تحریر: مہوش کرن
سین :1
یہ ایک تین فٹ چوڑا باتھ روم ہے۔ عورتوں اور بچوں کے لیے کام کرنے والے
فلاحی ادارے نے رشتے داروں کی شکایت درج کرانے پر ابھی وہاں چھاپہ مار کر
باتھ روم کا دروازہ توڑا ہے۔ اور اندر سے ایک 35 سالہ عورت کو برآمد کیا ہے
جو وہاں ڈیڑھ سال سے بند تھی۔ اِس کی شادی کو 17 سال ہو چکے ہیں اور یہ تین
بچوں کی ماں بھی ہے۔ عورت کی دونوں ٹانگیں تنگ جگہ پر اتنا لمبا عرصہ بند
رہنے کی وجہ سے مڑی ہوئی ہیں، وہ شدید نقاہت کا شکار ہے اور اس کے کپڑے
نہایت گندے ہو رہے ہیں۔ اس کا شوہر کہتا ہے کہ دماغی مریضہ ہے لیکن اس کے
پاس یہ ثابت کرنے کے لیے کوئی میڈیکل رپورٹس موجود نہیں ہیں جبکہ وہ کمزوری
اور کھل کر نہ بول پانے کے باوجود بھی اپنا اور اپنے بچوں کا نام بآسانی
بتا رہی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ عورت اپنے شوہر کی طرف سے بری طرح تشدد کا
شکار ہوئی ہے۔ پولیس نے اسی وقت شوہر کو حراست میں لے لیا ہے۔
سین 2:
یہ ویڈیو یوٹیوب پر اپلوڈ ہوئی ہے۔ جس میں 27 سالہ ایک لڑکی روتے ہوئے اپنی
کہانی سنا رہی ہے کہ کس طرح اس کے شوہر نے اسے مارا پیٹا اور تشدد کا نشانہ
بنایا ہے۔ اس کا چہرہ سوجا ہوا اور ایک آنکھ پر گہرا نیل پڑا ہوا ہے۔ وہ
بتا رہی ہے کہ وہ دو معصوم بچوں کی ماں ہے اور ہر ہر طرح سے اس کا خاوند اس
پر تشدد کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ معصوم بچوں کے سامنے بھی مارنے اور چیخنے
سے گریز نہیں کرتا۔ ابھی یہ ویڈیو اپلوڈ کر کے وہ پولیس کو فون کرنے والی
ہے۔
اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ عورت مائی خیراں، خالہ رشیدہ، بے چاری سلمیٰ،
صباء یا سائرہ ہے تو ذرا ٹھہریے۔۔۔
سب پاکستان و اسلام دشمن، میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگانے والے دل تھام
کر سن لیں کہ یہ عورتیں نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی یہ پاکستان کا احوال
ہے۔ جی ہاں، پہلے سین میں ہے رام رتی اور اس کا تعلق ہریانہ، انڈیا سے ہے۔
جبکہ دوسرے سین میں موجود لڑکی ایما مرفی یورپ سے تعلق رکھتی ہے۔ حوالہ جات
دینے سے آپ کو یہ بھی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ یہ دونوں ہی حقیقی کردار ہیں۔
آپ چاہیں تو گوگل پر سرچ بھی کر سکتے ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ بھارت جو بظاہر تعلیم اور انگریزی بولنے میں بہت تیز
دکھائی دیتا ہے اور اپنی عورتوں کو ہر فیلڈ میں آگے رکھنے والا نظر آتا ہے،
وہاں بھی عورتوں پر ظلم اور گھریلو تشدد کی وارداتیں عام ہیں اور ملک کی
ایک تہائی عورتیں اس کا شکار ہونے کے باوجود بھی پولیس کو رپورٹ نہیں
کرواتیں۔ اس معاملے میں امریکہ کا حال بھی ابتر ہی نظر آتا ہے جہاں ایک
سروے رپورٹ کے مطابق 84 فیصد خواتین اپنی پوری زندگی میں کسی نہ کسی قسم کا
تشدد برداشت کرتی ہیں۔ جس میں چھری، چاقو کے وار سے لے کر ہڈی توڑنا، جسم
