سرزمین دکن کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس نے روز اول سے ہی
اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں، نثر اور
نظم دونوں اصناف سخن اس کی گود میں کھیلی اور اس کے دیار میں پروان چڑھی
ہیں ، دکن میں ہی اردو شاعری نے ارتقائی مراحل طے کئے،غواصی، ولی اور سراج،
جیسے عظیم شعراء کا خمیر اسی خاک سے تیار ہوا تھا،اردو زبان و ادب کی تاریخ
میں کوئی دور ایسا نہیں ہے، جس میں دکنی ادباء و شعراء نے زبان کی نوک و
پلک سنوارنے میں کوتاہی برتی ہو ، ہر عہد میں اس سرزمین پر اردو ادب کی
نمائندہ شخصیات پیدا ہوتی رہیں اور اصناف ادب کا معیار و وقار بلند کرتی
رہیں ہیں ،عہد حاضر بھی ایسی شخصیات سے خالی نہیں ہے،سرزمین دکن کے فرزندان
آج بھی زبان و ادب کی خدمت میں مصروف ہیں، دکن کی سرزمین پر حمایت علی پیدا
ہوئے، حمایت علی نے اورنگ آباد کے ایک متوسط گھرانے میں آنکھیں کھولیں،
جہاں علم وادب کی قندیلیں روشن نہیں تھیں،البتہ دین و مذہب کے تقاضوں پر
عمل پیرا اور شرعی اقدار کے قدردان اس گھرانے میں موجود تھے، دادا فوج میں
تھے، والد مسائل زندگی سے مقابلہ کرتے ہوئے پولیس کی نوکری حاصل کرنے میں
کامیاب ہوگئے تھے، البتہ انہیں اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرپانے کا احساس شدت کے
ساتھ تھا، ادب، زبان، شاعری سے اس خانودہ کو کوئی سروکار نہیں تھا، وہاں
میر وغالب کے قصیدہ خاں نہیں تھے، ادبی ذوق کے حامل افراد نہیں تھے، حمایت
علی نے اس گھرانے میں پرورش پائی مشکل ترین حالات کا مشاہدہ کیا، تین سال
کی عمر میں والدہ کا سایہ عاطفت سر سے جدا ہوگیا اور زمانے کی سخت ترین
دھوپ حمایت علی کو پیہم جھلساتی رہی، لیکن وہ ہمت و حوصلہ کے بل پر زندگی
کا سفر طے کرتے رہے،تعلیم حاصل کرنے کے لئے محنت و مشقت کرتے رہے، ان کی یہ
محنت رنگ لائی اور آعلی تعلیم کے حصول کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگیا ، جو
خواب ان کے والد کی آنکھوں میں سجتا تھا، لیکن وہ اس خواب کی تعبیر تلاش
نہیں کر پائے تھے، حمایت علی نے سندھ یونیورسٹی سے ایم اے کیا، وہ پی ایچ
ڈی کرنا چاہتے تھے، لیکن حالات نے ان کے قدموں میں بیڑیاں ڈال دیں، اور
ذہنوں دماغ کے لئے دوسری مصروفیات پیدا کردیں۔ تعلیم سے فارغ ہوکر حمایت
علی نے عملی زندگی میں قدم رکھا، انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز بطور
صحافی کیااور دو اخباروں میں یکے بعد دیگرے ملازم رہے، اس کے بعد ان کی
لیاقت کی وجہ سے انہیں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت مل گئی، لیکن حمایت علی
کی زندگی کی کشمکش اتنی مختصر کہاں تھی، ابھی تو بہت سے پیچ و خم تھے بہت
سی گتھیاں تھیں، جو زمانے کی گردش میں آنکھوں سے اوجھل تھیں ان کو حمایت
علی کو سلجھانا تھا ،اور مسائل زندگی سے نبرد آزما ہونا تھا، چنانچہ آل
