سیر سے کتنا پکتا ہے اور چاقو ہے میرے پاس
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
حکمران عیاشیوں میں مصروف عمل ہے اور عوام ان کیلئے گدھوں کی طرح کام کرنے مجبور ہیں اور ان کیلئے کوئی ریلیف نہیں ،خود لاکھوں روپے میں عیاشی کرنے والوں کو غریب عوام کی صورتحال کا اندازہ ہی نہیں ، اگر اس حوالے سے بات کی جائے تو پھر منہ بنا کر کہا جاتا ہے کہ بارہ ہزا ر روپے ہم نے غریب لوگوں کو دے دئیے ہیں کیابارہ ہزار میں عام لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں.اب بھی اگر حکمران نہیں سمجھتے تو پھر اس غریب عوام کو نہ کوئی فوجی کنٹرول کرسکے گا نہ کوئی ملا ، کیونکہ ان دونوں نے کبھی مل کر اور کبھی علیحدہ علیحدہ ہو کر مذہب ، ریاست کے نام پر عوام کو نچوڑا ہے اور صورتحال اب یہی بن رہی ہے کہ اب ان دونوں پر کوئی یقین کرنے کو تیار ہی نہیں - |
|
مسرت اللہ جان
بچپن میں ایک ڈرامہ دیکھتے تھے جس میں کراچی کا ایک اداکار یہ جملہ کہتا تھا کہ " چاقو ہے میرے پاس" کبھی کبھار وہ ڈرامے کے سین میں چھوٹا سا چاقو بھی دکھاتا . لیکن پورے ڈرامے میں اس نے کبھی کسی کو چاقو نہیں مارا. بس لوگوں کو ڈرانے کی کوشش کرتے رہے.. بس یہی صورتحال ہماری پوری ملک کی ہے تئیس مارچ کو ہونیوالی پریڈ کیلئے اربوں روپے کے فنڈز جاری کردئیے گئے . مقصد دنیا کو دکھانا کہ ہمارے پاس یہ اسلحہ و بارود موجود ہے. ہمارے حکمران اور ایلیٹ کلاس بھی کراچی کے ڈرامے کی طرح " چاقو ہے میرے پاس" والی صورتحال پر عوام کے خون پسینے کے کمائی کا اربوں روپے اڑا رہے ہیں. ویسے اس اسلحے نے کچھ کیا بھی ہے کہ نہیں.یہ وہ سوال ہیں جس کے بارے میں پوچھنے پر لوگوں کو دہشت گرد ، غدار اور نہ جانے کیا کیا کہا جاتا ہے. صرف ایک دن اسلحے یک نمائش پر اربوں روپے دکھانے کا مقصد کیا ہے. اس کی تک کیسی بنتی ہے. اس کی سمجھ نہیں آرہی. گذشتہ روز سوشل میڈیا پر کراچی کے ایک نوجوان کی ویڈیو وائرل ہوگئی ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ اس نے بیروزگاری اور حالات کے تنگ آکر اپنے آپ کو پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی پٹرول چھڑکنے سے قبل اس نے آرام سے سیگریٹ پی لی اور پھر اپنے آپ کو موت کے حوالے کردیا. تقریبا یہی صورتحال ایک ہفتے قبل ہمارے اپنے ایک محلے میں رہائش پذیر نوجوان جس کی بیوی بھی حاملہ تھی اس سے ڈاکوئوں نے پندرہ لاکھ روپے چھین لئے ، گھر وہ فروخت کر چکا تھا اس نے اپنے آپ کو گولی مار دی اور ساتھ میں بیوی کو بھی گولی مار کر ہلاک کردیا ، اس سے تین بیٹیاں رہ گئی ہیں جس کی ذمہ داری اب اس کے بوڑھے والدین پرآگئی ہیں-دونوں واقعات میں مایوسی ایک بنیادی نکتہ ہے جو وہ اس بدبودار نظام سے مایوس ہو چکے ہیں-یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ انسان جب مایوس ہوتا ہے تو وہ خودکشی کرتا ہے لیکن یہ نوجوان کب تک خودکشیاں کرتے رہینگے اس کا جواب تو کسی کے پاس نہیں لیکن اگر یہ نوجوان"خودکش " بن گئے کہ چلو ہم نے مرنا ویسے بھی ہے اپنے ساتھ"بہت سارے" مرداروں کو لیکر جاتے ہیں اور ایک زمانے میں جس طرح سیکورٹی اداروں کو نشانہ بناتے تھے اسی طرح کی کاروائیوں کا آغاز ہوگیا تو پھر اس کو روکنے والا کون ہوگا. یقینا اس کا جواب کسی کے پاس نہیں.. اس طرح کے حالات کا مارا اس وقت