مشاعروں نے اردو شاعری کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا
ہے،اردو شاعری زبان زد خاص و عام انہی کی بدولت ہوئی ہے،ان ہی سے اردو
شاعری کے مداحین اور فنکاروں کی بڑی کھیپ تیار ہوئی،مشاعروں کے ذریعہ شعراء
کی تربیت کی گئی ،انجمن تحریک پنجاب کے مشاعرے اِس کی بین مثال ہیں ، تنقید
بھی مشاعرے کی کوکھ سے پیدا ہوئی، اگر چہ اس کے معیار اصول وضوابط تدریجاً
پختہ ہوئے ہیں ، البتہ اس حقیقت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ تنقید کی خشت
اول مشاعروں میں ہی رکھی گئی تھی،وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مشاعروں کے معیار
میں تبدیلی واقع ہوئی،شعراء کے ایک طبقہ نے عوام کے جذبات سے کھیلنے اور
اپنی دکان چمکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اس کے لئے اردو شاعری کا گلا
گھوٹنے تک سے گریز نہیں کیا،شعراء کا ایک طبقہ تو اجہل ہونے کے باوجود اردو
مداحین کی بناء پر شہرت بھی پاگیا اور دولت مند بھی بن گیا۔ اس سب کے
باوجود بلا تردد اس حقیقت کو تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ اردو مشاعرے لوگوں کو
اردو شاعری کی جانب راغب کرتے ہیں،زبان کی لذت و حلاوت سے واقف کراتے
ہیں،اور اردو مشاعرے کے اسٹیج سے آج بھی ایسی آوازیں بلند ہو رہیں ہیں، جو
اردو شاعری کا حسن و وقار ہیں، ان میں امجد اسلام امجد، مظفر حنفی، راحت
اندوری، منور رانا اور وسیم بریلوی کا نام قابل ذکر ہے، ان لوگوں نے اردو
شاعری کے وقار کو مشاعروں کے اسٹیج پر بھی مجروح نہیں کیا ہے، ان کو اردو
شاعری میں اہم مقام حاصل کیا ہے۔
راحت اندوری نے اردو مشاعرے کے اسٹیج پر اپنی شناخت قائم کی ہے، وہ جس
مشاعرے میں شریک ہوتے اس کی ترقی کے ضامن ہوتے تھے ، شاعری کے ساتھ ساتھ ان
کے شعر کہنے کا انداز بھی انفرادیت کا حامل تھا، پورا جسم ان کے شعر میں
شریک ہوتا تھا، آنکھوں کے تاثرات چہرے پر ابھرنے والے نقوش، آواز کا زیر و
بم ہاتھوں کے اشارات سامع کو مسحور کردیتے تھے، اور راحت اندوری پر سے نگاہ
ہٹنے کو تیار نہیں ہوتی تھی، اس کے ساتھ ساتھ حاضر جوابی میں وہ باکمال تھے،
بر محل الفاظ اور جملوں کا استعمال انہیں بخوبی آتا تھا، جو سامعین کو
باندھے رکھتا تھا،اس ضمن میں مجھے کھتولی کا وہ مشاعرہ یاد آتا ہے، جس میں
معین شاداب نظامت کر رہے تھے، انہوں نے راحت اندوری کو شعر پڑھنے کے لئے
مدعو کیا اور ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کے شعر پڑھنے کے طریقہ کی بھی
تعریف کی، شعر کہنے کے ان کے اسٹائل کو سراہا، جو درست بھی تھا،اس پر راحت
اندوری نے آتے ہی ان کو مخاطب کیا، اور کہا کہ ’’بیٹا میں چالیس برس سے
یہاں مشاعرے پڑھ رہا ہوں، جب یہ ٹنکی اس میدان میں نہیں تھی تب سے مشاعرے
پڑھ رہا ہوں، بس ہمارے پاس اسٹائل ہی ہے اشعار نہیں ہیں‘‘ لوگوں کو اپنی
