یوم نسواں : خواتین پر مظالم کی الم ناک داستان

عالمی سطح پر 8 مارچ کو یوم خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر خواتین کے حوالے سے بہت ساری تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اس سال یوم نسواں کا شاید ہی کوئی ایسا پروگرام ہو جس میں احمد آباد کی عائشہ کا ذکر نہ کیاجائے ۔ عائشہ کی دردناک خودکشی نے خواتین پر مظالم کے خلاف بحث و مباحثہ کو ایک نیا عنوان عطا کر دیا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کا دائرۂ کار جہیز تک محدود کرکے رکھ دیا گیا حالانکہ وہ بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عائشہ نے خودکشی کرکے ان تمام تنکوں کو بھی غرقاب کردیا کہ جن کے سہارے خواتین پر ہونے والے مظالم کے خاتمے کا خواب دیکھا جارہا تھا۔ ایک بات یہ کہی جاتی تھی کہ ہندوستانی معاشرے میں جہالت بہت ہے اور مسلمان اس معاملے میں دیگر اقوام سے دو قدم آگے ہیں۔ اس لیے اگر تعلیم کی روشنی آئے گی تو مظالم کا گھٹا ٹوپ اندھیرا اپنے آپ چھٹ جائے گا۔ عائشہ کا شوہر عارف پڑھا لکھا ہونے کے باوجود اپنی اہلیہ پر ظلم کرتا تھا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسئلہ محض تعلیم سے حل نہیں ہوگا۔

یہ بات بھی سامنے آتی رہی ہے کہ اگر خواتین تعلیم یافتہ ہوجائیں توکسی کی مجال ان پر ظلم کرنے کی نہیں ہوگی ۔ عائشہ پڑھی لکھی تھی اس کے باوجود ظلم کا شکار ہوئی۔غربت و افلاس کو ازدواجی مظالم کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا جاتا تھا اور کبھی سچر کمیٹی کی رپورٹ تو کبھی رنگناتھ کمیشن کی رپورٹ کا حوالہ دے کر یہ سمجھایا جاتا کہ سارے مسائل کی جڑ معاشی پسماندگی ہے ۔ یہ اگر دور ہوجائے تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا لیکن عارف کا خاندان خوشحال ہے ۔ وہ اور اس کے والد برسرِ روزگارہیں اور ان کو کرایہ سے بھی آمدنی ہوتی تھی۔ اس سے پتہ چلا کہ اس خودکشی کی اصل وجہ مسکینی نہیں ہے ۔یہ بات بھی کہی جاتی تھی کہ اگر خواتین خود کفیل ہوں تو کسی کا ظلم نہیں سہیں گی ۔ عائشہ کی بابت یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ کو آپریٹیو بنک میں ملازم تھی اس طرح یہ بت بھی ٹوٹ گیا۔

