وہ اسوۂ اسلاف کی رخشندہ علامت

 حضرت مولانا رضوان نسیم صا حب مرحوم
فتح محمد ندوی
انجمن میں بھی مسیر رہی خلوت اس کو
شمع محفل کی طرح سب سے جدا سب کا رفیق
( اقبال)
حضرت مولانا رضوان نسیم صاحب مرحوم سابق شیخ الحدیث جامعہ مفتاح العلوم جلال آباد شاملی سے پہلی مرتبہ باضابطہ تعارف اور شناسائی کا وسیلہ جناب قاری محمد عاطف صاحب سونتوی بنے، اس پہلے تعارف اور تعلق کے بعد ان سے صرف ایک اہم تفصیلی ملاقات ہو ئی،جس میں ان کی علمی اور فکری جولانیاں اورعلم و کتاب سے وابستگی کا خوب خوب اندازہ ہوا،واقعہ یہ ہے کہ مولانا رضوان نسیم صاحب ان شخصیتوں میں شمار تھے جن کے وجود سے علم و کتاب، روح اور روحانیت کی بزم گاہیں روشن آباد اور شاد رہتی ہیں؛بلکہ ہندوستان کے ظلمت کدوں میں جن اکابر اور بزرگان دین نے ایمان و یقین اور علم و عمل سے جو روشنی اور نور عطا کیا اور یہاں کے تاریک ذروں کو تابانی بخشی،لا ریب اس قافلہ قدس میں مولانا رضوان نسیم صاحب بھی شامل تھے اور مولانا رضوان نسیم صاحب کے وجود سے بھی ایک جہاں روشن اور تابناک تھا، جس کا ثبوت یہ ہے کہ ان کی وفات کے بعد بھی ان کی عطر بیزیوں سے ذہن و دماغ معطر اور مشک بار ہیں۔
مولانا رضوان نسیم صاحب کا مکمل سراپہ یہ ہے کہ جسم متناسب جو ہر لباس کے لئے مو زو، چہرہ سرخ و سفید پیشانی پہ نور کی لکیریں آنکھیں چمکتی ہوئی مگر حیا سے جھکی ہوئیں ، بال بڑے سنت کے مطابق شانوں تک بکھرے ہوئے ، خوش لباس، لہجہ اور آہنگ خطیبانہ طبیعت حد درجہ خاموش اور نظافت پسند ۔غرض اپنے پیکر کے اعتبار سے آپ ایک خوبصورت، دیدہ زیب اور وجیہ شخصیت کے مالک تھے۔ پھر ا ن تمام تر جسمانی ساخت کی خوبیوں اور قامت کا تناسب ہونے کے ساتھ ساتھ عالمانی رنگ و روپ اور طرز حیات کے باوجود آپ کا حلیہ اپنے پیش رو اکابر اور بزرگوں کی وضع اور رکھ رکھاؤ کی علامت اور خوبصورت عنوان تھا۔
وہ اسوۂ اسلاف کی رخشندہ علامت
اے خاک بتا ! تو نے چھپائی ہے کہاں آج
(مفتی تقی عثمانی)
مولانا رضوان نسیم صاحب کی اچانک موت کی خبر سن کر ان کے جنازے میں شرکت کے لیے ان کے آبائی وطن سونتہ رسول پور حاضری ہوئی، وہاں کا پورا ماحول حسرت و یاس کی تصویر بناہوا تھا،متو سلین اور سوگواروں کا ایک ہجوم ان کے آخری دیدار کے لیے جمع تھا،جو بے تابی سے انہیں اپنی اشکبار آنکھوں اور غمزدہ دل سے محبت اور عقیدت کا خراج پیش کرر با تھا؛ بلکہ مجھے ان کے جنازے میں غیر معمولی لوگوں کے جم غفیر کو دیکھ کر حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا یہ قول یاد آ گیا کہ’’ ہمارے جنازے ہماری حقانیت کا ثبوت پیش کریں گے۔واقعی ان کے جنازے میں لوگوں کے اس ہجوم کو دیکھ کر حضرت امام صاحبؒ کا یہ قول ان کی شخصیت کے عظیم ہونے کی مکمل دلیل پیش کر رہا تھا۔
تجھ سے ہوا آشکار بندہ مومن کا راز
اس کے دنوں کی تپش، اس کی شبوں کا گداز
(علامہ اقبال)
لیکن میرے ذہن میں لوگوں کی ان کے تئیں اس بے پناہ محبت اور جذبہ کو دیکھ کریہ خیال بار بار آرہا تھا کہ آخر مولانا کی اس بے پناہ محبوبیت کے پس پردہ وہ عناصر کیا تھے جس کی وجہ اور سبب سے ان کی موت کو اجتماعی طور پر ایک عظیم حادثہ کی طرح لوگوں نے محسوس کیا ۔ اور ابھی بھی حال یہ ہے کہ ان کی یادیں تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ فضا پر ان کی یا دوں کی کسک ماتم کی شکل میں ہر سو سنائی دے رہی ہے، بلاشبہ اس محبوبیت اور اعتبار کے لئے جو مولانا کو خدا کی طرف سے عطا ہوا فضل الٰہی کے ساتھ ساتھ بہت سے صبر آزما مرحلوں سے گزر نا پڑتا ہے،تب کسی انسان کو محبوبیت اور اعتماد کا تمغہ نصیب ہوتا ہے۔
