وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

 ہر سال 8 فروری کا دن خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے-خواتین کے عالمی دن کا آغاز امریکہ میں ہونے والے خواتین مارچ سے ہوا جب فروری 1908 کو کئی ہزار خواتین اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر نکل آئیں-یہ احتجاج ایک سال تک جاری رہا اور خواتین اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرتی رہیں-اسی وجہ سے 28 فروری 1909 کو امریکہ میں پہلی مرتبہ خواتین کا عالمی دن منایا گیا-

فروری 1908 میں امریکا کی ایک گارمنٹس فیکٹری کی خواتین نے کم تنخواہ، کام کے اوقات اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا- اس مظاہرہ کے دوران احتجاج میں شریک خواتین پر پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اور پتھر برسائے گئے۔ اس سانحہ کی مذمت کے طور پر 28فروری 1909ء کو سوشل پارٹی کی جانب سے ایک قرارداد منظور کی گئی، جس کے بعد امریکا میں پہلی مرتبہ 28فروری کو ’خواتین کا دن‘ منایا گیا۔

اس کے بعد 19مارچ کو آسٹریلیا، ڈنمارک، سوئزرلینڈ اور جرمنی میں بھی خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔اس دن لاکھوں خواتین نے ملازمت کے حصول، ووٹ کا حق،امتیازی سلوک اور تھوڑی اجرت موصول ہونے کے خلاف نکالی گئی ریلیوں میں شرکت کی۔

1911ء کو تاریخ میں پہلی مرتبہ 8 مارچ کو عالمی یوم خواتین منانے کی مشترکہ طور پر ابتدا ہوئی اور دوسال بعد 1913ء میں خواتین کے اس مخصوص عالمی دن کے لیے 8 مارچ کی تاریخ مختص کی گئی-
اس وقت سے اب تک اس دن کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے- کئی برس پہلے تک تو معلوم ہی نہ تھا کہ خواتین کو روٹی، کپڑا، مکان اور عزت کے علاوہ بھی کسی بنیادی حق کی ضرورت ہے لیکن گزشتہ سالوں سے شروع ہونے والا عورت مارچ نے پاکستان میں کافی توجہ حاصل کر لی ہے-
یہ عورت مارچ خاصا مقبول ہوا اور اب ہر سال 8 مارچ کو خواتین کا کچھ ٹولا ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے نکل کھڑا ہوتا ہے اور اپنے مخصوص نعروں سے سب لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے- ان عورتوں کے ساتھ ان کا ساتھ دینے کے لئے مرد حضرات بھی شانہ بشانہ موجود ہوتے ہیں-

عورت کی آزادی کی حمایتی یہ خواتین پہلے مردوں کے شانہ بشانہ چلنا چاہتی تھیں مگر اب وہ ان کے شانوں پہ ہی سوار ہو کر ان سے آگے نکلنا چاہتی ہیں-

یہ عورت مارچ کرنے والی خواتین جب سڑکوں پہ نکلتی ہیں تو کیمرے لے کے پھرنے والے بھی مرد ہوتے ہیں، رپورٹنگ کرنے والے بھی مرد، ان کے پیریڈ کا ڈھول بجانے والے بھی مرد ہوتے ہیں اور رقص کا نظارہ کرنے والے بھی مرد، ان کے نخرے اٹھانے والے بھی مرد ہوتے ہیں اور مذاق اڑانے والے بھی مرد-آزادی آزادی کا شور مچانے والی کپڑے خریدتی بھی مردوں سے ہیں، سلواتی بھی مردوں سے ہیں، ان کا ڈرائیور بھی مرد ہوتا ہے اور چوکیدار بھی مرد-مارچ کے لیے انتظامات بھی مردوں کے ہی حوالے ہوتے ہیں اس لیے کیونکہ یہ معاشرہ مردوں کا ہے-اس لیے کہ مرد حاکم ہے، اس لیے کہ مرد ہی ان کے کاموں کا بوجھ اٹھانے والا ہے- عورتوں کی اس اودھم کی خبریں لگانے والا بھی مرد ہی ہوتا ہے اور خبریں چلانے والا بھی مرد-ان عورتوں کو خبر بنانے والا بھی مرد ہوتا ہے خبریں پہنچانے والا بھی مرد-
مرد اور عورت گاڑی کے دو پہیے ہیں-اگر ایک پہیہ نہ ہو تو گاڑی نہیں چلتی، ایک پہیہ ٹیڑھا ہو تب بھی گاڑی نہیں چلتی اور ایک پہیہ اونچا یا نیچا ہو تب بھی گاڑی نہیں چلتی-خاندانی نظام بھی ایسی ہی ایک گاڑی ہے جس میں ایک پہیے کا منہ مشرق کہ طرف اور دوسرے کا مغرب کی طرف ہو تب بھی یہ گاڑی نہ چل سکے گی-عورت مارچ گھریلو نظام، عائلی زندگی اور اسلامی معاشرے کو تباہ کرنے کی سوچی سمجھی سازش ہے-اس سازش میں بیرونی عناصر، لبرل ازم کے دلدادہ، این جی اوز وغیرہ برابر کے حصے دار ہیں جو سمجھتے ہیں

''اپنا کھانا خود گرم کرو، میرا جسم میری مرضی'' کے نعرے لگا کر خاندانی نظام کو درہم برہم کر دیں گے اور ایک مادر پدر آزاد معاشرے کا قیام ممکن ہو سکے گا مگر یہ ان کی بھول ہے جب تک اس معاشرے میں اسلامی عقائد زندہ ہیں اور اسلامی شعائر کی پیروی کرنے والے لوگ موجود ہیں ان کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا-
اسلام نے مسلم عورتوں کے حقوق واضح کیے ہیں
''ماں کے قدموں تلے جنت ہے''

