تحریر: عائشہ یاسین، کراچی
موجودہ دور نفسا نفسی کا دور ہے۔ تغیر اور مسلسل بدلتے حالات انسان کے تنفس
پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں جس سے معاشی و معاشرتی مسائل کا دباؤ نفسیات
پر غالب ہے۔ معاشرے میں بڑھتے ہوئے انتشار اور عدم استحکام نے خاندانی نظام
کو درہم برہم کیا وہاں رشتوں کا تقدس بھی پامال ہوا۔ بدلتی دنیا کے بدلتے
رنگ نے ماضی کے خیالات و اطوار کونہ صرف مسترد کیا بلکہ ایک ایسی سوچ کی
راہ استوار کرنے کی کوشش کی جہاں میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگا یا گیا
اور اس نعرے کو عورت کے ماتھے کا ٹیکہ بنا کر نا صرف اس کو اپنے حقوق سے بے
دخل کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ اس کے مقدس وجود کو پلید کرنے کی جتن بھی
جاری رہی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرے میں بسنے والے مہذب مردوں نے اس
نعرے کو گالی بنا کر عورت کی تذلیل کی اور جو مسائل زیر بحث آنے تھے وہ
یکدم معدوم ہوگئے اور پاکستانی قوم نئے اور منفرد ٹرک کی بتی کے پیچھے دور
پڑی۔
اس نعرے کے پیچھے کیا محرکات تھے ان کا علم کسی کو نہیں بلکہ اس نعرے نے
عورت کی ساکھ کو کمزور اور بے معنی کردیا۔ اس نعرے کی ضرورت کیوں پیش آئی
اور ہمارے پاکستانی معاشرے میں عورت کو کس انداز میں برتا گیا یہ بحث کا
دوسرا پہلو ہے پر اس نعرے کو لگانے والی جو خواتین سڑکوں پر نکل آئیں وہ
کسی صورت معاشرے کے ہاتھوں ظلم و نا انصافی کی شکار نظر نہیں آتی یا یوں
کہیے جو نعرے وہ لگا رہی ہیں وہ کسی طور مظلوم عورت کی نمائندگی نہیں کرتی۔
وہ جن حقوق کی بات کر رہی ہیں وہ ایک عام عورت کی مانگ ہی نہیں۔
ایک عام عورت عزت دار زندگی کی متلاشی ہے جہاں اس کو جانوروں سا برتا نہ
جائے۔ جہاں اس کو اپنے حق کاپتہ ہو اور وہ خود فیصلہ کر سکے کہ کیسے اس کو
اپنے خاندان کو آگے لے کر چلنا ہے یا خاندان اور دیگر مسائل کے فیصلوں میں
اس کی رائے بھی شامل ہو۔ ناکہ وہ یہ چاہتی ہے کہ وہ اپنے جسم کی نمائش پر
تل جائے اور اپنی عصمت کو داو پر لگادے۔ یہ نام نہاد ،عورت کے حقوق پر بات
کرنے والوں کو پتہ ہی نہیں کہ عورت کے حقوق اصل میں ہیں کیا؟ پاکستانی
قانون اور شرعی حقوق کی بات کی جائے تو بھی ہمیں واضع فرق نظر آتا ہے
کیونکہ جو حقوق اسلام نے مقرر کیے وہ شاید قانون بھی نہ دے سکا۔ سب سے بڑا
حق عورت کو یہ حاصل ہوا کہ مذہب اسلام نے آدم و حوا کو برابر بتایا کہ
دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں یعنی احساسات و جذبات دونوں کو ورثے میں ملے۔
سزی و جزا دونوں کے برابر مقرر کیے گئے ۔ انسان چوں کہ معاشرتی جانور ہے
اور خاندانی نظام رائج ہونے کے سبب ایک نظام کا نفاذ ضروری ہے اسی لئے
زندگی کے تمام اصول و ضوابط کو قائم کرنے کے لیے مرد و عورت کے رتبے کو
متعین کیا گیا اور دونوں کو ان کے حصے کی ذمہ داریاں اور حقوق دیے گئے تاکہ
ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پا سکے۔ پر ہم کہیں نہ کہیں اپنی لا علمی کے سبب
دین اسلام کے درج حقوق نہ سمجھ سکے نہ رائج کر واسکے۔ ہم نے اپنے رسم و
رواج میں ہندوانہ روش شامل رکھا اور جو شکل اسلام کی دی گئی تھی اس کو