دہلی میں نربھیا کی عصمت دری کے بعد بھی خواتین پر ہونے والے مظالم ذرائع ابلاغ پر چھا گئے تھے ۔ اس وقت دو باتیں بہت زور دے کر کہی گئی تھیں ۔ ایک تو یہ کہ ملک کے قوانین اس معاملے میں ناقص ہیں ۔اس کمی کو پورا کرنے کے لیے جسٹس ورما کی سربراہی میں ایک سہ نفری کمیشن تشکیل دیا گیا اور اس کی سفارشات کو شرف قبولیت بھی ملا لیکن مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا یعنی اس مرض پر آئینی اصلاحات کافی و شافی نہیں ہیں۔ ایک خیال یہ تھا کہ اقتدار میں براجمان لوگ کمزور ہیں ۔ ان کی جگہ اگر قوم کی باگ ڈور لائق و فائق لوگوں کے ہاتھوں میں تھما دی جائے تو خواتین پر مظالم کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ یہ دلیل خاصی مضبوط تھی عوام نے اس مقصدکے حصول کی خاطر صوبہ دہلی کے تخت سے شیلا دکشت کو ہٹا کر اروند کیجریوال کو فائز کردیا۔ اس کے بعد گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا ’بہت ہوا ناری پر اتیاچار، اب کی بارمودی سرکار‘۔ عوام نے یہ بھی کرکے دیکھ لیا لیکن مسئلہ حل نہیں ہوا۔ گجرات میں جہاں عائشہ کا سانحہ رونما ہوا وہاں تو ایک چوتھائی صدی سے کمل کھلا ہوا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ سیاسی الٹ پھیر اس وائرس پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ نئی سرکار کے ساتھ نیا نعرہ آیا ’بیٹی بچاو ، بیٹی پڑھاو‘ لیکن یہ نعرہ ایک عائشہ جیسی پڑھی لکھی بیٹی کو بچانے میں ناکام رہا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ محض خوشنما نعروں سے اس عفریت کو نہیں بھگایا جاسکتا ۔وزیر اعظم مودی نے سوچا کہ مسلمانوں کے لیے بھی کچھ کیا جائے تو انہیں خواتین کی بدحالی یاد آگئی اور پتہ چلا کہ سارے مظالم کی جڑ تین طلاق کا نظام ہے۔ انہوں نے یکمشت تین طلاق پر پابندی لگا دی اور اس کاارتکاب کرنے والے کی خاطر تین سال کی سزا تفویض کردی ۔ عائشہ طلاق شدہ نہیں تھی ۔ اس کا شوہر عارف فی الحال جیل میں بیٹھا سو چ رہا ہوگا کہ اگر یکمشت تین طلاق دے کر بھی الگ ہوجاتا تو زیادہ سے زیادہ تین سال جیل میں گزار نے کے بعد چھٹی مل جاتی ۔ اس کے بعد نہ توعائشہ خودکشی کرتی اور نہ اس پر قتل کا مقدمہ بنتا ۔ عائشہ کی وصیت، ویڈیو اور فون کال کو سننے کے بعد پولس اپنی فردِ جرم تیار کرے گی اور اس پر کون کون سے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا یہ کہنا مشکل ہے ۔ بعید نہیں کہ گجرات فساد میں مسلمانوں کے قتل عام پر فخر کرنے والے بابو بجرنگی اور مایا کوندنانی کو رہا کردینے والی عدالت عارف کو پھانسی کے تختے پر چڑھا کر اپنا نام روشن کرلے لیکن کیا اس کے بعد بھی ملک بھر کی خواتین پر ہونے والے مظالم ختم ہوجائیں گے ؟ اس سوال کا مثبت جواب مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔
احمد آباد کی پولس اب راجستھان کی اس خاتون کو تلاش کررہی ہے جس کے عشق میں گرفتار ہونے کی وجہ سے عارف ظلم کیا کرتا تھا ۔ عائشہ کے والد لیاقت علی خان سے رقم اینٹھ کر اس پر لٹاتا تھا ۔ یہ الزام اگر سچ نکل جائے تو اور وہ عورت کہیں غیر مسلم نکل آئے تو اسے ابلہ ناری قرار دے کر مظلوم بنادیا جائے گا اورعارف پرشادی کے بغیر اس کا استحصال کرنے کا الزام لگ جائے گا۔ عائشہ کے سامنے وہ اس سے ویڈیو کال کیا کرتا تھااس لیے ہوسکتا ہے اس معاملے میں بغیر شادی کے ہی گجرات سرکار عارف پر لو جہاد کا مقدمہ ٹھونک دے کیونکہ مودی ہے تو کچھ بھی ممکن ہے۔ ویسے اس بیچاری کو کیا پتہ کہ جو قم اس پر لٹائی جانے وہ کہاں سے آرہی ہے؟ بہرحال اس طرح عائشہ کی موت میں عارف کے علاوہ ایک عورت بھی حصہ دارہوگئی ہے ۔ اس کومقدمہ میں الجھانے کے لیے نیا کمیشن تشکیل دے کر نئے قوانین وضع کرنے ہوں گے اس لیے کہ موجودہ دستور کے لکھنے والوں نے ایسی صورتحال کے بارے میں نہ سوچا تھا اورنہ قوانین بنائے تھے ۔ خیر یہ تو وقت وقت کی بات ہے۔ ملک ترقی کررہا ہے اور مسائل بھی ارتقاء پذیر ہیں۔

