علامہ اقبال کا شعر ہے کہ " مسجد تو بنالی پل بھر میں۔۔
ایماں کی حرارت والوں نے "بالکل اس شعر کے برابر ہمارے یہاں تنظیموں ،
مسجدوں اور مدرسوں کی کوئی کمی نہیں ہے اور اگر کمی ہے تو صرف کام
کی۔مسجدیں عالیشان ہیں،سہولیات سے بھرپورہیں،قیمتی قالین اور ہوادارمصلے
ہیں،جہاں پر دل کھول کر بغیر کسی تکلیف کے نمازیں ادا کرسکتے ہیں،مدرسے
عالیشان ہیں،سینکڑوںایکر زمینوں پر پھیلے ہوئے ہیں،اُمت مسلمہ کی بڑی طاقت
ان مدرسوں کو ترقی دینے اور پھیلانے کیلئے لگی ہوئی ہے،کئی لوگ جانی ومالی
قربانیاں دینے کیلئے بھی تیارہیں،لیکن جو داخلے ان مدرسوںمیں لئے جاسکتے
ہیں وہ داخلے نہیں ہوپارہے ہیںجس کی وجہ سے مدرسے بھی ایک طرح سے غیر
آبادہیں۔اب بات کرتے ہیں تنظیموںکی،اُمت مسلمہ کے تنظیموںکی بھی کوئی کمی
نہیںاور نہ ہی تنظیمیں بنانے اورنہ ہی عہدے حاصل کرنے والوںکی کمی ہے ،کمی
ہے تو صرف فلاحی وسماجی کام انجام دینےوالوںکی ہے۔ہر دن کاجائزہ لیاجائے تو
اُمت مسلمہ اتنے مسائل کا شکار ہوچکی ہے کہ ہمارے دن ورات بھی خدمت خلق
کرنے نکلے گیں تو کم پڑ جائینگے۔ہر طرف نفسی نفسی کا عالم ہے،ہر طرف حالات
پریشان کن ہیں،کہیں بیماروںکی آہ وزاری ہےتو کہیںمقروض لوگوںکی بھیڑ جمع
ہے،کہیں بچے تعلیم حاصل کرنے کیلئے پریشان ہیںتو کہیں بچیوںکی شادیوںکیلئے
جہیز نہیں جم پارہاہے،غرض کہ اس وقت ریاست خودغرضی و مفادپرستی کے عالم میں
ہے۔مفاد پرستی بھی اس قدر خطرناک ہوچکی ہے کہ نہ مسجدوں کے پیسے بخش رہے
ہیںاور نہ ہی مدرسوںکے چندوں سے نظریں ہٹ رہی ہیں۔تنظیموں کے نام پر بھی
کچھ لوگ عام لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں۔کچھ تنظیمیں ایسی بھی ہیں جو اُمت
مسلمہ کی رہنمائی و رہبری کے دعویدار تو ہیں،غریبوں ومسکینوںکی مدد کیلئے
بات تو کرتے ہیں،البتہ جب مددکرنے کاموقع آتاہے تو یہ لوگ دوردور تک
دکھائی نہیں دیتے۔جب مریض ان کے دروازوں پر جاتے ہیںتو جانچ،تحقیق اور
تصدیق کے نا م پر مریضوںکا جنازہ نکالاجاتاہے تو کچھ لوگ اُمت کے مال کا
استعمال کرتے ہوئے اپنی ضروریات کی تکمیل کو لیکر میدان میں اترے ہوئے
ہیں۔آج ہمیں بہت بڑی بڑی تنظیمیں بنانے کی ضرورت نہیں بلکہ چھوٹی تنظیمیں
ہی بڑا کام کرسکتی ہیں،چھوٹے چھوٹے گروہ ہی لوگوںکیلئے مسیحا بن سکتے
ہیں۔شیموگہ ضلع کے ایک شخص ایسے ہیں جو محض پانچ افراد کو لیکر سالانہ 500
