شہدائے لنجوٹ کی یاد میں

جمعرات24 اور 25 فروری 2000 کی درمیانی شب آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی کے نکیال سیکٹر میں لنجوٹ گاؤں میں بھارتی فوجی سیز فائر لائن توڑتے ہوئے صرف 150میٹرکے فاصلے پر ایک گھر میں داخل ہو گئے۔ پانچ بچوں اور چھ خواتین سمیت14افراد کو شہید کر کے ان میں سے کئی کے سر کاٹ کر اپنے ساتھ لے گئے۔دو تا 90سال کی عمر کے ان معصوم شہریوں کے خلاف بھارت کا یہ دہشتگردانہ اور بزدلانہ حملہ تھا ۔ پاک فوج کے کمانڈر بریگیڈئر دلشاد حسین ملک کا کہنا تھا کہ کوئی پروفیشنل فوجی نہتے افراد کو دہشتگردی کا نشانہ نہیں بنا سکتا، مگر بھارت کی فوج ہندو انتہا پسند فوج بن چکی ہے۔ 45سالہ محمد یونس بھارتی کمانڈوز کے اس حملہ میں زخمی ہو گئے اور ان کی اہلیہ اور سات سالہ بچی بھارتی حملے میں شہید ہو گئیں، ان کا کہنا تھا کہ 15کمانڈوز اچانک گھر میں داخل ہوئے اوردستی بم پھینکتے ہوئے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ امریکی صدر بل کلنٹن کے دورہ بھارت سے قبل یہ حملہ بھارتی ریاستی دہشتگردی اور اشتعال انگیز کارروائی تھی۔آزاد کشمیر کے وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود کو کہ آج پی ٹی آئی کے صدر ہیں اور ایک بار پھر وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، نے صدر کلنٹن سے کشمیر کا بھی دورہ کرنے کی اپیل کی تھی۔ اس حملے کے خلاف مظفر آباد میں صاحبزادہ اسحاق ظفر(مرحوم) کی قیادت میں مظاہرہ کیا گیا۔ اس دہشتگردی کے دوسرے دن ہی مقبوضہ نوشہرہ میں مجاہدین نے 8بھارتی فوجیوں ہلاک کر دیا۔بھارت نے لنجوٹ میں شہری کے گھر پریہ حملہ اس وقت کیاجب بھارتی فوج پاکستانی چوکیوں پر گولہ باری کر رہی تھی اور رات کی تاریکی میں پاک فوج کو گولہ باری میں الجھا کر معصوم اور نہتے شہریوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ واقعہ دس ہفتے تک جاری رہنے والی کرگل جنگ کے بعد ایک بڑا سانحہ ہے۔

لنجوٹ کے محمد شوکت اعوان بھارتی حملے کے بعد متاثرہ گھر میں سب سے پہلے پہنچنے والوں میں شامل تھے۔ وہ حملے کے بعد بکھری ، سرکٹی لاشوں، زخمیوں کے کراہنے کا آنکھوں دیکھا حال یوں بیان کرتے ہیں۔’’جنگ کاسال 99ء گزر چکا تھا ۔اب بھی جنگ بندی لائن پر بھارت گولہ باری کر رہا تھا۔گولہ باری اور ٹارگٹڈ فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا۔پاک فوج محتاط جوابی کارروائی سے دشمن کو حواس باختہ کئے ہوئے تھی۔مقبوضہ علاقے میں ویلج ڈیفینس کمیٹیاں کافی متحرک تھیں۔رسیز فائر لائن پرجنگی ماحول تھا۔۔لیکن شہری پاک فوج کیساتھ ڈٹے ہوئے تھے۔۔۔۔اور پہرہ دے رہے تھے۔۔ فروری 2000 کا تیسرا عشرہ چل رہا تھا۔ لیکن یہ عشرہ کچھ مختلف تھا۔حیران کن طور پر کہیں بھی فائرنگ اور گولہ باری رپورٹ نہیں ہو رہی تھی۔۔بالکل خاموشی تھی۔ہم لوگ چونکہ فائرنگ اور گولہ باری کی آوازوں سے کافی مانوس تھے۔اس لئے جب کبھی خاموشی چھا جاتی تو۔یہ ہمارے لئے خوف کا باعث ہوتی۔