انڈیا ریڈیو سے ملازمت ترک کرنے کے بعد حمایت علی کی زندگی میں ایک مرحلہ
ایسا بھی آیا، جہاں آرزوئیں دم توڑ دیتی ہیں، خواب چکنا چور ہوجاتے ہیں،
لیکن حمایت علی نے اس مرحلہ کو بھی سر کیا اور اپنی بے روزگاری کا حل تلاش
کیا، اور اخبار بیچنے نکل پڑے، چنانچہ اخبار بیچ کر انہوں نے اپنی زندگی کے
شب و روز بسر کئے،اور تعمیر مستقبل کے خواب بھی بنتے رہے، ان خوابوں کی
تعبیر عملاً بھی تلاش کرتے رہے،ہمیشہ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا خیال ان
کے ذہن کو محنت پر آمادہ کئے رہا، انہوں نے حوصلہ رکھا، احساس کمتری سے
اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو بچانے کی کامیاب سعی کی، وطن عزیز کو ترک کیا،
کراچی میں ملازمت تلاش کی، اور صحافتی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا، 1960 میں
فلمی دنیا میں قدم رکھا، اور اپنی حیثیت و وقعت ثابت کی، گیت اور مکالمے
تحریر کئے، ریڈیو میں ملازم رہے، انا کے زیور کو کبھی ٹھیس نہیں لگنے دی،
مختلف اداروں میں ملازمت کی، اور زندگی کی سختیوں کو رام کیا،جب انہیں
احساس ہوا کے فلمی دنیا میں کام کرنا ان کے شایان شان نہیں ہے، اس میدان
میں ان کا فن ترقی نہیں کرپائے گا، تو انہوں اس دنیا کو خیر آباد کہہ دیا
اور صحافتی خدمات جاری رکھیں۔
حمایت علی کی زندگی محنت، جدو جہد، صبر، حوصلہ، کی علامت ہے، انہوں نے
زندگی کی تلخیوں اور کڑواہٹوں کو آب حیات کی طرح پی لیا اور زندگی کے ہر
موڑ پر سرخ رو ہوئے، بیٹوں کو کامیابی کی منازل سے ہمکنار کیا، ان کی تعلیم
و تربیت میں کوتاہی نہیں کی،انہیں اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا، 93 سال تک
دنیا میں رہے، طویل عمر گذار کر رخصت ہوئے، اس طویل عمر کے باوجود ان کے
محبین کی تعداد ہمیشہ بڑھتی رہی، ان کے مداحوں اور ادبی حلقوں میں ان کی
وفات کی خبر بجلی بن کر گری، ادب کے طلبہ نے ان کی جدائی کا غم محسوس کیا،
جو ان کی کامیابی کی دلیل ہے، آج بھی وہ ادب میں موجود ہیں، اور ہمیشہ
موجود رہیں گے:
میں آج تم میں ہوں موجود کل نہیں ہوں گا
مگر جو تم ہو میں ہو سدا سلامت بھی
حمایت علی نے ادبی دنیا میں بطور افسانہ نگار قدم رکھا، اور حمایت علی تراب
قلمی نام منتخب کیا، تراب چونکہ ان کے والد کے نام تھا، اس لئے انہوں نے
تراب تخلص اختیار کیا، بعد میں والد کی ناراضگی کی وجہ سے حمایت علی شاعر
ہوگئے، اور شاعری کی دنیا میں قدم رکھا۔
حمایت علی شاعر کی شاعری میں زندگی کا عکس بخوبی دکھائی پڑتا ہے، غم حیات
کی تلخیوں سے انہوں نے اپنی شاعری کی خوبصورتی کو دوچند کیا ہے، اور اس
خوبی سے انہوں نے اس کیفیت کو اپنی شاعری میں سمویا ہے کہ وہ فرد کا غم
نہیں بلکہ سماجی غم کی شکل اختیار کر گیا ہے،حمایت علی شاعر کی زندگی جن