کے قریب دل کے مریضوں کا علاج کرواتے ہیںوہ بھی صرف سرکاری اسکیموںکا
استعمال کرتے ہوئے،100 کے قریب افراد کا ڈیالیسس کرواتے ہیں وہ بھی محض
اپنے ہی چند خاص رفقاء کی مدد سے۔ہمیں بڑے کام کرنے کیلئے بہت بڑے گروہ
انجام دینے کی ضرورت نہیں ہے،بڑے کام بھی چھوٹے پیمانے پر انجام دے سکتے
ہیں۔ہمارے درمیان کچھ ایسی تنظیمیں بھی ہیں جن کا کوئی مقصد نہیں ہوے،اُن
کا وجود ہے لیکن صرف کاغذی سطح پر،کچھ تنظیمیں ہیں جو چاہیں تو بہت کام
کرسکتے ہیںلیکن وہ نہ کسی سے مشور ہ لیتی ہیں اور نہ ہی مشورہ دینے والوں
کو شامل کرتی ہیں۔اجتماعی ختنہ کرنا،اجتماعی شادیاں کرنا، اسکولوں کے آغاز
میں چند نوٹ بک تقسیم کرنا،شادیوںکے موقع پر قرآن و مصلے دینایہ خدمت خلق
نہیں ہے،اگر ہے بھی تو آج اُمت کو اس کی ضرورت نہیں ہے،ہمارے درمیان ہی
مسلمانوںکے کئی کمیٹیاں ہیں جو مسلمانوں کو تعلیمی،اقتصادی ومعاشی مسائل سے
باہر نکال سکتے ہیں۔مثال کے طور پر سرکاری مسلم ایمپلائز اسوسیشن ہے،اُن کے
پاس تعلیم یافتہ افرادہی ہیںوہ دیکھ رہے ہیںکہ کس طرح سے سرکاری
ملازمتوںمیں مسلمانوںکی تعدادکم ہے۔اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے سوائے
رونارویاجانا اورافسوس ظاہرکرنا اور کوئی کام نہیں ہورہاہے،اگرمسلم سر کاری
ملازمین کی تنظیم منصوبہ بندی کرتے ہوئے کام شروع کرے تو وہ محلہ وار سطح
پر نوجوانوںکو کرئیر گائنڈنس،تعلیمی رہنمائی کرسکتے ہیں،وہ خود ماہرین ہونے
کے علاوہ دوسرے ماہرین کا بھی استعمال کرسکتے ہیں،لیکن ایسے کام ہی نہیں
ہورہے ہیں۔کسی بھی کام کو انجام دینے کیلئے سب سے پہلے ارادے کی ضرورت ہوتی
ہے،اگر ارادی مضبوط ہوجائے تو وسائل خود بخود نکل آتے ہیں،سمجھ لیجئے کہ
اگر کسی شہرمیں50 مسلم سرکاری ملازم ہے اور وہ ہرمہینے ایک ایک ہزار روپئے
کا چندہ اس طرح کے کاموںکیلئے مختص کرتے ہیںتو50 ہزار روپئے کا فنڈ سامنے
آسکتاہے۔اس50 ہزار روپیوںمیں نہ صرف نوجوانوں کو موٹیویشن کیلئے ماہرین
کااستعمال کیاجاسکتاہے بلکہ جو فیس امتحان کیلئے لگتی ہےتو وہ ضرورتمند
امیدواروںکیلئے خرچ کی جاسکتی ہے،اس طرح سے بہت سے کام ہم اپنے سطح پر
کرسکتے ہیں،لیکن اس کیلئے ارادے کی ضرورت ہے،جو ارادہ ہوجائے تو رہبری کے
راستے نکل آتے ہیںاور جب رہبری صحیح ہوجائے تو وسائل بھی نکل آتے ہیں۔اس
لئے تنظیمیں بنانے کے ساتھ ساتھ تنظیموں کا استعمال کرنے کا بھی جذبہ
ہوناچاہیے۔
|