رات کو ہم ایک دوسرے کو آوازیں دیتے۔۔لائٹیں جلاتے اور جاگتے رہنے کی مشق سے دشمن کو اپنی تیاری اور رد عمل کا پیغام پہنچاتے۔۔دشمن ویسے بھی چند سو گز کے فاصلے سے ہمیں بلندی پر بیٹھ کر مانیٹر کرتا تھا۔۔۔اور اپنی چال میں تیزی سے مصروف عمل تھا۔۔انٹیلیجنس ادارے وقتا فوقتا دشمن کے کسی بھی ایڈونچر کے ممکنہ خطرات سے آگاہ کرتے اور محتاط رہنے کے لئے بھی ہدایت کرتے رہتے۔۔۔کیونکہ بے انتہا خاموشی پراسراریت کو جنم دے رہی تھی۔۔لیکن فی لحال سب کچھ نارمل چل رہا تھا۔ آج 24 فروری کو لنجوٹ میرے گھر سے تقریبا سو گز اوپر نکے پر۔۔۔۔سردار عبدا لحمید کے گھر دعا کی ایک تقریب تھی۔دن کولوگ قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہے۔خوب چہل پہل رہی۔شام کو وقت پر دعا ہوئی اور شرکاء کی بڑی تعداد دعا کے بعد کھانا کھاکرگھروں کو لوٹ گئی۔میں دن کو تو پروگرام میں شامل نہ ہوسکا۔لیکن شام کو حاضری دی اور اپنے گھر لوٹ آیا۔۔۔ بزرگوں کا بڑا گھرتھا اور بڑی اور پرانی روایات بھی تھیں۔ کچھ بزرگ اور قریبی رشتہ دار ادھر ہی ٹھہر گئے کہ رات کو گپ شپ ہو گی۔۔۔یعنی رات کو ادھر ٹھہرنے والے کل افراد کی تعداد 18 تھی۔جن میں ایک امام مسجد قاضی فیض محمد بھی شامل تھے باقی فیملی کے لوگ تھے۔۔۔۔ہم بھی اپنے گھر میں دیر تک جاگنے کے بعد کہیں نیند کی آغوش میں چلے گے۔۔۔

رات بارہ بجے بجلی بند ہو گئی۔ 24 فروری کی تاریخ بدل گئی۔بجلی بند ہونے کے چند لمحوں بعد ہی ایک زوردار دھماکہ ہوا۔جس سے گھروں کے درودیوار ہل گئے۔ہم سب لوگ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔۔۔

اس دھماکے کیساتھ ہی۔۔۔۔گولہ باری اور شدید فائرنگ کا ایسا طوفان برپا ہوا۔۔۔کہ اگلے ڈیڑھ گھنٹے تک ہمیں اپنی آواز بھی سنائی نہ دی۔بظاہر جنگ کا ماحول ہی لگ رہا تھا۔اور ہم خوف میں ذہنی طور پر تیار تھے کہ دشمن پیش قدمی کر رہا ہوگا۔کسی سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ہم نچلے محلے والے اپنی محدود حکمت عملی میں مصروف تھے کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔۔۔بھاگ سکتے نہیں تھے۔اس لئے یہ کیا کہ گھروں سے نکل کر دائیں بائیں کچھ عارضی پناہ گاہوں میں چھپ کر حالات کا جائزہ لیتے رہے۔۔۔۔۔اور طوفان کے تھمنے کا انتظار کرتے رہے۔۔۔اسی خوفناک صورتحال میں رات کے ڈیڑھ بج گئے۔پھر اچانک گولہ باری کا طوفان بالکل تھم گیااور ہر طرف خاموشی چھا گئی۔۔خاموشی کے اولین لمحے میں ہمارے عقب سے کراہنے کی خوفناک آوز آئی۔تو ہم ڈر گئے۔۔لیکن ہمت کر کے پکارا۔۔۔ کون ہے؟؟ کون ہے؟؟؟''میں اشتیاق ہوں۔مجھے گولی لگی ہے۔مجھے بچاو۔۔۔''اشتیاق عبد الحمید کا نواسہ تھا جو فوج میں تھا اور چھٹی پر تھا۔۔ہم بھاگ کر اشتیاق کی پاس پہنچے۔اسے چادر میں لپیٹا۔اور نیچے گھرلائے۔کپڑے سے اس کا خون بند کیا۔اتنی دیر میں شور بلند ہونے لگا تھا۔ایک اور فوجی نوجوان جو چھٹی پر گھر آیا ہوا تھا۔۔