پر سگریٹ سے جلانا، منہ اور آنکھ پر بری طرح مارنا، جسمانی و جنسی پرتشدد
رویہ بھی شامل ہے۔
یعنی وہی مغرب جس کی مثالیں دی جاتی ہیں اور آزادیِ نسواں کی ریلیوں کے
نعروں میں وہاں کی عورت سے مماثل آزادی مانگی جاتی ہے وہ بھی اتنے برے حال
میں ہیں۔ آپ کم از کم مثال دینے سے پہلے تھوڑی تحقیق تو کر لیا کریں۔ ریپ
تو ایک طرف لیکن اگر بوائے فرینڈ کے ساتھ بغیر شادی کیجسمانی تعلق قائم کیا
جائے تو وہ جائز لیکن شوہر اپنا جائز حق استعمال کرے تو اسے جنسی تشدد کا
نام دے دیا جاتا ہے، کیا یہ انصاف ہے۔؟
چلیں بھارت میں تو جو مذہب مانا جاتا ہے اور وہاں جو کلچر رائج ہے اس میں
عورت کو سمجھتے ہی پیروں کی جوتی ہیں۔ پھر جوتی سے تو یہی سلوک کریں گے۔
اور مغربی ممالک والے تو بے چارے ہر مذہب سے ہاتھ دھو کر لادین ہی ہو چکے
ہیں تو بھلا انہیں عورت کی عزت و تحفظ کے بارے میں کیسے معلوم ہوسکتا ہے۔
بقول علامہ اقبال؛
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت
ہے حضرتِ انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اْسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت
لیکن کیا ہم بھی بھول گئے ہیں کہ ہمارا دینِ کامل اس بارے میں کیا کہتا ہے
یا شاید ہمیں پتا ہی نہیں ہے۔ ان جلسوں میں طلاق کو اور عورت کی آزادی کو
رنگ برنگے انداز میں دکھایا جاتا ہے جبکہ جہاں اسلام طلاق کو ناپسندیدہ
قرار دینے کے باوجود ناگزیر حالات میں اس کی اجازت دیتا ہے ساتھ ہی ساتھ
مطلقہ عورت کے حقوق بیان کرتا ہے وہیں پر حدیثِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم یہ
بھی بیان کرتی ہے کہ؛
’’جس عورت نے بغیر کسی وجہ کے اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کیا وہ جنت کی
خوشبو نہ پائے گی۔‘‘ (ترمذی)
دینِ اسلام تو وہ ہے جس نے مرد و عورت دونوں پر ایک دوسرے کے حقوق متعین
کرنے کے بعد مرد کو بھاری ذمہ داری دے کر عورت کو گھر کی ملکہ بنایا، اسی
لیے مرد کو ایک درجہ فضیلت دے کر (حوالہ سورت البقرہ: آیت 228) دوسری طرف
عورت کو بحیثیت ماں، باپ پر تین درجہ فضیلت بھی دے ڈالی۔ ساتھ ہی مرد وعورت
کے کام یعنی فرائض بھی متعین کر دیے، جیسا کہ حدیث میں موجود ہے؛
’’مرد اپنے اہل پر نگراں اور ذمہ دار ہے اور اس کی ذمہ داری کے بارے میں
اْس سے پوچھا جائے گا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
’’عورت اپنے شوہر کے گھر اور (تربیتِ) اولاد کی نگران ہے۔‘‘ (بخاری)
یعنی الگ الگ دونوں فریقین کے حقوق و فرائض بیان ہونے سے کسی قسم کے ابہام
کی گنجائش ہی نہیں رہی۔ لیکن پھر بھی بے آواز برتن آپس میں ٹکرا کر بلاوجہ
شور مچاتے رہتے ہیں۔ اس بار تو خبر آئی ہے کہ امریکہ نے دس ملین ڈالر اسی
خاص ایجنڈے کو پروان چڑھانے کے لیے مختص کیے ہیں۔ یعنی اب مزید عورت مارچ
جیسی ریلیاں ہوں گی، اسلام پسند تحریکوں اور دانشوروں کو باتوں، طعنوں اور
