تحریر: مہوش کرن، اسلام آباد
رخت سفر باندھنے کا ارادہ کیا تو سامان باندھنے کے لیے بڑے ڈبے بھی درکار
تھے۔ صاحب کے ساتھ دوکان پر گئی، ڈبوں کے حجم کے حساب سے ضرورت کے مطابق
تعداد بتائی اور واپس گاڑی میں آن بیٹھی۔ جب تک صاحب ڈبوں کی گنتی، رقم کی
ادائیگی اور انہیں گاڑی میں رکھنے میں مصروف تھے میں اِرد گِرد کا جائزہ
لیتی رہی۔ سامنے ہی میکینک، ٹائر پنکچر اور کار واش کی دکانیں تھی۔
وہیں کرسیوں پر دو خواتین بیٹھی تھیں، کچھ دیر تک میں سوچتی رہی کہ شاید
ٹائر پنکچر ہوگیا ہوگا اور ان کے ساتھ جو مرد ہوں گے وہ لگوا رہے ہوں گے
تبھی یہ بیچاریاں گاڑی سے اتر کر ایسے بیٹھی ہیں۔ہائے رے میری ناقص عقل۔
غور نہ کرنے پر بھی نظر ادھر ہی رہی اور چند لمحوں میں واضح ہوگیا کہ وہ
دونوں بذاتِ خود اپنی کار واش کروا رہی تھیں۔ کبھی ورکر کو ہدایات دیتیں کہ
میٹ کو برش سے رگڑو، کبھی صابن کی کمی پر تنقید کرتیں، کبھی ٹائر گھما کر
کچرا نکلواتیں، اور تو اور اپنی چھالیہ کا پیکٹ بھی ورکر سے شیئر فرما رہی
تھیں۔
میں اپنے آپ میں اکثر یہ سوچتی رہتی ہوں کہ آخر ایسا کون سا کام ہے جو مرد
عورت کو نہیں کرنے دیتے جس کے لیے یہ سڑکوں پہ نکل آتی ہیں۔ اگر یہی آزادی
چاہیے تھی تو حیرت ہے کہ آج کی عورت کو یہی نہیں معلوم کہ اْس کی کیا قدر و
قیمت ہے۔
میرے صاحب نے تو آج تک مجھے ایسا کوئی کام نہ کرنے دیا۔ اتنے سال ہوگئے
ہمارے ساتھ کو لیکن شادی کے شامیانے سے لے کر بچیوں کے بے۔بی بیگ تک ہر چیز
خود ہی اٹھاتے ہیں اور میں ناقصل العقل اﷲ کے بعد ان کی بڑائی اور احسان کا
شکر ادا کرتی نہیں تھکتی۔
|