کسی بھی انسان کی محبوبیت میں تعلق مع اﷲ کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے،بغیر اس کے حصول کے ہر نقش ناتمام ہے، مولانا رضوان نسیم صاحب نے ہمیشہ قرب الٰہی اور حصول معرفت کو اپنی زندگی میں سب سے مقدم رکھا ہے بلکہ ہر وہ عمل اور جذبہ جو اﷲ تعالی کے تعلق اور محبت میں اضافہ کا سبب بنتا ہے وہ آ پ کے ہمیشہ پیش نظر رہا ، مثلاً نمازوں کا تکبیر اولی کے ساتھ اہتمام کر نا ،ذکر و اذکار کی پابندی، شب زندہ داری سنتوں سے محبت اور ان پر دوام، پھر ان تمام بنیادی خوبیوں کے ساتھ مولانا رضوان نسیم صاحب نے کسی محرم اسرار کے کشکول معرفت سے جرعہ نوشی میں کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا، وقتا فوقتا خانقاہ رائپور اور عہد رواں کے عظیم روحانی پیشوا ولی مرتاض حضرت مولانا سیدمکرم حسین صاحب مدظلہ العالی کے روحانی دربار میں نیاز مندا نہ حاضری، اس کا واضح ثبوت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا رضوان نسیم صاحب کا مزاج طبعا علم و عرفان کا حسین پیکر تھا،بچپن ہی سے انہیں علم وکتاب خصوصا علم حدیث سے گہری وابستگی تھی،مطالعہ کا شوق ہی نہیں بلکہ نشے کی حد تک انہیں لت تھی، علم و کتاب سے ان کی اس وارفتگی اور شیفتگی خصوصا حدیث کے حوالے سے ان کے اس ذوق جمال کو دیکھ کر زمانہ طالب علمی میں حضرت اقدس شاہ مفتی عبد العزیز رائپوری نور اﷲ مرقدہ نے ان کی حوصلہ افزائی بھی کی اور اپنی نیک خواہشات کا اظہار بھی فرمایا تھا۔علم کی اس جوئے شیر کے فرہاد پر حدیث رسول کا یہ جذبہ وظیفہ حیات بن کر آخری لمحات تک باقی رہا؛بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مطالعہ اور علم کی طلب میں وسعت ہوتی گئی۔
حاصل گفتگو یہ ہے کہ مولانا رضوان نسیم صاحب جو علم و کتاب کے بلاشبہ نیرتاباں تھے، ان کی علمی ضیاپاشیوں سے نہ صرف مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اﷲ خان صاحب کا روحانی، عرفانی اور علمی تاج محل جامعہ مفتاح العلوم روشن اور تابناک تھا۔بلکہ مثل خورشید ان کی کرنیں دور دراز تک پہنچ چکی تھیں ۔ تشنہ کامان علم کی ایک بڑی تعداد ان کے میخانہ علم سے سیرابی حاصل کرچکی تھی؛لیکن اپنی اٹھان اور پرواز کے شباب اور عین عروج میں علم کا یہ خورشید عدم کی بیکراں وادیوں میں غروب ہو گیا،ان کی اچانک موت سے علم و کتاب اور درس و تدریس کے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا۔
مجھے آخر اب یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ بشمول مولانا رضوان نسیم صاحب کے کتنے اساطین علم و عمل ، زہد و تقوی کے مینار اور سفیران قلم و کتاب رفتگاں کی فہرست میں شامل ہوچکے ہیں۔تو اس غمزدہ اور سنگین صورت حال میں جبکہ دل پر اتنی قیامت گزر چکی ہیں کہ اب ہلکی چبھن بھی ناسور بن جاتی ہے کس طرح اور کن الفاظ سے مولانا رضوان نسیم صاحب کو خراج اور اظہار تعزیت پیش کروں ، بس بچھڑ کر جانے والوں کی یاد سے نس نس میں کرچوں کی چبھن موجود ہے اور یادوں کا ایک ہجوم اعصاب پر سوار ہے ۔
ُُ
 

Fateh Mohd Nadwi
About the Author: Fateh Mohd Nadwi Read More Articles by Fateh Mohd Nadwi: 30 Articles with 33823 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.