خواتین کے حوالے سے اس ہفتہ رونما ہونے والے سانحات پر نظر ڈالیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ نہ تو صرف اپنے شوہر کی جانب سے مظالم کا شکار ہوتی ہے اور نہ اس کی واحد وجہ جہیز ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عصرِ حاضر میں بھی کئی خاوند اپنی بیوی پر جہیز کی خاطر ظلم ڈھاتے ہیں اور نوبت خودکشی تک پہنچ جاتی ہے جیسا کہ عائشہ کے ساتھ ہوا۔ ممبئی میں یوم خواتین کے موقع پر اردو کارواں کی جانب سے ایک تقریب میں شریک رکن اسمبلی یامنی جادھو نے مردو خواتین کے درمیان مساوات پر گفتگو کرتے ہوئے ایک نیا زاویہ پیش کیا ۔ انہوں نے کہا کہ مردوں کے مظالم سے علی الرغم خواتین خود دوسری عورتوں کا استحصال کرتی ہیں ۔ اس لیے مردوں کے خلاف شکایت کرنےسے قبل عورتوں کو ایک دوسرے کی دشمنی ترک کرنی ہوگی۔ اس بات کو اگر عائشہ، عارف اور اس کی نامعلوم معشوقہ کی جانب لے جائیں تو اس کا مطلب ہوگا، عائشہ اپنے شوہر سے کہنا چاہیے تھا کہ کہتی عشق کرنے کے بجائے عزت سے شادی کرکے اسے گھر لے آئے اور وہ عارف سے کہتی کہ میرے بجائے اپنی زوجہ سے محبت کرے اور اس پر اپنی دولت لٹائے مگر کسی نے ایسا نہیں کیا ۔

اس طرح کا ایک چونکا دینے والا سانحہ عارف کے صوبے راجستھان میں اسی ہفتہ سامنے آیا۔ بیکانیر میں ٹیکم چند نام کا ایک وکیل رہتا ہے۔ اچانک اس کی ۷۳ سالہ والدہ چندر کور کی لاش ملی تو وہ پولس کے ذریعہ اپنی ماں کے قاتلوں کو سزا دلانے میں جٹ گیا ۔ پولس کو اس معاملے میں چندر کور کی بہو سنتوش کور پر شک ہوگیا ۔ اس نے سنتوش اور اس کی ۱۵ سالہ بیٹی کے موبائل قبضے میں لے کر ان کا لوکیشن دیکھا تو پتہ چلا کہ قتل کے وقت وہ جائے واردات پر موجود تھی ۔ پولس نے سختی سے چھان بین کی توسنتوش نے تسلیم کیا کہ یہ گھناونی حرکت اس نے اپنی بیٹی کی مدد سے انجام دی ہے۔ پولس نےچندر کور کی بہو کو جیل اور پوتی کو چلڈرن ہوم میں بھیج دیا۔ ٹیکم چند کو جب یہ پتہ چلا تو وہ سر پکڑ کر بولا’اب میں کیا کروں؟‘ سنتوش کورنے قتل کی وجہ یہ بتائی کہ اس کا شوہر والدہ کو زیادہ اہمیت دیتا تھااور یہ انکشاف بھی کیا چونکہ چندر کور نے ٹیکم چند کے چھوٹے بھائی کشور سنگھ کو اپنے ۵۰ ہزار روپئے دے دیئے تو وہ اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ سکی اور اس نے مسالہ پیسنے کے موسل سے اپنی ساس کو قتل کردیا ۔ یہ ظلم و جبر کی ایسی عجیب و غریب داستان ہے کہ جس میں مظلوم ، ظالم اور اس کی مددگار سب کی سب خواتین یامنی جادھو کے بیان کی تصدیق کرتی ہیں ۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448784 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.