موم بتی مافیا کے گندے انڈے لبرل اور ہماری خاموشی

اسی معاشرے میں اگر کوئی ہمیں گالی دے غلط بات کرے یا پھر ہمارے والدین پر بات کرے تو ہمیں غصہ آتا ہے لیکن ہمارے سامنے آٹھ مارچ کو مخصوص شہروں میں مخصوص جگہوں پر کیا ہوتا رہا اور ہم سب خاموش رہے یہ کس چیز کی نشاندہی کررہا ہے ' کیا ہماری ترجیحات تبدیل ہو کر رہ گئی ہیں یا ہمارے ایمان کمزور ہیں یا ہم لوگوں میں ایمان نہیں.کچھ لوگوں کو آزادی اور حق چاہئیے. کونسا حق اور کونس آزادی . کیا اسلام نے عورتوں کو حقوق نہیں دئیے ' کیا قرآن پاک کی صرف ایک سورہ نساء ان تمام حقوق کی نشاندہی نہیں کرتا جس کیلئے یہ لوگ اواز اٹھا رہے ہیں.ٹھیک ہے کہ اس معاشرے میں بہن کو وراثت میں اس کا حق نہیں دیا جاتا ' تعلیم کے مواقع فراہم نہیں کئے جاتے ' محفوظ اور باعزت روزگار کے مواقع خواتین کو ریاست فراہم نہیں کرتی تو اس میں غلطی اسلام کی تو نہیں ' ہماری انفرادی اور ریاستی غلطیوں کی سزا دین اسلام کو تو نہیں دی جاسکتی نہ ہی ہم اپنے انفرادی اور ریاستی اداروں کی غلطیوں پر دین اسلام کو مورد الزام ٹھہراسکتے ہیں.

پشتو زبان میں زیادہ استعمال ہونے والا ایک جملہ ہے چہ " دا غلو نہ بہ زان بچ ساتے" یعنی بول و براز سے اپنے آپ کو بچانا ہے یہ جملہ عام طور پر ان جگہوں پر بولا جاتا ہے جہاں پر لوگ گندگی میں لتھڑے ہوتے ہیں اور شریف آدمی کو بتایا جاتا ہے کہ اپنے آپ کو اس گندگی سے بچالینا 'اور اگر بول براز پڑا رہے تو کسی کو اعتراض نہیں ہوتا ' کیونکہ کچھ وقت کی گندے بدبو کے بعد اس گندگی نے مٹی ہو جانا ہے جو کہ قانون فطرت ہے.. لیکن اگر یہی بول براز چھینٹیں اٹھا کر کسی کو گندا کرنے کی کوشش کرے تو پھر اس گندگی پر یا تو پانی ڈالا جاتا ہے تاکہ گندگی ختم ہو ' یا باہر سے زیادہ مٹی اٹھا کر ڈالنی پڑتی ہے یا پھر گہرا گڑھا کھود کر گند کو دفن کرنا ہی اس کا علاج ہے-۔

اتنے لمبا تمہیدو بیانیہ آٹھ مارچ کے حوالے سے پاکستان کے مخصوص علاقوں میں عورتوں کی آزادی کے نام پر اٹھنے والے تعفن زدہ مخصوص سول سوسائٹیوں کے بارے میں بات کرنا ہے جن کی اپنی اوقات تو کچھ نہیں لیکن انہیں پیسوں کے بل بوتے پر بازاروں میں کھڑا کرکے معاشرے میں فحاشی و عریانی کو فروغ دیا جارہا ہے -اس ملک میں ہر ایک کو اپنا مفاد عزیز ہے ہر کوئی اپنے مفاد کیلئے اٹھتا ہے کیا کوئی " مدینے کی ریاست " کے دعویدار وں کے سامنے یہ اواز اٹھا سکتا ہے کہ یہ کیسا اسلامیہ جمہوریہ پاکستان ہے ' جہاں پر اللہ تعالی سے لیکر رحمت العالمین اور امت کی مائوں پر اوازیں اٹھتی ہیں لیکن سب خاموش ہیں - یہ کیسی خاموشی ہے ' مفادات کی خاموشی ہے ' بے غیرتی یا یے حسی ہے کہ ہم اپنے لئے ' اپنے والدین کیلئے ' اپنے مفاد کیلئے ' اپنی اولاد کیلئے تو اٹھ کھڑے ہوتے ہیں آوازیں اٹھاتے ہیں ' احتجاج کرتے ہیں لیکن کچھ مخصوص لوگوں پر خاموش ہیں جو اس ملک میں فحاشی و عریانی کو بڑھاوا دینے کیساتھ ساتھ شعائر اسلام کا بھی مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں.