پاکستان کا ہر شہری ہے ، صرف پندرہ فیصد عیاشی کرنے والے ایلیٹ کلاس کے لوگ ہیں باقی مزدور لوگ ہیں جن کی مزدور ٹیکسوں کو پوری کرتے ہوئے گزر جاتی ہیں لیکن ان کے بنیادی ضروریات پوری نہیں ہوتی- موجودہ حکمرانوں سے قبل کے حکمران اگر چور تھے تو موجودہ کونسے مولوی ہیں. یہ تو ان سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں. اس وقت ایک پشتو زبان کی مثل یاد آرہی تھی کہ ایک کفن چور جب مرنے لگا تو اس نے اپنے بیٹے کو کہہ دیا کہ کوشش کرنا کہ لوگ مجھے دعائیں دے .کفن چور کے بیٹے نے والد کے موت کے بعد مردے سے کفن چوری کرنے کے بعد میت کی بے حرمتی بھی شروع کردی. پھر علاقے کے لوگ کہنے لگے کہ یار اس کفن چور سے اس سے پہلے والا اچھا آدمی تھا صرف کفن چوری کرتا یہ ظالم تو مردے کی بے حرمتی کرتا ہے. تقریبا اس سے زیادہ صورتحال اس وقت پورے پاکستان کے 80 فیصد عوام کی ہے. اب تو پاکستان کے عوام کیساتھ کفن چوری میت کی بے حرمتی کے بعد اس کی ویڈیو بھی بناتا ہے اور پھر وائرل بھی کرتا ہے تقریبا یہی صورتحال اس وقت نیازی حکومت کررہی ہے جو کہ اپنے آپ کو" ریاست مدینہ" کے دعویدار سمجھتی اور کہلواتی ہیں. کہلوانے اور سمجھنے پر یاد آیا کہ کرونا کے تیسری لہر کے نام پر پورے پاکستان کے کاروبار کو بند کیا جارہا ہے اور جس طرح کے حالات پیدا کئے جارہے ہیں اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ کراچی یا پشاور میں خود کشی کرنے والے واقعات اب روز ہر جگہ پر ہونگے کیونکہ اس ملک کے 80 فیصد عوام یہ سمجھتی ہے کہ کرونا سے ان کی موت تو نہیں لکھی لیکن بھوک سے انکی موت ضرور لکھی ہے اور انہیں اس صورتحال میں لے جانیوالے ملک کا حکمران طبقہ ہے.بجلی ، گیس سمیت آٹے چینی سمیت بنیادی ضروریات زندگی کی بڑھتی قیمتوں کیساتھ ٹیکسوں نے عوام کو اس صورتحال پر مجبور کردیا کہ اب مر جائو یا مار دو جیسی صورتحال پیدا ہونے کا خطر ہ ہے.ٹھیک ہے کہ ہمارے پاس نمبر ون فوج ہے ، نمبر ون پولیس ہے لیکن اس نمبر ون کا ہم نے کرنا کیا ہے لوگ اتنے تنگ آچکے ہیں کہ مرنے کو تیار ہیں اورنمبر ون فوج اور نمبر ون پولیس کتنے لوگوں کو مارے گی. حکمران عیاشیوں میں مصروف عمل ہے اور عوام ان کیلئے گدھوں کی طرح کام کرنے مجبور ہیں اور ان کیلئے کوئی ریلیف نہیں ،خود لاکھوں روپے میں عیاشی کرنے والوں کو غریب عوام کی صورتحال کا اندازہ ہی نہیں ، اگر اس حوالے سے بات کی جائے تو پھر منہ بنا کر کہا جاتا ہے کہ بارہ ہزا ر روپے ہم نے غریب لوگوں کو دے دئیے ہیں کیابارہ ہزار میں عام لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں.اب بھی اگر حکمران نہیں سمجھتے تو پھر اس غریب عوام کو نہ کوئی فوجی کنٹرول کرسکے گا نہ کوئی ملا ، کیونکہ ان دونوں نے کبھی مل کر اور کبھی علیحدہ علیحدہ ہو کر مذہب ، ریاست کے نام پر عوام کو نچوڑا ہے اور صورتحال اب یہی بن رہی ہے کہ اب ان دونوں پر کوئی یقین کرنے کو تیار ہی نہیں - کیا حکمران بشمول ریاستی اداروں کے پاس غریب عوام کو دینے کیلئے کچھ ہے یا نہیں. اگر ہے تو فورا ڈیلیور کریں او راگر نہیں تو پھر " چاقو ہے"والی صورتحال کو چھوڑ کر یہی رقم عوام کو دیں یا پھر کرونا کی تیسری لہر میں سارے ریاستی مشینری کے ملازمین بشمول حکمرانوں کے مراعات بند کردیں پھر لگ جائیگا پتہ کہ "سیر سے کتنا پکتا ہے"
|