الزامات کا نشانہ بنایا جائے گا۔ اسلامی قوانین کی دھجیاں اڑائی جائیں گی
اور ہر طرح سے خاندانی نظام کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اب
آپ بھی سمجھدار ہیں کہ جب پچھلے چند سالوں میں اتنا کچھ ہوا ہے تو بھلا
آئندہ کیا کیا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ اﷲ کی رسی اور سنتِ رسول
صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اپنے گھر بار، اپنے شوہر اور اولاد کو مضبوطی سے
تھام لیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس منجدھار میں نازک تنکے کی طرح بہہ جائیں۔
کیونکہ صرف اتنا سا کام کرنے سے آپ کو معلوم ہے کہ آپ کو کیا مل سکتا ہے؟
یہ دیکھیں،
’’جب عورت پانچ وقت کی نماز ادا کرے، ماہِ رمضان کے روزے رکھے، اپنی عزت کی
حفاظت کرے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے تو وہ جنت کے جس دروازے سے داخل
ہونا چاہے گی، داخل ہو جائے گی۔‘‘ (مسند احمد) اب اس سے زیادہ بھی کوئی
مانگ سکتا ہے۔
جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہ جیسی ہستی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بطور
شوہر کپڑے دھوتیں، سر میں تیل ڈالتیں، کنگی کرتیں اور بستر وغیرہ کا خیال
کرتی تھیں تو ہم کون ہوتے ہیں اپنا کھانا خود گرم کر لو کا نعرہ لگانے
والے۔ اگر آپ نے یا میں نے اپنے شوہروں کے چار کام کر لیے تو کون سا ان پر
کوئی احسان کیا ہے بلکہ یہ تو آخرت کا زبردست سودا ثابت ہو سکتا ہے بشرطیکہ
ہماری نیت میں اخلاص ہو۔
اس معاملے میں جو دنیا دار ہیں وہ فیمینزم کے چکر میں پھنس رہی ہیں اور جو
دین دار ہیں وہ یہ کہہ رہی ہیں کہ ان سب کاموں کو ہم پر اﷲ نے فرض نہیں
کیا۔ بالکل جناب فرض تو مردوں پر کیا ہے آپ اور بچوں کا خرچہ پانی اور آخری
حد تک جائیں تو مرد پر جہاد بھی فرض ہے۔ تو بھلا سوچیں کیا آپ جہاد کر سکتی
ہیں؟
ارے ہاں ہاں بالکل وہ کرنے کے لیے آپ ضرور تیار ہوجائیں گی، آپ کو گھر بار
چھوڑ کر دعوؤ کا شوق ہے، فوج اور پولیس میں آپ کو بھرتی ہونا ہے، اسٹورز
میں جا کر آپ کو لائنوں میں لگنا ہے، اکیلے ٹیکسیوں میں آپ کو خوار ہونا
ہے۔
حالانکہ حضرت اسماء رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا
تھا، کہ ہم عورتیں تو گھردراری، بچوں کی تربیت، مال و عزت کی حفاظت میں
مصروف رہتی ہیں جبکہ مرد باہر جا کر نماز با جماعت وغیرہ ادا کرتے ہیں،
جہاد میں شریک ہوتے ہیں تو کیا عورتوں کو بھی برابر کا ثواب ملے گا۔ ان کے
استفسار پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اجر حاصل کرنے کے معاملے میں اتنی جامع
گفتگو کرنے پر نہ صرف تمام صحابہ کرام کے سامنے آپ کو سراہا تھا بلکہ جواب
میں فرمایا تھا کہ،
’’اگر ایک عورت فرائض ِ زوجیت ادا کرتی ہے، شوہر کی موافقت و فرمانبرداری
کرتی ہے تو اسے بھی مرد کے برابر اجر ملے گا۔‘‘۔ (حوالہ تذکرہ صحابیات،
بحوالہ مسند احمد)