مسائل سے دوچار رہی سماج میں بہت سے افراد ان مسائل کو جھیلتے ہیں، کچھ ٹوٹ
کر بکھر جاتے ہیں، کچھ مقابلہ کرتے ہیں، اور مسائل کا حل تلاش کرلیتے ہیں،
حمایت علی شاعر نے زندگی کی اس کشمکش کو اپنی شاعری کا بنیادی موضوع بنایا
ہے اور اس خوبصورتی کے ساتھ زندگی کے تلخ ترین پہلوؤں کو شاعری میں برتا ہے
کہ وہ سماج کی گرتی ہوئی اقدار کا مرثیہ ہی نہیں ہیں بلکہ اس سے حوصلہ و
ہمت کے پہلو بھی تراشے ہیں ، ان کی شاعری حالات کے مارے ہوئے افراد کو اپنے
دل کی آواز اور اپنی زندگی کی کہانی معلوم ہونے لگی ہے، یہ حمایت علی شاعر
کی اہم ترین خصوصیت ہے جس کے باعث ان کی شاعری کو ترقی اور وسعت حاصل ہوئی
ہے،حالانکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے،کہ ان کی شاعری فیض اور
ان کے معاصرین کے معیار کی حامل نہیں ہے، ان کا دائرہ محدود ہے اور فکر و
فن کی بلندی مخصوص ہے،البتہ وہ اپنے دائرہ میں پوری طرح کامیاب ہیں، جو
کہتے ہیں، دل کی گہرائیوں سے کہتے ہیں اور قارئین کے دلوں تک پہنچتے ہیں،
سادگی ان کے فن کی خصوصیت ہے، الفاظ کے استعمال پر انہیں قدرت حاصل ہے،چند
اشعار ملاحظہ فرمائیں:
روٹی کے لئے طاق پے رکھ دوں گا کتابیں
جینا مجھے اس طرح گنوارا تو نہیں تھا
گردش میں زندگی بسر کر رہا ہوں میں
سورج کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا ہوں میں
ایک جبر وقت ہے کہ سہے جارہے ہیں ہم
اور اس کو زندگی بھی کہے جارہے ہیں ہم
اس طرح کے بہت سے اشعار ان کی شاعری میں موجود ہیں، جس میں زندگی کے مسائل
و مصائب درد و غم کیفیات عیاں ہوتی ہیں، اور یہ شخص واحد کی کہانی نہیں
بلکہ پورے معاشرے کی سچی تصویر کشی محسوس ہوتی ہے، حمایت علی شاعر کے کلام
میں سماج کی صورت حال بھی جلوگر ہوتی ہے، انسان کن مسائل سے نبرد آزما ہے،
حالات کس محور پر گردش کر رہے ہیں، اس کا انہیں بخوبی علم ہے اور ان حقائق
کو وہ شاعری کے پیکر میں ڈھالنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں،اپنی شاعری کا
تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’میری شاعری کو آسانی سے تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، غم جاناں، غم
وطن، اور غم کائنات‘‘(میں اور میرا فن صفحہ ۲۴ آگ میں پھول)
یہی غم کائنات ہے، جس کا مطالعہ کبھی غم حیات کا روپ دھارتا ہے، کبھی غم
کائنات کی شکل اختیار کرتا ہے اور کبھی سماج کی صورت حال پر مرثیہ کا روپ
لے لیتا ہے، اس غم میں درد و کرب کی بے چینی بھی ہے، سوچ و فکر کا تلاطم
بھی، تکالیف و مسائل پر چیخ بھی ہے اور صبر و ضبط کا پہلو بھی، جو حمایت
شاعر کی آواز کو توانائی عطا کرتا ہے:
وہ عہد ہے کہ لفظ سے معنی بچھڑ گئے
روئیں دوئی کو کیا کہ اکائی دو نیم ہے،
رہنے کی یہ جگہ تو نہیں ہے مگر یہاں
پتھر بنے ہوئے ہیں اور رہے جارہے ہیں
غم عشق کا نقشہ کھینچنے میں بھی انہوں نے فنی چابک دستی اور مہارت کا ثبوت
