نہ جب تک کٹ مروں خواجہ بطحا کی
عزت پر
خدا شائد ھے کامل میرا ایمان ھو نیں سکتا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور وفات کے بارے میں علمائے کرام کے
اقوال اور ان میں سے راجح کا بیان
سوال: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور فات کی کیا تاریخ ہے، مجھے اس
بارے میں متعدد آراء ملی ہیں، اس کے متعلق کتاب و سنت کی روشنی میں صحیح
قول کیا ہے انکا ﺫکر کرتے ہیں.
" میرے قلب کوبھی نصیب ھوں تیری ﺫات سے وہی نستبیں
وہ جو عظمتں تھیں اویس کی وہ جو رابطے تھے بلال کے
الحمد للہ:
اول:
سیرت نگار اور مؤرخین کا تاریخ، دن، اور ماہِ ولادت کی تعیین کے بارے میں
اختلاف ہے، یہ ایک ایسا امر ہے جس کا معقول سبب بھی ہے، وہ یہ کہ کسی کو اس
مبارک نومولود کی آئندہ شان کے بارے میں علم نہیں تھا، چنانچہ انہیں عام
بچوں کی طرح سمجھا گیا، یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی یقینی اور قطعی طور پر آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے بارے میں تحدید نہیں کر سکتا۔
ڈاکٹر محمد طیب نجار رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ جس وقت آپکی پیدائش ہوئی تو کسی کو بھی
آپکی عظمت شان کے بارے میں توقع نہ تھی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
ابتدائی زندگی پر اتنی توجہ نہیں دی گئی، تاہم جس وقت اللہ تعالی نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی ولادت سے چالیس سال بعد دعوت دینے کا حکم
دیا تو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلقہ یادوں کو واپس لانے لگے، اور
آپکی زندگی کے بارے میں ہر چھوٹی بڑی چیز کے بارے میں پوچھنے لگے، اس کیلئے
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی زندگی میں رونما ہونے والے
واقعات کا بیان کافی معاون ثابت ہوا، اسی طرح آپ کی زندگی سے منسلک صحابہ
کرام اور دیگر افراد نے بھی آپکی زندگی سے متعلقہ واقعات بیان کیے ۔
اس وقت سے مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے متعلقہ کوئی بات
بھی سنتے تو اسے محفوظ کر لیتے تا کہ اپنے بعد آنے والے لوگوں کو سیرت
النبی سے آگاہ کریں"
" القول المبين في سيرة سيد المرسلين " ( ص 78 )
دوم:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے متعلقہ متفقہ باتوں میں سال کیساتھ دن
کی تعیین بھی شامل ہے ۔
1- سال کے بارے میں یہ رائے متفقہ ہے کہ یہ عام الفیل کا سال تھا، چنانچہ
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش مکہ
مکرمہ میں عام الفیل کے سال ہوئی"
" زاد المعاد في هدي خير العباد " ( 1 / 76 )
محمد بن یوسف صالحی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابن اسحاق رحمہ اللہ کے مطابق ولادت کا سال عام الفیل ہے"
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"جمہور کے ہاں یہی مشہور ہے"
ابراہیم بن منذر حزامی رحمہ اللہ جو کہ امام بخاری کے استاد ہیں ، ان کا
کہنا ہے کہ :
"اس کے بارے میں کسی بھی اہل علم کو شک و شبہ نہیں ہے"
جبکہ خلیفہ بن خیاط، ابن جزار، ابن دحیہ، ابن جوزی، اور ابن قیم نے تو یہاں
تک کہہ دیا کہ اس بارے میں اجماع ہے۔
" سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد " ( 1 / 334 ، 335 )
ڈاکٹر اکرم ضیاء عمری حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"حق بات یہ ہے کہ اس موقف سے متصادم تمام روایات ضعیف ہیں، جن کا لب لباب
یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت عام الفیل سے دس سال بعد ہوئی، یا
23 سال بعد ہوئی یا 40 سال بعد ہوئی، علمائے کرام کی اکثریت اس بات کی قائل
ہے کہ آپ کی ولادت عام الفیل میں ہوئی، انکے اس موقف کی تائید جدید تحقیقات
نے بھی کی ہے جو مسلم اور مستشرق محققین کی جانب سے کی گئی ہیں، انہوں نے
عام الفیل کو 570ء یا 571ء کے موافق پایا ہے"
" السيرة النبوية الصحيحة " ( 1 / 97 )
2- جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دن سوموار کو بنتا ہے، کہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم اسی دن پیدا ہوئے، اسی دن رسالت سے نوازا گیا، اور اسی
دن آپ نے وفات پائی، چنانچہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوموار کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا
گیا، تو آپ نے فرمایا: (اس دن میں پیدا ہوا، اور اسی دن مجھے مبعوث کیا
گیا-یا مجھ پر وحی نازل ہوئی-) مسلم : ( 1162 )
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"اس شخص نے بعید از قرائن بات کی ،بلکہ غلط کہا ، جو نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کی ولادت جمعہ کے دن 17 ربیع الاول کہتا ہے"
جمعہ کے دن کے قول کو حافظ ابن دحیہ نے کسی شیعہ عالم کی کتاب: " إعلام
الروى بأعلام الهدى " سے نقل کیا ہے، اس کے بعد انہوں نے اسکو ضعیف بھی کہا
ہے، اور ایسے قول کی تردید کرنی بھی چاہیے کیونکہ یہ نص سے متصادم ہے۔
" السيرة النبوية " ( 1 / 199 )
سوم:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے متعلق اختلافی امور میں مہینے اور اس
مہینے میں دن کی تعیین ہے، اس بارے میں ہمیں بہت سے اقوال ملے ہیں، جن میں
سے کچھ یہ ہیں:
1. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش دو ربیع الاول کو ہوئی
چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بھی کہا گیا ہے کہ دو ربیع الاول کو آپکی پیدائش ہوئی، یہ قول ابن عبد
البر نے "الاستیعاب" میں نقل کیا ہے، اور واقدی نے ابو معشر نجیح بن عبد
الرحمن مدنی سے بھی روایت کیا ہے"
" السيرة النبوية " ( 1 / 199 )
2. اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آٹھ ربیع الاول کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
پیدائش ہوئی
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"یہ بھی کہا گیا ہے کہ آٹھ ربیع الاول کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش
ہوئی ، یہ قول حمیدی نے ابن حزم سے بیان کیا ہے، اور مالک، عقیل، یونس بن
یزید وغیرہ نے زہری کے واسطے سے محمد بن جبیر بن مطعم سے روایت کیا ہے، نیز
ابن عبد البر رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ مؤرخین اسی کو صحیح قرار دیتے ہیں،
جبکہ حافظ محمد بن موسی خوارزمی نے اسی کو یقینی طور پر صحیح کہا ہے، حافظ
ابو خطاب ابن دحیہ نے اسے اپنی کتاب " التنوير في مولد البشیر النذير " میں
اسے راجح قرار دیا ہے"
" السيرة النبوية " ( 1 / 199 )
3. یہ بھی کہا گیا ہے کہ دس ربیع الاول کو آپ کی پیدائش ہوئی
چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش دس ربیع الاول کو ہوئی، اسے ابن دحیہ نے
اپنی کتاب میں نقل کیا ہے، اور ابن عساکر نے ابو جعفر باقر سے بھی روایت
کیا ہے، نیز مجالد نے شعبی سے یہی موقف بیان کیا ہے"
" السيرة النبوية " ( 1 / 199 )
4. اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ 12 ربیع الاول کو آپ کی پیدائش ہوئی
چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بھی کہا گیا ہے کہ 12 ربیع الاول کو آپ کی پیدائش ہوئی، اسی موقف کی
صراحت ابن اسحاق نے کی ہے، اور ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب "المصنف" میں
عفان سے انہوں نے سعید بن میناء سے انہوں نے جابر اور ابن عباس دونوں سے
روایت کیا ہے، اور دونوں کہتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام
الفیل بروز سوموار 12 ربیع الاول کو پیدا ہوئے، سوموار کے دن ہی آپ مبعوث
ہوئے، اور اسی دن آپکو معراج کروائی گئی، اور اسی دن آپ نے ہجرت کی، اور
اسی دن آپ فوت ہوئے، جمہور اہل علم کے ہاں یہی مشہور ہے" واللہ اعلم
" السيرة النبوية " ( 1 / 199 )
اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کی پیدائش رمضان میں ہوئی ہے، یہ بھی
کہا گیا ہے کہ صفر میں اور اس کے علاوہ دیگر اقوال بھی اس بارے میں موجود
ہیں۔
ہمیں جو نظر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے
حوالے سے مضبوط ترین اقوال آٹھ ربیع الاول سے لیکر 12 ربیع الاول کے درمیان
ہیں، اور کچھ مسلم محقق ماہرین فلکیات، اور ریاضی دان افراد نے یہ ثابت کیا
ہے کہ سوموار کا دن ربیع الاول کی نو تاریخ کو بنتا ہے، چنانچہ یہ ایک نیا
قول ہو سکتا ہے، لیکن یہ ہے مضبوط ترین قول، اور یہ شمسی اعتبار سے 20
اپریل 571ء کا دن ہے، اسی کو معاصر سیرت نگاروں نے راجح قرار دیا ہے، ان
میں محمد الخضری، اور صفی الرحمن مبارکپوری بھی شامل ہیں۔
ابو القاسم سہیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش شمسی اعتبار
سے 20 اپریل بنتی ہے"
" الروض الأُنُف " ( 1 / 282 )
پروفیسر محمد خضری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" مرحوم محمود پاشا- جو کہ مصری ماہر فلکیات ہیں ، آپ فلکیات، جغرافیہ،
حساب میں بہت ماہر تھے، انہوں نے کافی کتب اور تحقیقات شائع کی ہیں، 1885ء
میں فوت ہوئے- انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش
صبح سویریے 9 ربیع الاول بمطابق 20 اپریل 571ء کو ہوئی، جو کہ حادثہ فیل کا
پہلا سال تھا، آپ کی ولادت شعب بنی ہاشم ، میں ابو طالب کے گھر ہوئی"
" نور اليقين في سيرة سيد المرسلين " ( ص 9 )، اسی طرح دیکھیں: " الرحيق
المختوم " ( ص 41 )
چہارم:
جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ
آپکی وفات سوموار کو ہوئی، اور ابن قتیبہ سے جو نقل کیا جاتا ہے کہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی وفات بدھ کے دن ہوئی تو یہ درست نہیں ہے، یہ ہو سکتا ہے
کہ انکی مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین ہو، تو یہ درست ہے کہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی تدفین بدھ کے دن ہوئی۔
جبکہ وفات کے سال کے متعلق بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ سن گیارہ ہجری
میں ہوئی۔
اور ماہِ وفات کے بارے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آپکی وفات ربیع
الاول میں ہوئی
جبکہ اس مہینے کے دن کے متعلق علمائے کرام میں اختلاف ہے کہ :
1- تو جمہور علمائے کرام 12 ربیع الاول کے قائل ہیں
2- خوازمی کہتے ہیں کہ آپکی وفات ربیع الاول کی ابتدا میں ہوئی تھی
3- ابن کلبی ، اور ابو احنف کہتے ہیں کہ یہ ربیع الاول کو ہوئی ، اسی کی
جانب سہیلی کا میلان ہے، اور حافظ ابن حجر نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔
جبکہ مشہور وہی ہے جس کے بارے میں جمہور علمائے کرام کا موقف ہے کہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی وفات 12 ربیع الاول سن گیارہ ہجری کو ہوئی تھی۔
دیکھیں: " الروض الأنف " از: سہیلی: ( 4 / 439 ، 440 ) ، " السيرة النبوية
" از: ابن كثير( 4 / 509 ) ، " فتح الباری " از: ابن حجر
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ اور تدفین اور غسل
۳۰/صفر (آخری بدھ) کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوصال کی ابتدا
ہوئی، ۸/ربیع الاوّل کو بروز پنجشنبہ منبر پر بیٹھ کر خطبہ ارشاد فرمایا،
جس میں بہت سے اُمور کے بارے میں تاکید و نصیحت فرمائی۔ ۹/ربیع الاوّل شبِ
جمعہ کو مرض نے شدّت اختیار کی، اور تین بار غشی کی نوبت آئی، اس لئے مسجد
تشریف نہیں لے جاسکے، اور تین بار فرمایا کہ: “ابوبکر کو کہو کہ لوگوں کو
نماز پڑھائیں!” چنانچہ یہ نماز حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور
باقی تین روز بھی وہی امام رہے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ
طیبہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سترہ نمازیں پڑھائیں، جن کا سلسلہ
شبِ جمعہ کی نمازِ عشاء سے شروع ہوکر ۱۲/ربیع الاوّل دوشنبہ کی نمازِ فجر
پر ختم ہوتا ہے۔
علالت کے ایام میں ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں (جو بعد میں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری آرام گاہ بنی) اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کو
وصیت فرمائی
