں اس سے
مریم نواز خوش نہیں ہیں ،تحریک انصاف کو چھ نشستیں ملی ہیں جبکہ ن لیگ کو
پانچ اور ق لیگ کو ایک نشست پر کامیابی ملی ہے ۔پرویز الٰہی نے شہباز شریف
سے رابطہ رکھا اور ان کے مشورے سے پنجاب میں سینیٹرز کا انتخاب کا پراسز
مکمل ہوگیا ۔ایک اخباری رپورٹر نے جب مریم نواز سے پنجاب میں بلا مقابلہ
سینیٹرز کی کامیابی پر سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ یہ سوال نہ ہی کیا جائے
تو بہتر ہے ،ظاہر ہے جس طرح وہ حکومت کے خلاف تحریک کو لے کر چل رہی ہیں اس
پس منظر میں مریم نواز کو مشاورت سے الگ تھلگ کرکے شہباز شریف کو مشورے میں
رکھ کر جو فیصلے کیے گئے ہیں اس سے مریم نواز خوش نہیں ہیں ۔
مریم نواز لندن کیوں جانا چاہتی ہیں بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ وہ اپنے والد
کی عیادت کے لیے جارہی ہیں لیکن تجزیہ نگار ہارون الرشید کی خبر ہے کہ مریم
نواز جائداد کی تقسیم کے لیے لندن جانے کے لیے بے چین ہیں جی یہ وہی مریم
نواز ہیں جنھوں نے کہا تھا کہ لندن تو کیا میری تو پاکستان میں بھی کوئی
جائداد نہیں ہے ۔ہارون الرشید کی ایک اہم خبر یہ بھی ہے کہ ن لیگ کے
اسٹبلشمنٹ سے معاملات طے ہوگئے ہیں آصف زرداری سے پہلے تعلقات ٹھیک ہو چکے
ہیں یہی وجہ ہے کہ فوج کے حوالے سے مریم نواز کی لہجے کی سختی کچھ کم ہو
گئی ہے اب سارا غصہ ن لیگ کا عمران خان پر ہوتا ہے ۔سینٹ کے انتخاب میں
سپریم کورٹ کے فیصلے پر تمام سیاسی جماعتوں کی نظریں مرتکز تھیں پیر یکم
مارچ کو سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا ہے اس پر تو بعد میں بات ہو گی ۔
عمران خان نے جس طرح حالات کی نرمی و گرمی کا مقابلہ کرتے ہوئے ڈھائی سال
گزارے ہیں اب بقول ان کے حالات بہتری کی طرف جارہے ہیں ،ایسے مراحل میں
انھیں اقتدار کے خاموش شراکت داروں سے دوری اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے
بہت سے معاملات میں آپ نے مشاورت کے بغیر اپنی مرضی سے فیصلے کیے ہیں ۔پنجاب
اور کے پی کے میں وزیر اعلیٰ کی تقرری اور اس کے علاوہ دیگر چھوٹے بڑے
معاملات ہو سکتے ہیں اگلے ڈھائی سال آپ کوشش کریں کہ عوام کو کچھ ڈیلیور کر
دیں ویسے تو مارچ کا مہینہ بہت اہم ہے یکم مارچ کو اوپن بیلٹنگ اور خفیہ
رائے دہی کے حوالے سپریم کورٹ کافیصلہ آنا ہے)جو آچکا ہے (تین مارچ کو سینٹ
کا انتخاب ہے اگر یوسف رضاگیلانی جیت جاتے ہیں جیسا کہ اپوزیشن بہت زور لگا
رہی ہے تو ملکی سیاست کا نقشہ الٹ پلٹ ہو سکتا ہے پھر شاید لانگ مارچ جس کی
26مارچ کی تاریخ دی ہوئی ہے اس میں تبدیلی ہو اور لانگ مارچ سے پہلے وزیر
اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی آسکتی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وزیر
اعظم اسمبلیوں کو توڑ دیں اور مڈ ٹرم انتخابات کا اعلان کر دیں ۔
|