ماں کا رتبہ اور مقام نہایت اعلی اور ارفع ہے-بہن کی حرمت اور تقدس کی وضاحت کی گئی ہے-بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے سے بچایا ہے اور بیوی کو دوسری شادی کا حق دے کر ستی ہونے سے بچایا ہے-عورت کو گھر کی ملکہ کہا گیا اور اسے گھروں میں ٹھہرے رہنے کا حکم دیا تاکہ اس کی عزت محفوظ رہے وہ ستائی نہ جائے-

اسلامی عقائد کو ماننے والے کبھی بھی ان این جی اوز اور لبرل خواتین کا ساتھ نہیں دیں گے-یہ ہمارے دین اور ہمارے اسلامی شعائر سے جنگ ہے- ان خواتین کے ہاتھوں میں اٹھائے گئے بینر'' ہمیں آزادی چاہیے اور حقوق چاہیں'' جیسے نعروں سے لے کر ''اپنا کھانا خود گرم کرو'' اور ''میرا جسم میری مرضی'' میں بدل گئے پہلے جو فقط حقوق اور خودمختاری کی بات کرتی تھیں- آج اپنے فرائض سے بھی منہ موڑنے کا ارادہ رکھتی ہیں اور صرف خود ہی نہیں بلکہ دوسروں کو بھی تبلیغ کرتی نظر آتی ہیں-

شادی
یہ کہتی ہیں کہ شادی، مرد اور بچوں کی ذمہ داری اٹھانے کا نام عورت نہیں بلکہ اکیلی عورتیں یہ معاشرہ بدل سکتی ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے-اسلام نے عورت کو پردے میں قید نہیں کیا بلکہ پردے میں رہتے ہوئے کام کرنے کی بھرپور اجازت دی ہے-اس نے عورت کے محرم کو پابند کیا ہے کہ وہ دن بھر باہر محنت مزدوری کرے لیکن لیکن اپنی بیوی، ماں اور بہن کو اپنے حق حلال کی کمائی سے خود کما کر کھلائے- محنت مزدوری کر کے پیسہ کمانا عورت کی ذمہ داری نہیں لیکن جو عورت اپنی خوشی کی خاطر، گھر کی معاشی خوشحالی کی خاطر،اپنے گھر کے اندر رہتے ہوئے یا گھر سے باہر کام کرتی ہے اور پیسہ کماتی ہے تو یہ ناجائز نہیں - ہر عورت اپنے فن اور ہنر کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں احسن طور پر پر نبھا سکتی ہے اور یہ آج سے نہیں برسوں سے ہوتا چلا آرہا ہے- اسکولوں میں تدریس کا کام سرانجام دینے والی اساتذہ کرام سے لے کر ہسپتالوں میں کام کرتی ڈاکٹر تک، کپڑے سینے والی خاتون سے لے کر گھر میں کھانا پکا کر بیچنے والی خاتون تک عورت نے کبھی فارغ بیٹھنا نہیں سیکھا- فارغ وقت کو بہتر طور پر استعمال کرنا وہ باخوبی جانتی ہے-

یہ تمام لبرل خواتین جو میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگاتی ہیں اور ان کے مطابق وقت آ گیا ہے کہ عورت اکیلی حکومت کرے تو ان کے لیے سب سے بہترین جواب یہی ہے کہ اگر نخرے اٹھانے والا ہی نہ ہو گا تو نخرے کرنے کا کیا فائدہ؟

اگر رعایا ہی نہ ہوگی تو حاکم بننے کا کیا فائدہ؟

ان لبرل خواتین کی باتوں پر عمل کرنے والی ایک دن اکیلی رہ جائیں گی اور خاندانی نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے گا لیکن اسلامی شریعت کی پاسداری کرنے والی خواتین ہمیشہ اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کریں گی اور اس پر عمل جاری و ساری رکھیں گی- شادی نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت ہے اور اﷲ تعالی نے مرد کو حاکم مقرر کیا ہے- وہ اپنی رعیت کا جواب دہ ہے لہذا نعرے لگانے اور بینرز پلے کارڈز اٹھانے سے نہ تو دین بدلے گا نہ ہی حقیقت تبدیل ہو گی-

اﷲ تعالیٰ ہمیں مغربی دنیا کے اس فساد سے محفوظ رکھے جہاں مادر پدر آزاد معاشرے میں تمام اخلاقی اقدار کا خاتمہ ہوچکا ہے-وہ اپنے نوجوانوں کو شادی کرنے اور بچے پیدا کرنے کا درس دیتے نظر آتے ہیں تاکہ نئی نسل پیدا ہوسکے اور ملک کی باگ دوڑ سنبھال سکے مگر اس کے برعکس پاکستان جیسے اسلامی ملک میں خاندانی نظام کو درہم برہم کرنے کے لیے چند سالوں سے اس خفیہ سازش کا آغاز کیا گیا ہے تاکہ نوجوان جوڑے شادی سے متنفر ہو کر اکیلے رہنے کو ترجیح دیں اور اس طرح مشترکہ خاندانی نظام کا خاتمہ ہو سکے لیکن وہ یہ بھول چکے ہیں کہ جب تک ہماری اسلامی اقدار زندہ ہیں ان روایات اور اقدار کو زندہ رکھنے کی خاطر خاندانی نظام کبھی ٹوٹ نہ پائے گا-اﷲ تعالی ہمیں ان سازشوں سے محفوظ رکھے اور تمام عورتوں کو اپنے گھروں میں آباد رکھے آمین ثم آمین
 

Sarah Omer
About the Author: Sarah Omer Read More Articles by Sarah Omer: 15 Articles with 10992 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.