تو شکر کریں اتنے معمولی سے کام کر کے جو آپ کو ویسے بھی اپنے لیے کرنے ہی
ہوتے ہیں مثلا آپ اپنا یا بچوں کا کھانا تو پکائیں گی نا، اسی طرح کپڑے بھی
دھوئیں گی تو بھلا سارا مسئلہ شوہر سے ہی کیوں ہے۔؟ خدارا اپنے شعور کی
آنکھیں کھولیں اور دیکھیں کہ یہ کچھ بھی نہیں سوائے آپ کی بربادی کے سامان
کے، کیونکہ آخر میں آپ ہی اکیلی رہ جائیں گی۔ بھلا مشرق اور مغرب کا کیا
مقابلہ۔؟
اپنے آپ کو پہچانیں، آپ بڑی قیمتی ہیں، خود کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ ذرا
سوچیں کہ جب حضرت ابرھیم علیہ السلام اماں ہاجرہ کو شیر خوار بچے کے ہمراہ
تپتے صحرا میں تن تنہا چھوڑے جا رہے تھے تو کیا وہ بین کرنے اور طعنے دینے
بیٹھ گئی تھیں؟ نہیں بلکہ انہیں یقین تھا کہ اﷲ ان کا صبر ضائع نہیں کرے
گا۔
تو جو مرد بحیثیت باپ، بھائی، شوہر یا بیٹا اپنے زیرِ دست عورتوں کے ساتھ
ظلم کرتے ہیں وہ برے ہیں، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ سب مرد برے ٹھہرا دیے
جائیں اور ایک برے مرد کا بدلہ دوسرے تمام مردوں سے لینا شروع کر دیا جائے۔
اس کے بجائے اپنی اولاد کی تربیت کے لیے پْرزور کام شروع کریں، اپنے اور ان
کے باپ کے لیے تو بس دعا ہی کر سکتی ہیں۔
اور نہ ہی کسی برے مرد کی وجہ سے اسلامی نظامِ زندگی کو برا کہنا مناسب ہے۔
کیا کبھی رب کی کہی بات غلط ہو سکتی ہے۔؟ وہ رب جو اپنے علاؤہ کسی اور کو
سجدے کی اجازت دیتا تو وہ عورت کے لیے اس کا شوہر ہوتا۔ وہ رب جو خلافِ
شریعت بات کے علاؤہ عورت کو خاوند کے ہر حکم کی پاسداری کا حکم دیتا ہے۔
بالکل نہیں، بلکہ ہمارے سوچنے سمجھنے کا انداز، ہماری تربیت اور سمجھانے کا
طریقہ ضرور اصلاح طلب ہے۔ اپنی قسمت پر روتے رہنے کی بجائے اپنے آس پاس
موجود لوگوں کے آنسو پونچھیں، جو سکون آپ کو نہیں ملا وہ آرام دوسروں کو
دینے کی کوشش کریں اور اپنی نسلوں پر جان توڑ محنت کر جائیں۔
ذرا سوچیں آپ کیسا محسوس کریں گی کہ کل کو معاشرے کے بہترین لوگ، جو دنیا
کے کامیاب ترین انسان نظر آ رہے ہوں اور دین و آخرت کی کامیابی کے لیے ہر
لمحہ سرگرداں ہوں، وہ آپ ہی کی آغوش میں پل بڑھ کر جوان ہوئے ہوں اور آپ کی
زیرِ تربیت رہ کر اس قابل بنے ہوں کہ معاشرے میں ترقی و فلاح کے جھنڈے گاڑ
سکیں۔ یقیناً اس کے ثمرات آپ کو دنیا میں ہی کھانے کو مل جائیں گے۔ اپنے
صبر پر اجر ملنے کا انتظار قیامت تک اٹھا رکھیں، بس اپنے حصے کی ذمہ داریاں
اور فرائض پورے کر کے مرتے دم تک عبادت کا ثواب حاصل کرتی جائیں۔
آپ معمارِ انسانیت ہیں، اپنا آپ پہچانیں اور اقبال کے ان افکار کو جانیں،
رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے
روشن ہے نگہ ، آئینہ دل ہے مکدر
بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے
ہوجاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
آغوشِ صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے
وہ قطرہ نسیاں کبھی بنتا نہیں گوہر
|