تحریر: ثوبیہ اجمل، لاہور
آج کل سوشل میڈیا کے دور میں بہت ساری ایپس کا استعمال روز مرہ کا معمول بن
چکا ہے۔ ہم ان ایپس سے بہت سا نالج بھی حاصل کر سکتے ہیں اور ان کا مثبت
استعمال بھی کر سکتے ہیں۔ مگر زیادہ تر لوگ اس پر اپنا وقت ہی برباد کرتے
ہیں۔ ایسی کم ہی چیزیں شیئر کرتے ہیں جن سے ہمیں کوئی دینی یا دنیاوی
معلومات مل سکے۔
یوں تو بہت ساری ایپس کا استعمال کیا جا رہا ہے لیکن بہت ہی کم عرصے میں جو
ایپ سب سے مقبول ہوئی وہ ٹک ٹاک ہے۔ویسے تو میں ٹک ٹاک کے خلاف نہیں ہوں
مگر جس طرح سے اس کااستعمال کیا جارہا یے وہ بہت ہی غلط ہے۔ کچھ لوگ لائیکس
اور فالورز بڑھانے کے چکر میں حد سے ہی گزر جاتے ہیں اور ایسی نازیبا وڈیوز
بناتے ہیں کہ جن کو دیکھ کر بحیثیت مسلمان شرم محسوس ہوتی ہے۔ ہونا تو یہ
چاہیے تھا کہ اس بیس سیکنڈز کی وڈیو میں کوئی معلوماتی بات ہوتی مگر اس کے
برعکس جھوٹ اور بے حیاء کو ہی فروغ دیا جا رہا ہے۔
کچھ لوگ منفرد وڈیوز بنانے کے چکر میں اپنی جان تک گنوا بیٹھتے ہیں۔ ناچ
گانا اور بے شرمی کا ایک طوفان ہے جو ہمیں ٹک ٹاک پر نظر آتا ہے۔ ٹک ٹاک کے
ذریعے لوگ کوئی اپنا ٹیلنٹ بھی دیکھا سکتے تھے۔ لوگ بھی ان بے ہودہ وڈیوز
کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اوران کے فالورز کی تعداد برھتی چلی جا رہی ہے۔
اس کے برعکس اگر کوئی اچھی پوسٹ کرے تواس کے لائکس اور فالورز چند گنتی کے
ہی ہوتے ہیں۔
ٹک ٹاک پر ہمیں کم ہی کوئی مثبت بات سننے کو ملتی ہے جبکہ بڑی بڑی آنٹیاں
بے سروپا باتیں کرتی ضرور نظر آتی ہیں جن کی باتیں شاید گھر والے بھی سننا
پسندنہ کرتے ہوں۔ ہماری خواتین جن کے لیے اسلام نے پردے میں رہنے کا حکم
دیا ہے آج بن سنور کر اور تنگ لباس پہن کر فحاشی اور بے حیاء کا سامان بنی
ہوئی ہیں۔ اس ضمن میں ماں باپ کا اہم کردار ہے کے وہ اپنی اولاد پر نظر
رکھیں کہ وہ کیا کر رہیں۔ ہماری نوجوانوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے
ورنہ ہماری آنے والی نسلیں اس کو نسل در نسل بھگتی رہیں گی۔
|