کیا مملکت اسلامیہ پاکستان کے سول سوسائٹی کے لوگوں کو صرف شعائر اسلام ' پیغمبر اور امہات المومنین کی گستاخیوں کیلئے فنڈنگ کی جاتی یں اور انہیں فنڈنگ کرنے والے کون لوگ ہیں انہیں پروموٹ کرنے والے کون لوگ ہیں انہیں سپورٹ اور تحفظ فراہم کرنے والے کون لوگ ہیں- یہ وہ سوال ہیں جس کے بارے میں جاننا ہر ایک کا حق ہے ہر شہری کا بنیادی حق ' کہ پتہ لگایا جاسکے کہ کون اس ملک میں عورت کی آزادی کے نام پر فحاشی پھیلانا چاہتے ہیںاور کون لوگ ان کے کارندے ہیں.

آٹھ مار چ کو مخصوص " موم بتی مافیا " کے پروردہ گندے انڈوں نے جس طرح کے نعرے لگائے کیاکوئی بھی ذی ہوش انسان اسے برداشت کرسکتا ہے ' اللہ تعالی کی ذات سے لیکر پیغمبر ' امہات المومنین اور اولیاء کرام کا مذاق اڑایا گیالیکن خاموشی ہے ' کیا اسلام کیلئے کھڑا ہونا صرف مذہبی جماعتوں سے وابستہ افراد کا کام ہے ' سیاسی پارٹیوں کو تو اپنے امفادات ہیں ' اب تو مذہبی پارٹیوں کے بھی اپنے مفادات ہیں لیکن مفادات کا یہ کھیل ہمیں کہاں پر لے کر جارہا ہے -

کیا بحیثیت مسلمان ہمارا یہ عقیدہ نہیں ایک روز سب نے مرنا ہے اور اس اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے جو ہمیشہ رہنے والی ذات ہے.کوئی بھی انسان اپنے اعمال پر رب تعاالی کے سامنے کھڑا نہیں ہوسکتا اوریہ اس رب تعالی جو کہ رحمان ہے کا فضل ہوگا کہ انسانوں پر رحم فرمائے- لیکن کیا اس دن اگر یہ ارشاد ہو کہ چلوصرف اس بات کا جواب و حساب دو کہ اے انسان تیرے سامنے اسلام ' میرے حبیب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ' امہات المومنین پر آوازیں اٹھتی رہی اورتم لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہلواتے ہوئے بھی خاموش رہے تم لوگوں نے اپنی بساط کے مطابق آواز بھی نہیں اٹھائی . تو اس وقت دربار الہی میں ہمارے پاس کیاجواب ہوگا-اس کا جواب ہم سب کو سوچنے کی ضرورت ہے- کیونکہ مرنا تو سب نے ہے اور حساب سب نے دینا ہے کوئی اس دن کو مانے یا نہ مانے.

