سرکاری اشتہارات اور ادب اطفال کے رسائل کی بقاء
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
|
جملہ حقوق محفوظ بحق : ذوالفقار علی بخاری
جس طرح سے زندگی کے لئے آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح سے اپنے پیٹ کو بھرنے کے لئے کھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ جسمانی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اور شعور بیداری کے لئے بھی کچھ کرنا پڑتا ہے۔اسی طرح سے کسی بھی رسالے کو چلانے کے لئے مالی وسائل کا ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔اگر کوئی رسالہ زیادہ مالی وسائل نہیں رکھتا ہے تو پھر اُس کی زندگی کے دن بہت کم ہو جاتے ہیں۔
آپ نے ٹیلی ویژن پر ایک اشتہار دیکھا ہوگا جس میں ایک بچہ کہتا ہے کہ ”میں کھاؤں گا نہیں تو بڑا کیسے ہو ں گا“۔ اسی طرح سے جب کسی رسالے کو اشتہارات نہیں ملتے ہیں تو پھر اُس کی بقاء کو سنگین خطرات لاحق ہو جاتے ہیں اور پھر جیسے ہم سنتے ہیں کہ ”فلاں شخص کا رضائے الہی سے انتقال ہو گیا ہے“۔
اسی طرح سے رسالے بھی اپنی زندگی کے دن پورے کر کے رخصت ہو جاتے ہیں۔
اب راقم السطور آپ کے سامنے چند ایک رسائل کا ذکر کرتا ہے، اب یہ آپ کو ہی علم ہوگا کہ آپ آج سے قبل اُس کے حوالے سے جانتے تھے یا نہیں مگر و ہ آج کم سے کم ہماری نظروں میں نہیں ہیں۔ہم بات کر رہے ہیں ”ماہ نامہ۔بچوں کا ڈائجسٹ“،”ماہ نامہ۔بچوں کا گلشن“،”ماہ نامہ۔ پنکھڑی“ اور”ماہ نامہ۔پھول ہی پھول“اور”ماہ نامہ۔چاند گاڑی“یہ رسائل ایک زمانے میں کچھ عرصہ شائع ہوئے اور پھر یہ شائع نہ ہو سکے۔
اس کی وجوہات کچھ اور بھی ہو سکتی ہیں مگر ہم یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگر ان رسائل کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوتی تو یہ ادب اطفال کا سرمایہ ہوتے اوربچوں کو ان کے ذریعے سے بہت کچھ سیکھنے کو مل سکتا تھا مگر افسو س کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں سرکاری طور پر بچوں کے رسائل کو بھرپور نہ تو سرپرستی حاصل ہے اور نہ ہی اُن کو اشتہارات کی اتنی تعداد مل رہی ہے کہ وہ اپنی باقاعدہ اشاعت کو ممکن بنا سکیں۔اس کے علاوہ یہ بھی المیہ ہے کہ ہمارے ہاں رسائل کی اشاعت کا سازوسامان بھی مہنگا کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے لاگت بڑھ گئی ہے اور رسالے کو چلانا اب ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔تمام صوبائی حکومتیں اور وفاقی حکومت کو اس حوالے سے سنجیدہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جو رسائل آج کسی نہ کسی طرح سے اپنی اشاعت کو مسلسل بنا رہے ہیں، اُن کے مسائل کو کم کیا جا سکے۔ اس حوالے سے یہ ضروری قرار دے دیا جائے کہ ہر سرکاری ادارہ سال میں ایک خاص رقم کے اشتہارات لازمی ادب اطفال رسائل کو دیں گے تاکہ اُن کے مالی مسائل کم ہو سکیں اور بچوں کو بہترین ادبی مواد پڑھنے کو ملے سکے۔اس حوالے سے خاص طور پر Pakistan State Oil,State Life of Paksitanاورنیشنل بنک آف پاکستان جیسے اداروں کو ضرور آگے آنا چاہیے تاکہ جو رسائل آج شائع ہو رہے ہیں، اُن کو کم سے کم اشاعت کے حوالے سے مسائل نہ ہو۔