دیا ہے، چونکہ غم عشق کا تعلق ان کی افتاد طبع مطالعے اور فکر کی کیفیت سے
نہیں ہے، بلکہ حقیقت سے ہے، جس کا انہوں نے ان الفاظ میں اعلان کیا ہے:
’’غم جاناں کے زمرے میں جو تخلیقات شامل ہیں ان میں یقینا میرا ذاتی غم
موضوع شعر ہے، لیکن میں کوشش کی ہے کہ میرا ذاتی غم میرا نجی غم بن کر نا
رہ جائے۔‘‘(آگ میں پھول، صفحہ ۲۴)
حمایت علی شاعر کے یہ الفاظ بتارہے ہیں کہ وہ احوال زندگی سے عطر کشید کرکے
اپنے فن کو خوشبو عطا کرتے ہیں، اُن کی شاعری میں حیات کے مختلف پہلوؤں کا
عکس نمایاں ہے، جس کی غمازی ان کے الفاظ و اشعار دونوں کرتے ہیں، غم جاناں
کے تذکرے میں اس کا لطف دوبالا ہوگیا ہے،وقت کے ساتھ ساتھ حمایت علی شاعر
کا فن مزید پختہ ہوتا گیا، انہوں نے نظم کے ذریعے بھی اپنے احساسات و جذبات
کی عکاسی کی اور حالات و واقعات کے اثر کو بھی نظم کا پیرہن عطا کیا، انہوں
مسائل کائنات کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا، انسانیت سوز واقعات کی مذمت
کی، کائنات کے حسن کو زائل کرنے والی جنگوں کی مذمت کی، تمثیلی انداز میں
حیات انسانی کو موضوع بنایا، ان کی افسانوی طرز میں لکھی گئی نظمیں خاصے کی
چیز ہیں جن میں ’’بنگال سے کوریا تک‘‘ ’’حرف حرف روشنی‘‘ ’’مریم سے ایک
سوال ‘‘ ’’شکست کی آواز‘‘ ’’شعلہ بے دود‘‘ ’’بدلتے زاویے‘‘ ان کی اہم ترین
نظمیں ہیں جن کا مطالعہ ان کی تخلیقی صلاحیت انسانیت نوازی و ہمدردی اور
تاریخی معلومات کو عیاںکرتا ہے حمایت علی شاعر نے جہاں روایت کا دامن نہیں
چھوڑا ہے وہیں انہوں نے جدت کے حامل پہلوئوں پر بھی بھر پور توجہ دی ہے جس
کی جانب ان الفاظ میں اشارہ کرتے ہیں،
’’میں نے کوشش کی ہے میرا آئینہ پتھر نہ بن سکے اس آئینے میں چہرا بہ
چہرا وہ تسلسل برقرار ہے جو روایت میں جدت کا ضامن ہے‘‘ (حرف حرف روشنی
صفحہ ۱۰)
انہوں نے ایک نئی صنف اردو شاعری کو عطا کی جس میں تین مصرعوں میں بات مکمل
کی جاتی ہے اسی مناسبت سے اس کا نام ثلاثی رکھا جس کو انہوں نے پہلے تثلیث
کا نام دیا تھا لیکن عسائیوں کے عقیدئہ تثلیث کی وجہ سے اس کا نام ثلاثی
کردیا گیا یہ صنف انکا امتیاز ہے۔ مثال کے طور پر ایک ثلاثی پیش خدمت ہے۔
کس نے کمند پھینکی ہے روح الامین پر
میں سوچ ہی رہا تھا کہ دیکھا قریب ہی
بادل کا سایہ رینگ رہا تھا زمین پر
انہوں نے اپنی پسندیدہ علمی و ادبی شخصیات کی وفات پر انہیں منظم خراج
عقیدت بھی پیش کیا، جس سے ان کی محبت و عقیدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے،
نظم کے ساتھ ساتھ نثر میں بھی حمایت علی شاعر نے اپنی حیثیت ثابت کی ہے،
انہوں نے ڈرامے تحریر کئے، مضامین لکھے، تحقیقی میدان میں نمایاں خدمات
انجام دیں، نعت نبی کی تاریخ نے دنیائے تحقیق میں گرانقدر اضافہ کیا ہے، جس
کے لیے تاریخ انہیں ہمیشہ یاد رکھے گی۔
|