اسلامی لبادہ

 گجرات کی ایک نوجوان خاتون عائشہ نے جہیز حراسانی کے بعد خود کشی کرلی ہے ، اس واقعے کو لے کر ہمارے کچھ قارئین نے مشورہ دیا کہ میں بھی مہلوک خاتون کے تعلق سے یا اسکے پس منظر میں لکھوں ، یقینا عائشہ کی موت پورے امت مسلمہ کو پھر ایک مرتبہ سوچنے پر مجبور کررہی ہے کہ کیا مسلمان 1450سال بعد بھی اسلام کو سمجھنے سے قاصر ہیں ؟۔ کیا مسلمان اب بھی پوری طرح سے اسلام پر عمل پیرا نہیں ہیں ؟۔ جس اسلام کا نقشہ رسول پاک، صحابہ ، تابعین اور اولیاء نے مسلمانوں کے نزدیک پیش کیا ہے اس پر اب عمل براہ نام رہ گیا ہے اور اسلام کے نام پر بس دکھاوا ہورہاہے ۔ اسلامی تعلیمات پر عمل اس وجہ سے نہیں کیا جارہاہے کہ یہ اﷲ اور اسکے رسول کے احکامات ہیں بلکہ اسلام کو محض اپنے آپ کو خاص لبادہ میں اوڑھے رکھنے کے لئے استعمال کیاجارہاہے، نمازیں ، عبادتیں ، اعمال سب کچھ دکھاوا ہوچکا ہے اور ہم اس اسلام کے پابند ہیں جو ہمارے لئے آسان ہے اور اس اسلام سے دور ہیں جو اﷲ اور اسکے رسول ﷺ نے ہمارے لئے پیش کیا ہے ۔ اب بات کرتے ہیں عائشہ کی موت کی ، بات کرتے ہیں عائشہ کے موت کی وجہ کی اور بات کرتے ہیں اس سماج کی جس نے بیٹیوں کی شادیوں کو زناء سے زیادہ مشکل بنادیاہے اور بیٹیوں کی شادیوں کو کاروبار بنادیا ہے۔ عائشہ نے خود کشی کی ہے یہ اسلامی نقطۂ نظر سے بالکل غلط ہے ، کیونکہ خودکشی بالکل بھی جائزنہیں ہے اور نہ ہی یہ مسائل کا حل ہے ، باوجود اسکے جب کوکر میں پریشر بڑھتا ہے تو کوکر پھٹ جاتاہے اور اس کوکر کو بنانے والے کو ہم مورد الزام ٹہرا نہیں سکتے بلکہ استعمال کرنے والے کی لاپرواہی کی نشاندہی کی جاتی ہے ، اسی طرح سے عائشہ کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوچکا تھا ، کم عمری ، زندگی کے نشیب و فراز سے لاعلمی اور دینداری میں کمی کی وجہ سے عائشہ نے خود کشی کرلی ، اسکی موت کے بعد مسلم حلقے میں یہ آوازیں گونجنے لگی کہ اب اور بیٹیوں کو خودکشی کرنے یا قتل ہونے نہیں دیا جائیگا ، یہ آواز وقت کا تقاضہ ہے نہ کہ ضمیر کی آواز ہے ،اس کو مسلم معاشرہ اگر ضمیر کی آواز بناتاہے تبھی جاکر مسلمانوں میں بڑی تبدیلی آئیگی ۔لیکن ہم آپ کو بتادیں کہ جو لوگ آج عائشہ کی تائید میں آواز اٹھارہے ہیں ان میں سے 90فی صد لوگ ایسے ہیں جو ڈائرکٹ نہ سہی ان ڈائرکٹ جہیز کے متلاشی یا لالچی ہوتے ہیں ،کبھی یہ لوگ جہیز کو تحفے کا نام دیتے ہیں تو کبھی خوشی سے دیا جانے والا مال کہا جاتا ہے ، کبھی سماج میں عزت کا نام دیاجاتاہے تو کبھی حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی کے جہیز سے مشابہت دی جاتی ہے ،پھر آخر میں یہ کہہ دیا جاتاہے کہ ہم تو لین دین کے سخت خلاف ہیں اگر لڑکی والے کچھ خوشی سے دیں تو حرج نہیں ہے ۔ قسم خدا کی ،ایسا کہنے والے 90 فیصد لوگ ایسے ہی گھر وں کو تلاش کرتے ہیں جو جہیز چاٹنے کے لئے ملے ، جہاں پوچھے بغیر انہیں سب کچھ مل جائے ، پہلے تو انکا مطالبہ کچھ نہیں ہوتا، پھر زبان سے ایک ایک گو ۔ گوبر کا مطالبہ ہونے لگتاہے ، کبھی چھت کی طرف آنکھیں دوڑا کر یہ پوچھا جاتاہے کہ کیا یہی ایک گھر ہے یا اور کہیں جائیداد بھی ہے ، کیا بیٹی کو صرف پڑھایا لکھا یا بھی ہے یا پھر کچھ جائیداد بھی اسکے نام کیاگیاہے ، غرض کہ گو ۔ چاٹنے کے کئی انوکھے راستے بنالیے ہیں اور جو جہیز گو کے برابر ہے اسکی پیکنگ بدل کر اسے اچھے اچھے نام دینے لگے ہیں ۔ مسلم معاشرہ ساری دنیا کے لئے نمونہ بن کر آنا چاہئے تھا ، اسکا ہر پیغام دوسری قوموں اور ذاتوں کے لئے نمونہ بننا چاہئے تھا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے چند ایک باتوں کو ہی اسلام کا حصہ بنالیاہے ۔ جتنی عمریں ہم نے گزارلی ہیں ان عمروں میں تو صحابہ و صحابیات کئی ہزار مربع کلومیٹر تک کے کافروں کو اسلام قبول کروایا تھا لیکن ہم نے اسلامی تعلیمات اور اسلامی طرز عمل سے دوسروں کو اسلام میں لانے کے لئے مجبور کرنا تو دور کی بات ہے خود کافروں و مشرکوں کے طریقوں پر عمل کرنے لگے ہیں ۔ آج ہمارے یہاں ہونے والی شادیاں ہندوؤں اور عیسائیوں سے بدتر ہوچکی ہیں ، ہمارے پاس وہ تمام رسم و رواج آچکے ہیں جو غیروں کے یہاں تھے ، ہمارے پاس سالی کارسم ، جوتوں کی رسم ، دولہے وسالے کی رسم اور نہ جانے ایسی کتنی ہی رسمیں ہیں جس کا تعلق نہ اسلام سے ہے نہ ہی مہذب سماج سے ۔ ہم نے مسجد میں نکاح کرنا سنت یا افضل بنالیاہے ، ہم نے ولیمہ کھانا مسنون سنت کے طورپر اپنالیا ہے ، لیکن نکاح کے بعد کیک کاٹنا کونسی سنت ہے ، ڈی جے پر تھرکنا یا طوائفوں کے کوٹھوں میں بیٹھ کر ناچ دیکھنے کی طرح گانے والوں اور دولہا و دلہن کے گھروالوں کو دیکھنا کونسی سنت ہے ؟۔ حال ہی میں سوشیل میڈیا میں ایک فتویٰ تیزی کے ساتھ مقبول ہواکہ کانپور کے علماء نے یہ فیصلہ کیاہے کہ جہیز لینے والے ، ڈی جے منعقد کرنے والوں گھروں کے نکاح نہیں پڑھائینگے ، یقینا یہ اچھی پہل ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جہیز لینے والے کھلے عام جہیز لئے جانے کی بات جماعت میں کرینگے اور کیا ڈی جے علماء کی موجودگی میں بجایا جائیگا ، ؟ ۔ نہیں یہ کام علماء کی غیر موجود گی میں ہوگا ، ماہر تعلیم ، ماہر دینیا ت ، ماہر علوم الشریعہ کے گھروں میں بھی یہی حال ہے ، بس ہم نے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور اسلام ہم سے کوسوں دور ہے ، غیر آج اسلام کی سادگی کو دیکھ کر اسلام میں آرہے ہیں اور ہم اسلام سے خارج ہورہے ہیں ۔ ان حالات کی تبدیلی کے لئے فضائل ودلائل کو محدود کھڑے ہوکر کہنے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ فکر میں تبدیلی لانی ہوگی اسکے لئے ایک مہم چلانی ہوگی اور یہ مہم گھروں میں بیٹھ کرنہیں بلکہ گھروں سے نکل کر انجام دینے سے ممکن ہے ورنہ ہر دن خود کشی کرنے والی عائشاؤں کا حساب رکھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائیگا۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197694 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.