ارکانِ اسمبلی کے اثاثے اور اقبال رحمتہ اﷲ علیہ کا درویش

شیخ سعدیؒ ایک حکایت میں لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ میری ملاقات ایک مالدار سوداگر سے ہوئی جس کے پاس چالیس غلام اور خدمت گار اور بار برداری کےلئے 150اونٹ تھے جزیرہ کیش کے قیام کے دوران ایک رات وہ مجھے اپنے حجرے میں لے گیا اور اوٹ پٹانگ باتیں کرنے لگا کبھی کہتا میرا اتنا مال ترکستان میں ہے اور اتنا ہندوستان میں ، یہ میری فلاں زمین کا بیع نامہ ہے اور فلاں چیز کا فلاں آدمی ضامن ہے، کبھی کہتا کہ فلاں فلاں جگہ سے ہو آیا ہوں اب سکندریہ جانے کا ارادہ ہے کہ وہاں آب وہوا خوش گوار ہے ، پھر کہتا کہ نہیں وہاں کا سمندری سفر خطرناک ہے اے سعدی اب ایک سفر باقی ہے اگر وہ بھی کر لوں تو باقی عمر گوشہ قناعت میں بیٹھ کر اللہ اللہ کروں گا ، شیخ سعدی ؒ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ وہ کون سا سفر ہے ؟ تو وہ کہنے لگا کہ میں فارس کی گندھک چین لے جانا چاہتا ہوں کیونکہ میں نے سنا ہے کہ وہاں اس کی بہت قیمت ہے ، چین سے برتن خرید کر روم بھیجوں گا ، روم کا ریشم ہندوستان میں ، ہندوستان کا فولاد حلب میں ، حلب کا شیشہ یمن میں اور یمن کی چادریں فارس میں بھیجوں گا اس کے بعد سفر ترک کر کے ایک دکان پر بیٹھ جاﺅں گا ۔ غرض وہ ساری رات ایسی مضحکہ خیز اور بے ہودہ باتیں کرتا رہا یہاں تک کہ مزید بک بک کرنے کی طاقت نہ رہی اب وہ مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا ۔ سعدی تم بھی کچھ کہو ، آخر دنیا میں تم نے بھی بہت کچھ دیکھا سنا ہے میں نے کہا ۔

”تم نے سنا ہو گا کہ ایک دفعہ غور کے صحرا میں ایک مالدار خچر پر سے گر پڑا اور اس نے بے کسی کے عالم میں کہا ۔۔۔دنیا دار کی حریص آنکھ کو قناعت بھر سکتی ہے یا قبر کی مٹی ۔۔۔۔

قارئین! آج علامہ اقبالؒ کا یوم وفات ہے اور اتفاق کی بات ہے کہ آج کل میں ہی ہمارے معزز اراکین اسمبلی ہمارے نمائندوں نے اپنے اثاثہ جات ڈکلئیر کیے ہیں اور قیادت کے متعلق حکیم الامت علامہ اقبال ؒ کے جو افکار تھے ان سے ہمارے معزز نمائندے کوسوں دور ہیں یہ اتفاق کی بات ہے کہ علامہ اقبال ؒ کے یوم وفات کے موقع پر یہ اثاثے منظر عام پر آئے ہیں یہاں اراکان اسمبلی کی جرات کو داد دینے اور حوصلے کو سلام کرنے کا جی چاہتا ہے جنہوں نے اپنی غربت اور مفلسی کا ایسا ذکر بھی کیا ہے کہ 18کروڑ پاکستانی ان کی امداد کےلئے چندہ جمع کرنے پر بھی غور کر رہے ہیں اور چند ارکان اسمبلی نے اپنے اثاثہ جات کی جو مالیت ظاہر کی ہے اس پر جو ٹیکس قوم کے خزانے میں جمع کروایا جا رہا ہے اس پر بھی کئی سوالیہ نشان ناچ رہے ہیں ۔۔۔
”محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائیگی “

یہاں علامہ اقبالؒ کے یوم وفات پر یہ پیغام پھر سے یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ
وہ حرف راز مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں
خدا مجھے نفس جبرائیل ؑ دے تو کہوں
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخئی افلاک میں ہے خوار و زبوں
عجب مزا ہے مجھے لذت ِ خودی دے کر
وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے آپ میں نہ رہوں
ضمیرِ پاک ونگاہ بلند و مستی و شوق
نہ مال و دولت ِقاروں ، نہ فکر ِ افلاطوں
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں

قارئین! شیخ سعدی ؒ کی ایمان افروز حکایت سے یہ سبق ملتا ہے کہ کسی لالچی انسان کی آنکھ اور پیٹ صرف اور صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے جبکہ نیک روحوں کی غذا قناعت ہے ہمارے نمائندے اور ہمارے ارکان اسمبلی ہمارے ہی خون سے جلنے والے تیل سے اپنے گھروں میں چراغاں کر رہے ہیں فرانس سے لیکر برطانیہ تک اور امریکہ سے لیکر بیلجیم و سوئیٹزرلینڈ تک رہائشی مکانات ، فارم ہاﺅسز ، مختلف کاروباروں کے ساتھ ساتھ بینکوں میں موجود ہمارے عوامی خادموں کی اربوں ڈالروں کی دولت اس عوام اور ملک کا اثاثہ ہیں جنہیں کرپشن کے ذریعے انفرادی ارتکاز کا شکار کر دیا گیا ہے علامہ اقبالؒ نے اسلام کے اسی تصور ِمعیشت کو اپنی شاعری اور تحریروں کے ذریعے پوری دنیا کو دیا تھا اور اسی کا پیغام جلیل القدر صحابی ؓ رسول حضرت ابوزر غفاریؓ اپنی پوری زندگی دیتے رہے کہ اپنی ضرورت سے زائد جو بھی سرمایہ ہے اسے انفرادی ارتکاز کا شکار کرنے کی بجائے ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا جائے اور اسی تصور ِ درویشی کی عملی شکل خلفائے راشدین ؓ کے ادوارِ حکومت میں دکھائی دی کہ لوگ زکوةٰ دینے کےلئے ضرورت مندوں کو ڈھونڈتے تھے اور ضرورت مند نہ ملتا تھا ۔۔۔

قارئین! اگر ہمارے حکمران اور سیاست دان یہ چاہتے ہیں کہ 18کروڑ پاکستانی و کشمیری واقعی ایک بہتر زندگی گزاریں تو انہیں عوام کو اردو اور انگریزی زبان میں تقریروں کے ذریعے درویشی کی طرف مائل کرنے کی بجائے سب سے پہلے خود درویشی اختیار کرنا ہو گی اور ابوبکر صدیق ؓ ، عمر فاروقؓ ، عثمان غنی ؓ ، علی المرتضیٰ ؓ اور عمر بن عبدالعزیزؓ سے طرز حکمرانی سیکھتے ہوئے ان کی پیروی کرنا ہو گی ورنہ ان کا حال شیخ سعدیؒ کی حکایت والے لالچی تاجر جیسا ہو گا جس کا پیٹ اورآنکھیں قبر کی مٹی ہی بھرے گی ۔۔۔

قارئین! اگر پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام یہ چاہتے ہیں کہ ان کے حاکم ان کے خادم ہوں اور وہ اقبالؒ کا درویش بن کر قوم کی خدمت کریں تو انہیں ووٹ کے ذریعے اپنے ہی جیسے لوگوں کو منتخب کرنا ہو گا جو دیانتدار بھی ہوں اور قیادت کی اہلیت بھی رکھتے ہوں ورنہ ہر سال الیکشن کمیشن کو ایسے ہی بوگس اثاثے پیش کیے جاتے رہیں گے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن جیسے ادارے بھی ٹوٹتے رہیں گے تاکہ وہ ہمارے معزز حکمرانوں کی جعلی ڈگریوں کو نہ پکڑ سکیں۔۔۔

اس وقت آزاد کشمیر میں تیس لاکھ سے زائد باشعور ووٹرز کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ پاکستان مسلم لیگ ن ، پاکستان پیپلزپارٹی ، مسلم کانفرنس ، جماعت اسلامی ، لبریشن لیگ ، محاذ رائے شماری ، لبریشن فرنٹ اور دیگر انگنت جماعتوں میں سے دیانتدار اور اہل ترین قیادت کو منتخب کریں یہی ایک ایک ووٹ آج کشمیری قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے اور پاکستان میں بھی قیادت کی تبدیلی کی سوچ کو مہمیز کر سکتا ہے اور یہی ووٹ غلط استعمال کیا گیا اور پٹی ہوئی قیادت دوبارہ برسر اقتدار آگئی تو 63سال سے جاری ظلم و ستم کا نظام مزید پانچ سال جاری رہے گا ۔ ۔۔فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔۔۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔۔
ایک بے روزگار صاحب نے اپنے دوست سے کہا ۔
”میں دس ہزار روپے پر ایک ملازم رکھ رہا ہوں جو میرے تمام مسئلے حل کر دے گا “
دوست نے حیران ہو کر پوچھا ۔
”لیکن آپ یہ دس ہزار روپے کہاں سے لائیں گے “
وہ صاحب اطمینان سے بولے ۔
”یہ مسئلہ بھی اسی نے حل کرنا ہے “

ہمیں اپنے مسئلے خود حل کرنا ہوں گے باہر کی کوئی بھی قوت ہمارے مسائل کبھی بھی حل نہیں کریگی ۔۔۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 344829 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More