اسی معاشرے میں اگر کوئی ہمیں گالی دے غلط بات کرے یا پھر ہمارے والدین پر بات کرے تو ہمیں غصہ آتا ہے لیکن ہمارے سامنے آٹھ مارچ کو مخصوص شہروں میں مخصوص جگہوں پر کیا ہوتا رہا اور ہم سب خاموش رہے یہ کس چیز کی نشاندہی کررہا ہے ' کیا ہماری ترجیحات تبدیل ہو کر رہ گئی ہیں یا ہمارے ایمان کمزور ہیں یا ہم لوگوں میں ایمان نہیں.کچھ لوگوں کو آزادی اور حق چاہئیے. کونسا حق اور کونس آزادی . کیا اسلام نے عورتوں کو حقوق نہیں دئیے ' کیا قرآن پاک کی صرف ایک سورہ نساء ان تمام حقوق کی نشاندہی نہیں کرتا جس کیلئے یہ لوگ اواز اٹھا رہے ہیں.ٹھیک ہے کہ اس معاشرے میں بہن کو وراثت میں اس کا حق نہیں دیا جاتا ' تعلیم کے مواقع فراہم نہیں کئے جاتے ' محفوظ اور باعزت روزگار کے مواقع خواتین کو ریاست فراہم نہیں کرتی تو اس میں غلطی اسلام کی تو نہیں ' ہماری انفرادی اور ریاستی غلطیوں کی سزا دین اسلام کو تو نہیں دی جاسکتی نہ ہی ہم اپنے انفرادی اور ریاستی اداروں کی غلطیوں پر دین اسلام کو مورد الزام ٹھہراسکتے ہیں.

سوشل میڈیا پر وائرل ہونیوالی کچھ کلپ عورتوں کی آزادی کے نام پر اٹھنے والے گندے انڈوں کے دیکھنے کو ملے ہیں آوازیں اٹھانے والوں کیلئے ایک سیاسی و مذہبی لیڈر کے بیانات ہی کافی ہے جو کچھ یوں ہیں کہ .
ایک بڑے نواب جو کہ گورنر بھی رہے کے ہا ں اس وقت کے صدر اور ان کی اہلیہ پہنچے ملاقات کے بعد صدر کی اہلیہ نے اس بات کا نواب کی بیگم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو بتایا گیا کہ ان کی بیگم پردہ کرتی ہیں تو صدر کی بیگم نے کہہ دیا کہ میں بھی عورت ہوں ' توجواب میں اس سیاسی شخصیت جو کہ اب مرحوم ہو چکے ہیں کہ جی ہاں آپ بھی عورت ہیں لیکن ان کی اہلیہ ان جیسی عورتوں سے ہی پردہ کرتی ہیں...

ایک دوسرا واقعہ بھی اسی طرح کا ہے کہ پارلیمنٹ میں ایک عورت جو کہ ممبر پارلیمنٹ تھی نے ایک مذہبی و سیاسی شخصیت سے اس بات پر اعتراض کیا کہ اسلام میں مردوں کو چار بیویوں کے حقوق حاصل ہے لیکن عورتوں کیلئے چارشادیوں کے نہیں ' جس کے جواب میں متعلقہ شخصیت نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ کیلئے آزادی ہے آپ چار شادیاں کرسکتی ہیں یہ پابندیاں صرف اسلام ماننے والوں کیلئے ہیں .

موجودہ حالات و واقعات میں آزادی کیلئے ناچ کر ڈانس کرنے والی ان تمام لبرل ان کے گندے انڈوں کیلئے یہی ایک جواب ہے کہ انہیں آزادی ہے جو بھی وہ کچھ کرے ان سے پوچھنے والا تو شائد اب تو کوئی اس ملک میں نظر نہیں آرہا لیکن ایک بات جو سمجھنے کی ہے کہ خواتین کو مکمل حقوق اسلام نے دئیے ہیں لیکن ان جیسی عورتوں کے حقوق جو وہ مانگتی ہیں اپنی ضروریات وہ اپنے جیسوں سے پوری کرسکتی ہیں-ان پر کوئی پابندی نہیں لیکن ہاں اتنی پابندی ضروری ہے کہ اپنا یہ گند" اپنے گھروں تک " محدود رکھیں نہ کہ گلیوں اور سڑکوں میں لائیں ورنہ پھر " گند پر مٹی ڈالی جاتی ہیں یا پھر انہیں گڑھے میں دفن کیا جاتا ہے جو اس کا ایک ہی واحد علاج ہے .١
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 588 Articles with 418381 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More