وہاں سے زخمی حالت میں بھاگنے میں کامیاب ہو چکا تھا ورایک محفوظ جگہ پر پہنچ چکا تھا۔۔اشتیاق نے مختصرا بتایا کہ نانا جان کے گھر انڈین کمانڈوز نے سب کو ماردیا ہے۔۔۔۔وہ پھر بیہوشی ہو گیا۔۔بہت شدید زخمی تھا۔سینے میں سوراخ ہو چکا تھا۔اور سردی سے ٹھٹھر رہا تھا۔ہم نے اسے چادروں میں لپیٹااور چند ساتھیوں کے حوالے کیا کہ اسکو خاموشی کیساتھ فائرنگ رینج سے نکالو۔۔۔۔اب کیا کیا جائے۔۔اوپر والے گھر پہنچنا تھا۔ایک دو نوجوان کمر بستہ ہو گئے۔ اور اوپر کی طرف چل پڑے۔۔جب قریب پہنچنے لگے تو پاک فوج کے جوان بھی پہنچ گئے۔انہوں نے آگے جانے سے روکنا چاہا۔۔لیکن ہم نے کہا کہ آپ ہمیں کور فائر دیں۔ہم آگے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم فائر نہیں کر سکتے۔ ہم نے پوزیشن لے لی ہے۔آگے جانے کی اجازت نہیں ہے۔فائر کیا تو واپس نکلنا مشکل ہو جائے گا۔انتہائی ضرورت میں فائر کر کے نیچے ہو جائیں گے۔۔۔آپ اپنے رسک پر جا سکتے ہیں۔ ہمیں خدشہ تھا کہ دشمن آس پاس ہوا تو ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔۔ بہرحال ہمت کر کے کچھ آگے بڑھے۔مکان کے بلکل قریب سے جائزہ لیا۔بلکل خاموشی تھی۔یعنی کسی کے زندہ بچنے کے کوئی آثار نہیں لگ رہے تھے۔۔ ہم نے اپنی ساری قوتوں کو مجتمع کیا۔کچھ اور لوگ بھی پہنچ گئے۔ آنے والی خواتین چیخ و پکار کرنے لگی۔مرد حضرات انکو چپ کرا رہے تھے۔بہرحال ہم تین چار لوگ ایک ساتھ گھر کے اندر داخل ہو گئے۔۔۔ اب یہ لمحات ہمارے اعصاب کی ہمت کا امتحان تھے۔ مکان کے لکڑی کے بڑے بڑے دروازے کھلے ہوئے تھے۔ہمارے پاس ٹارچ تھی۔اندر داخل ہوتے ہی بارود کی بدبو نے ہمارا استقبال کیا۔اوپر سے دشمن یقینا ہمیں مانیٹر کر رہا تھا لیکن وہ خاموش تھا۔ٹارچ جلائی تو سامنے فرش پر ایک لاش پڑی تھی۔اسکی گردن ساتھ نہیں تھی۔پاس میں ایک چارپائی ٹوٹی ہوئی تھی جو اسکی طرف سے کی گء مزاحمت کی عکاسی کر رہی تھی۔ ہم نے غور کیا تو یہ حال ہی میں شادی کے بندھن میں بندھنے والا نوجوان مرتضی تھا۔کچھ کاغذات وغیرہ اسکے سینے پر پڑے ہوئے تھے۔جو اسکی جیب سے نکلے تھے۔۔لیکن اسکی بیوی ہمیں نہ مل سکی۔یہ مکان کا داخلی حصہ تھا جسکو اپنی زبان میں'' پسار'' کہتے ہیں۔وہاں ہمیں دو تین لاشیں اور بھی ملیں۔لیکن پہچان نہ ہو سکی۔جب ہم نے باتیں کرنا شروع کیں اور لاشوں کو پہچاننے کی کوشش کی۔تو نیچے سے ہمیں دو بچیاں زندہ سلامت مل گئیں۔انہیں بال برابر زخم نہیں تھا لیکن وہ شاک میں تھیں۔جب ہم نے ہلایا تو وہ چیخ پڑیں۔انکو اٹھا کر ہم نے نیچے بھیجا وہاں سے ہمیں دوبچے بھی زندہ ملے جو زخمی تھے اور شاک میں تھے۔بعد ازاں ہاسپٹل میں انکی بھی ڈیتھ ہو گئی۔۔۔اب ہم ایک اور کمرے مین داخل ہوئے۔اس کمرے میں دونوں بزرگ تھے۔90 سالہ بابا محمد عالم۔ اور انکے ہم عمر مولوی فیض۔بابا عالم ایک صوفے پر بیٹھے تھے لیکن انکی گردن ساتھ نہیں تھی۔۔۔