راقم السطور کے علم میں آیا ہے کہ بھارت میں ادب اطفال کے رسائل کے لئے خاص طور پر یہ طریقہ کار اپنا یا گیا ہے کہ رسالے کی اشاعت کا تقریبا75%خرچہ حکومت اپنے ذمہ لیتی ہے تاکہ اُن کی مسلسل اشاعت ممکن ہو سکے اور یہاں حیرت انگیز بات یہ بیان کرنے والی ہے کہ یہ رسال زیادہ تر اُردو زبان میں ہی شائع ہوتے ہیں۔ پاکستان کی تو قومی زبان ہی اُردو ہے جس کی ترویج و ترقی کے لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ یہاں سے شائع ہونے رسائل کو کم سے کم بھرپور اشتہارات دیئے جائیں تاکہ وہ بچوں کی کردار سازی اور تعلیم وتربیت کے ساتھ اُن کو بہترین تفریح بھی مہیا کر سکیں۔اُردو زبان کو سیکھنے اور لکھنے کے لئے یہ رسائل بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔دوسری طرف یہ ہمارے ہاں انگریزی زبان کے تعلیمی اداروں سے پڑھنے والوں کے لئے بھی بے حد کارآمد ہیں جو کہ اُن کو اُردو میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لئے خاطر خواہ الفاظ اورجملے بولنے میں مدد دیتے ہیں۔
اکادمی ادبیات پاکستان اور نیشنل بک فاؤنڈیشن کو رسائل کی بقاء کی خاطر مالی تعاون کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ بچوں کو معیاری تفریح کی فراہمی ممکن ہوتی رہے۔یہاں یہ بات افسوس ناک ہے کہ ہمارے ہاں کوئی وزارت اطفال نہیں ہے جو کہ بچوں کی تعلیم، مسائل اورتفریح کے حوالے سے اقدامات کرے۔اب یہاں تک تو راقم السطور کے علم میں بھی آچکا ہے کہ ایک بار سرکاری طور پر روپے ایک سرکاری ادارے کو ملے تاکہ ادب اطفال کے لئے اُسے کام میں لایا جا سکے مگر افسوس یہ ہوا کہ اُس کو واپس ہی سرکاری خزانے میں جمع کروانا پڑا، اسکی وجہ یہ تھی کہ اُن کے ہاں کوئی ایسا شعبہ نہیں تھا جو ادب اطفال کے لئے بھرپور طور پر کچھ کر سکتا۔
ہالی ووڈ میں غالبا یہ ضروری ہے کہ وہاں پر اداکار کسی بھی بچوں کی فلم میں کام کریں یعنی یہ شرط لازم رکھی گئی ہے کہ آپ کو کام کرنا ہے۔ اسی طرح سے مشہور بھارتی اداکار جیسے عامر خان بھی بچوں کے لئے بنائی گئی فلم میں کام کر چکے ہیں، ہمارے ہاں بھی کچھ ایسا کم سے کم سرکاری طور پر ہونا چاہے کہ تمام سرکاری ادارے چاہے وہ صوبائی سطح کے ہوں یا وفاقی سطح کے وہ ادب اطفال کے رسائل کے لئے اشتہارات جاری کریں، اُس دور میں جب مہنگائی کی وجہ سے کتب تک مہنگائی ہوگئی ہیں کم سے کم بچوں کو رسائل تو کم قیمت میں ملنے چاہیے۔
بچے ہمارے مستقبل کے معمار ہیں اگر آج ہم اُن کے لئے نہیں سوچیں گے تو پھر کون سوچے گا؟ہمیں اس حوالے سے سوچنا ہے اور پھر عمل کی طرف جانا ہے کہ تعلیم وتفریح ہر بچے کا بنیادی حق ہے اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ بطریق احسن اس کو نبھائے۔
|