طرف متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ تاثر بھی قائم کیا ہے کہ ان کا شعر کسی
اسٹائل کا محتاج نہیں ہے، حالانکہ بلاشبہ یہ بات کہی جاسکتی ہے، وہ ایک
گریٹ پر فارمر تھے، اُن کے اشعار سننے والا اُن کے لب و لہجے کا بھی گرویدہ
ہوجاتا تھا، اور مشاعرے کے بعد کئی دنوں تک اس لہجہ کی نقل کرتا ہوا نظر
آتا تھا، اِس انداز کو ان کے بعد کوئی دوسرا نقل نہیں کرسکا، حالانکہ اس سے
راحت اندوری کی شعری خصوصیات پر حرف نہیں آتا ہے، ان کے اشعار، الفاظ کا
انتخاب، موضوعات، ان کی شعری خصوصیات کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہیں۔
راحت اندوری کی شاعری میں مختلف رنگ ہیں، انہوں نے مشاعروں کی نزاکت اور
ضرورت کو بھی بڑی خوبی سے سمجھا اور شاعری کے لئے وہ موضوعات منتخب کئے، جو
مشاعروں کی ضرورت تھے،مسلمانوں کی تعریف کی ،ان کی ڈاڑھیوں اور ٹوپیوں کو
موضوع گفتگو بنایا،قرآن اور اصحابِ قرآن کی تعریف کی،عالم اسلام کے وہ
حکمراں جن سے لوگ محبت کرتے ہیں،ان کی شجاعت و بہادری کو اشعار میں پیش
کیا،صدام اور عراق بھی ایک زمانے میں ان کی شعروں کا موضوع رہے،جس پر
مشاعرے کے سامعین جھوم جھوم جاتے تھے،اور واہ واہ کی صدائیں مشاعرہ گاہ میں
گونجنے لگتی تھیں،ان اشعار میں تخیل کی بلندی تو کم ہی ہوتی تھی،البتہ جذبے
کی صداقت اور شاعر کی بے باکی و حق گوئی اور اعتماد شعر کو دلچسپی کا موضوع
بنادیتے تھے،حالانکہ جوں جوں ان کا شعری سفر آگے بڑھتا رہا ان کے کلام میں
پختگی آتی گئی، اور تخیل کی بلندی موضوعات کا تنوع ان کی شاعری میں نظر آنے
لگا، جس کا تذکرہ ادبی حلقوں میں بھی ہوا،حالانکہ وہ ناقدین کے بڑے طبقے کی
نگاہوں میں معتبر نہیں ہوئے، مظفر حنفی عنوان چشتی اور فارق بخشی جیسے چند
افراد نے ان کا حوصلہ بڑھایا،اور ان کے اشعار کی اور شعر کہنے کے انداز کی
تعریف کی،اور خود انہوں نے اپنے اشعار اس حقیقت کا اظہار کیا اور بازاری
لہجے سے اجتناب کی کوشش کی:
لے تو آئے شاعری بازار میں راحتؔ میاں
کیا ضروری ہے کہ لہجے کو بھی بازاری رکھو
انہوں نے عوامی موضوعات کو اپنی شاعری میں بڑی خوبی سے پیش کیا، اور داد کی
پروا کئے بغیر حقائق کو شعری پیکر میں ڈھالا سماج و معاشرے کے احوال کو
شاعری کا موضوع بنایا ہے، انسانوں پر ہو رہے ظلم و ستم کو شعری پیکر میں
ڈھالا ہے، سیاست کی خامیوں کو پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کیا ہے، اپنے
اشعار کے ذریعے سیاست کو آئینہ دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے، ان کی شاعری
میں ترقی پسند عناصر بخوبی نظر آتے ہیں، غریب مفلس اور کمزوروں کی آواز نظر
آتی ہے، جو ان کی شاعری کو دلچسپ بناتی ہے۔
جب جی چاہے موت بچھا دو بستی میں
لیکن باتیں پیاری پیاری کیا کرو
نئے کردار آتے جاتے ہی رہے ہی
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے
شہر کیا دیکھیں کہ ہر منظر میں جالے پڑ گئے
ایسی گرمی ہے کہ پیلے پھول کالے پڑ گئے
خیال تھا کہ یہ پتھراؤ روک دیں چل کر
جو ہوش آیا تو دیکھا لہو لہو ہم تھے
راحت اندوری عشق و فلسفۂ عشق اور تصوف کو بھی اپنی شاعری میں پیش کرتے
ہیں، وہ چاند کو چھت بلانے کی خواہش بیدار کرتے ہیں، عشق کرنے کی تلقین
کرتے ہیں، خوشبو کا بیوپار کرنے کی صلاح دیتے ہیں، دھڑکنوں کی آواز کو
عبادت میں خلل کا باعث گردانتے ہیں،مشاعرہ کا اسٹیج جہاں لوگ مذہبی تعصب کو
ہوا دے کر اپنی دکان چلاتے ہیں،وہاں راحت اندوری نے عشق و محبت کے نغمہ
بکثرت گائے ہیں،عشق ومحبت کو اپنی شاعری میں مرکزی جگہ دی ہے،محبوب سے ملنے
کی خواہش ہجر کی تلخیاں، وصل کی لذت،عشق کے مسائل،محبوب کی ادائیں و دلکشی
عشق کی عظمت ان کی شاعری کے اہم موضوعات ہیں،انہوں نے استعاراتی انداز میں
بھی ان موضوعات کو بڑے خوبرو انداز میں پیش کیا ہے،جس کے باعث ان کی شاعری
کا معیار مزید بلند ہوگیا ہے :
اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے
اک نہ اک روز کہیں ڈھونڈ ہی لوں گا تجھ کو
ٹھوکریں زہر نہیں ہیں کہ میں کھا بھی نہ سکوں
سورج ستارے چاند مرے ساتھ میں رہے
جب تک تمہارے ہاتھ مرے ہاتھ میں رہے
اک ملاقات کا جادو ہے کہ اترتا ہی نہیں
تری خوشبو مری چادر سے نہیں جاتی ہے
راحت اندوری کی شاعری میں زندگی و موت کا فلسفہ بھی ہے، زندگی کے مسائل بھی
اور ان سے لڑتے ہوئے انسانوں کے لئے حوصلہ بھی، بے روزگاری کی پریشانیاں
بھی ہیں،زندگی بسر کرنے کے لئے حوصلہ بھی،وہ ملک کے احوال سے پریشان بھی
ہیں اس پر تبصرہ بھی کرتے ہیں،اس کے باوجود وطن کی محبت ان کی شاعری میں
نمایاں طور نظر آتی ہے،وہ پیار و محبت اور مساوات کی فضا قائم کرنا چاہتے
ہیں، قومی یکجہتی اتحاد و اتفاق ان کے شاعری کا نمایاں پہلو ہے،حق گوئی
انہیں پسند ہے،جس کے لئے وہ کوئی قیمت نہیں چاہتے ہیں،راحت اندوری نے ان
موضوعات کو اتنے خوبصورت طریقے سے برتا ہے کہ ان کے بعض اشعار کہاوتوں کی
طرح زبان زد خاص و عام ہوگئے ہیں۔
دنیا چھوڑنا منظور لیکن
وطن کو چھوڑ کر جانے کا نئیں
ہم اپنی جان کے دشمن کو اپنی جان کہتے ہیں
محبت کی اسی مٹی کو ہندستان کہتے ہیں
میں مر جاؤں تو میری ایک الگ پہچان لکھ دینا
لہو سے میری پیشانی پہ ہندستان لکھ دینا
راحت اندوری کی شاعری پر اگر چہ ناقدین نے توجہ نہیں دی ہے، لیکن اس بات کو
یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ان کے اشعار قارئین تک پہنچنے کے لئے کسی
سہارے کے محتاج نہیں ہیں، انہوں نے اپنی شاعری کے دم پر عوام کے دلوں کو
جیتا، ان کے قلب و ذہن پر حکمراں ہوگئے اردو مشاعرے کی دنیا میں ان کو
بآسانی بھلایا نہیں جاسکے گا، اردو شاعری کی روایت بھی ان کے تذکرہ سے خالی
نہیں ہوگی ، جون ایلیا کے بعد ان جیسا شعر پڑھنے والا اردو مشاعروں کے
اسٹیج پر کب آئے، اس کا انتظار بھی بڑا سخت ہوگا۔
|