ساتھ ہی دوسری کرسی پر سفید ریش مولوی فیض۔۔۔ایسا لگا وہ زندہ سلامت ہیں۔لیکن خاموس تھے۔ہم نے ہلایا تو انکی گردن دوسری طرف ڈھلک گئی۔وہ بھی شہید ہو چکے تھے۔۔۔اب تیسرے کمرے کی طرف بڑھے۔۔وہاں دو معصوم بچے فریاد اور عماد۔۔اپنی والدہ کی گود میں دم توڑ چکے تھے فریاد کا آدھا چہرہ اڑ چکا تھا اور اسکی والدہ کو کئی گولیاں لگی تھی۔وہ تینوں دم توڑ چکے ہوئے تھے۔ ہم کسی شہید کو نہیں اٹھا رہے تھے۔بلکہ زندہ اور زخمیوں کو تلاش کر رہیتھے۔اب آخری کمرے میں داخل ہوئے۔تو ایک خاموش زخمی خاتون نے اچانک چیخ ماری۔ہم پاس پہنچے۔اسکی 8 سالہ بچی اسکے پاس شہید پڑی تھی۔۔ہم نے اس خاتون کو اٹھانے کی کوشش کی۔تو اسنے بتایا کہ میرا پیٹ کٹا ہوا ہے۔مجھے نہ اٹھانا۔دل دہلا دینیوالا منظر تھا۔وہ خاتون حاملہ تھی۔اسکا پیٹ پھاڑا ہوا تھا۔وہ زندہ تھی۔لیکن اس کی انتڑیاں باہر تھیں۔اسکو ایک چادر میں لپیٹا اور کچھ لوگ اسکو لیکر بھاگتے ہوئے فائرنگ رینج سے نکلنے لگے۔ اب زخمی اور زندہ لوگوں کو نکال چکے تھے۔یہ زخمی خاتون۔۔۔زخمی نوجوان یونس کی اہلیہ تھی۔اسکو جب لیکر ہم تھوڑے نیچے پہنچے تو اس نے کہا کہ مجھے آگے نہ لے جاو۔ اپنے اکلوتے بچے سے ملوا دو۔ لیکن زخمی بچے کو ہم پہلے ہی روانہ کر چکے تھے۔یہ خاتون چند لمحے زندہ رہی۔پھر اپنے زخمی خاوند کیساتھ باتیں کرتے کرتے شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئی۔۔۔اب ہم نے جو گنتی کی تھی اسکے مطابق ہمیں مرتضی کی نو بیاہتا بیوی نہیں مل رہی تھی۔ جس کھڑکی سے اشتیاق اور یونس نکل کر بھاگے تھے اور بھاگتے ہوئے زخمی ہوئے تھے اسی کھڑکی سے وہ خاتون بھی نکلی اور چیخ و پکار کرتے جب بھاگی تو بھاگتے ہوئے پہلے اسکو گولیاں ماری گئی۔وہاں نماز کے لئے پتھروں سے ایک جگہ بنائی ہوئی تھی۔وہا ں اسکو ذبح کیا گیا اور دایاں بازو اور گردن لیکر دشمن فرار ہو گیا۔اسکی لاش صبح کے وقت ملی۔ دو بچے ہسپتال پہنچائے گئے۔ایک یونس کا بچہ اور ایک صوبیدار محمد حسین صاحب کا۔۔۔وہ بھی بعد ازاں دم توڑ گئے۔۔یونس اور اشتیاق شدید زخمی تھے۔لیکن بعد ازاں وہ علاج معالجے سے صحتیاب ہو گئے۔۔۔اس گھر میں موجود 18 میں سے دو بچیاں زندہ بچ گئیں اور دو زخمی اشتیاق اور یونس زندہ بچے۔باقی 14افراد شہادت کے رتبے پرفائز ہوئے۔صبح ہوئی۔تو لوگ بے خوف ہو کر اس گھر پہنچے اور دشمن کے سا منے لاشیں نکالیں اور انکو ڈبسی کے مقام تک لائے۔جہاں شہدا کی نماز جنازہ میں ہزاروں لوگ شامل ہوئے۔۔ بعد ازاں شہدا کو ڈبسی کے مقام پر دفن کیا گیا جہاں ایک یادگار بنائی گئی ہے۔شہید ہونیوالوں میں ایک بچی،4بچے،6خواتین اور3مرد شامل تھے۔3 افراد کی گردنین اور بازوں کاٹے گئے۔اس سانحہ کے دوسرے دن ہی کھوئیرٹہ سیکٹر کے نزدیک مقبوضہ نوشہرہ میں مجاہدین نے باوردی اور جدید اسلحہ سے لیس دشمن کی چوکیوں کے اندرداخل ہو کر دشمن پر قیامت ڈھائی اور ان کی گردنین کاٹ کر دشمن سے انتقام لے لیا۔۔اﷲ پاک شہداء کے درجات میں بلندیاں عطا فرمائے۔‘‘ آمین۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555663 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More