مسمار کردیا نتیجہ یہ نکلا کہ جو انسان ہونے کے ناطے عورت کو آزادی دی گئی
تھی اس کی ایک بد نما شکل معاشرے میں ابھری جہاں عورت پر زور زبر دستی،
درجہ بندی اور جانوروں کا سلوک استوار ہوا۔
لیکن ان ساری باتوں میں ہم بھول گئے کہ دین اسلام عورت کو اس قدر اعلی مقام
دیتا ہے کہ اس کے پیروں تلے جنت کی نوید ہے۔ صرف پردے کا پروپیگنڈہ کرنا
کہا کی عقلمندی ہے؟ کیوں عورت کو غلط راہ پر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے؟
کیوں ایسے معاشرے کی تشکیل دی جارہی ہے جہاں کوئی اصول نہیں ہو؟ کیوں اصل
مسئلے پر بات نہیں ہورہی؟ کیوں یہ نام نہاد لبرلز خواتین عورتوں کی اجرت پر
بات نہیں کرتی؟ بات جسم کی نہیں بلکہ بات عزت و تکریم کی ہے؟ بات عورت کے
مقام کی ہے؟ بات عورت کی تعلیم کی ہے؟ اور سب سے اہم بات مرد کے محافظ بن
کر عورت کی ڈھارس بنانے کی ہے۔ ہم کیوں عورت مارچ کریں؟ ہم کیوں خود کو روڈ
پر لائیں؟ ہم نے روڈ پر نہیں آنا بلکہ ہم نے ان حقوق کو رائج کروانا ہے جو
ہمیں ہمارا دین دیتا ہے۔
وہ دین جو عورت کو جائیداد میں حق دلواتا ہے۔وہ دین جو عورت پر ہاتھ اٹھانا
یا اس سے مشقت کا کام لینے سے منع کرتا ہے۔ ہمیں جسم کی نہیں بلکہ روح اور
اپنی سوچ کی آزادی چاہیے۔ ہمیں وہ عزت چاہیے جو ہمارے بنی صلی اﷲ علیہ والہ
و سلم نے ہمیں دے رکھی ہے۔ پردہ ہمارا مسئلہ ہر گز نہیں ہے ہمارا مسئلہ
معاشرے میں بسنے والی وہ نگاہیں جو ہمیں لوٹ کا مال سمجھتی ہیں اور ان کی
نگاہیں نیچی کروانے والا کوئی نہیں، ہمارا مسئلہ وہ سوچ ہے جو عورت کو پیر
کی جوتی سمجھتا ہے جو ہمارا دین اسلام کی عطا کردہ سوچ نہیں بلکہ یہ ہندو
کلچر کا حصہ ہے۔ ہمارا مسئلہ جائیداد میں حصہ ہے۔ عورت کو کمتر جان کر اس
کو حقوق صلب کرنا ہے، اس سے بے جا مشقت کروانا ہے۔ بے مار پیٹ اور کردار
کشی سے خود کو آزاد کروانا ہے۔ ہم اپنی ذمہ داریوں سے فرار نہیں چاہتیں،
ہمیں معلوم ہے کہ ہمارا کیا مقام ہے ۔
ہم تو صرف یہ چاہتیں ہیں کہ مرد جب گالی دے تو اس میں ماں ،بہن ،بیٹی کو نہ
لائے، جب غیرت کا سوال ہو تو عورت کو قربان نہ کرے بلکہ ہمارا محافظ بنے
اور ہم کو ہمارے حقوق دے جو ہمیں عطا کئے گئے ہیں کیونکہ حاکم ہونے کے ناتے
اﷲ کے کٹہرے میں بالآخر مرد کو ہی جواب دہ ہونا ہوگا۔ اس صورت میں بھی اگر
عورت بے راہ روی کا شکار ہوجائے اور اس صورت میں بھی اگر وہ اپنے حقوق سے
محروم کر دی جائے کیونکہ اﷲ کا قانون کسی طور بدلا نہیں جا سکتا اور اس کی
پکڑ بے شک بڑی کڑی ہے۔ اسی لیے مرد و عورت ہونے کے ناطے ہمیں اپنی مقررہ حد
کا ادراک ہونا چاہیے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ قدرت نے کس کے ذمے کیا کام
لگا رکھا ہے۔ ایک دوسرے کی عزت و مال کی حفاظت ہم آدم و حوا پر فرض ہے۔ ایک
دوسرے کے مقام کا علم رکھنا اور معاشرے کو عدل و انصاف فراہم کرنا ہم پر
لازم ہے۔ اس لیے ہم خواتین پر فرض ہے کہ ہم خود کو پہچانیں، اپنا رتبہ و
مقام قائم رکھیں۔ کسی ایسے دوڑ کا حصہ نہ بنیں جس سے آپ کی شخصیت پر آنچ
آئے بلکہ خود کو اس طرح سے معاشرے میں پیش کریں کہ لوگ آپ کو سنیں اور آپ
کے حق کے لئے آواز اٹھائیں اور آپ ایک قوت بن کر سامنے آکر کہہ سکیں کہ
مجھے میرا حق دو!
|