“انتقال کے بعد مجھے غسل دو اور کفن پہناوٴ اور میری چارپائی میری قبر کے
کنارے (جو اسی مکان میں ہوگی) رکھ کر تھوڑی دیر کے لئے نکل جاوٴ، میرا
جنازہ سب سے پہلے جبریل پڑھیں گے، پھر میکائیل، پھر اسرافیل، پھر
عزرائیل، ہر ایک کے ہمراہ فرشتوں کے عظیم لشکر ہوں گے، پھر میرے اہلِ بیت
کے مرد، پھر عورتیں بغیر امام کے (تنہا تنہا) پڑھیں، پھر تم لوگ گروہ در
گروہ آکر (تنہا تنہا) نماز پڑھو۔”
چنانچہ اسی کے مطابق عمل ہوا، اوّل ملائکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
نماز پڑھی، پھر اہلِ بیت کے مردوں نے، پھر عورتوں نے، پھر مہاجرین نے، پھر
انصار نے، پھر عورتوں نے، پھر بچوں نے، سب نے اکیلے اکیلے نماز پڑھی، کوئی
شخص امام نہیں تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل حضرت علی کرّم اللہ وجہہ نے دیا، حضرت
عباس اور ان کے صاحبزادے فضل اور قثم رضی اللہ عنہم ان کی مدد کر رہے تھے،
نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو موالی حضرت اُسامہ بن زید اور حضرت
شقران رضی اللہ عنہما بھی غسل میں شریک تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو
تین سحولی (موضع سحول کے بنے ہوئے) سفید کپڑوں میں کفن دیا گیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے روز (۱۲/ربیع الاوّل) کو سقیفہ بنی
ساعدہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعتِ خلافت ہوئی،
اوّل اوّل مسئلہٴ خلافت پر مختلف آراء پیش ہوئیں، لیکن معمولی بحث و تمحیص
کے بعد بالآخر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے انتخاب پر اتفاق ہوگیا اور
تمام اہلِ حل و عقد نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ عام دستور کے مطابق جماعت کے
ساتھ نہیں ہوئی، اور نہ اس میں کوئی امام بنا، ابنِ اسحاق وغیرہ اہلِ سِیَر
نے نقل کیا ہے کہ تجہیز و تکفین کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ
مبارک حجرہٴ شریف میں رکھا گیا، پہلے مردوں نے گروہ در گروہ نماز پڑھی، پھر
عورتوں نے، پھر بچوں نے، حکیم الاُمت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ
علیہ نشر الطیب میں لکھتے ہیں:
“اور ابنِ ماجہ میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: جب آپ کا
جنازہ تیار کرکے رکھا گیا تو اوّل مردوں نے گروہ در گروہ ہوکر نماز پڑھی،
پھر عورتیں آئیں، پھر بچے آئے، اور اس نماز میں کوئی امام نہیں ہوا۔”
(نشر الطیب ص:۲۴۴ مطبوعہ تاج کمپنی)
علامہ سہیلی “الروض الانف” (ج:۲ ص:۳۷۷ مطبوعہ ملتان) میں لکھتے ہیں:
“یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی، اور ایسا آنحضرت صلی اللہ
علیہ وسلم کے حکم ہی سے ہوسکتا تھا، ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وصیت فرمائی تھی۔”
علامہ سہیلی نے یہ روایت طبرانی اور بزار کے حوالے سے، حافظ نورالدین
ہیثمی نے مجمع الزوائد (ج:۹ ص:۲۵) میں بزار اور طبرانی کے حوالے سے اور
حضرت تھانوی نے نشر الطیب میں واحدی کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے، اس
کے الفاظ یہ ہیں:
“ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ پر نماز کون پڑھے گا؟ فرمایا: جب غسل کفن
سے فارغ ہوں، میرا جنازہ قبر کے قریب رکھ کر ہٹ جانا، اوّل ملائکہ نماز
پڑھیں گے، پھر تم گروہ در گروہ آتے جانا اور نماز پڑھتے جانا، اوّل اہلِ
بیت کے مرد نماز پڑھیں، پھر ان کی عورتیں، پھر تم لوگ۔”
سیرة المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں طبقات ابنِ سعد کے حوالے سے حضرات
ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا ایک گروہ کے ساتھ نماز پڑھنا نقل کیا ہے۔
چالیس اسباق میں آپکے سامنے سیرت
نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پیش کی ھے
اللہ پاک سے دعا ھے کہ تمام اسباق میں اگر کوہی غلطی یا کمی ھو تو اپنی
رحمت سے معاف فرماۓ....آمین
تاریخ اگر ڈھونڈھے گی ثانئ محمد
ثانی تو بڑی چیز ھے سایه نه ملے گا
|