پوری دنیا بشمول پاکستان میں مارچ کی آٹھ تاریخ کوخواتین
کا عالمی دن پورے جوش و خروش سے منایا جاتا رہا ہے، مگر گذشتہ چند سالوں سے
خواتین کا عالمی دن کافی متنازعہ ہوچکا ہے، مارچ کا مہینہ شروع ہوتے ہی
الیکٹرانک میڈیا پر ٹی وی ٹاک شوز اور خصوصی مباحثوں میں ٹھیک ٹھاک ٹاکرے
ہورہے ہوتے ہیں، بعض اوقات بات تُوتُو میں میں سے بڑھ کر گالی گلوچ تک بھی
پہنچ جاتی ہے۔ پچھلے سال اک ٹی وی پروگرام میں سماجی کارکن ماروی سرمد کا
ڈرامہ اور فلم کے رائٹر اور ہدایتکار خلیل الرحمن قمرکیساتھ ٹاکرا کی
بازگزشت ابھی تک جاری و ساری ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ خواتین کا عالمی دن
پاکستان میں ہر سال تنازعہ کا شکار ہورہا ہے؟ اسکی بنیادی وجوہات کو پرکھا
جائے تو معلوم ہوگا کہ عورت مارچ کے نام سے ہونے والے مظاہروں، دھرنوں اور
ان مظاہروں میں کئے جانے والے مطالبات، پلے کارڈز پر لکھی ہوئی تحاریرنے
جلتی پر تیل والا کام کیا ہے، عورت مارچ کرنا اور عورتوں کا اپنے حقوق کے
لئے میدان میں نکلنا ٹھیک ہے یا غلط اسکا فیصلہ آپ عورت مارچ میں نظر آنے
والے پلے کارڈ پر لکھی ہوئی تحاریر سے بخوبی کرسکتے ہیں۔عورت مارچ میں پلے
کارڈز پر لکھی تحاریر کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں: میرا جسم میری مرضی۔
میں نے طلاق لے لی ہے اب خوش ہوں۔ نہیں بیٹھوں گی گھر۔میرا جسم تمہاری
مرضی، اب خوش؟۔آدھا کلو حقوق دے دو۔ماں کا، دادی کا، نانی کا، سب کا بدلہ
لیں گے۔نکاح میں ہوں، گرفتاری میں نہیں ہوں۔مردانہ کمزوری End of
Story۔کھانا گرم کردوں گی، بستر خود گرم کرلو۔میرا جسم قاری صاحب کی
مرضی۔یہ مارچ وارچ سب بکواس ہے، آخر اس سے ہوتا کیا ہے؟ آپکو تکلیف، یہی
کافی ہے۔میں 9 سال کی تھی وہ 50 سال کا تھا، مجھے چپ کروا دیا گیا اوراسکی
آواز آج بھی مسجد میں گونجتی ہے۔ میری شادی نہیں آزادی کی فکر کرو۔ہماری
بیٹی اسکی مرضی۔رشتے نہیں حقوق چاہئے،میرا جسم میری مرضی۔عزت نہیں رنڈی ہوں
میں۔I would roast men but my mom said i am not allowed to burn trash
یعنی میں مردوں کا بھون ڈالتی مگر میری ماں نے مجھے کچڑاجلانے کی اجازت
نہیں دی۔اسی طرح سوشل میڈیا پر بہت ہی مشہور و معروف شخصیت یاسر شامی نے
عورت مارچ میں شامل کچھ منچلے نوجوان لڑکوں کا انٹرویو کیا جن کے درج ذیل
انتہائی افسوسناک بیانات سامنے آئے۔ہم 21 ویں صدی میں رہتے ہیں اور دو
انسان اپنی مرضی سے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ اور پاکستان کو ہم جنس پرستی کو
قانونی شکل دے دینی چاہئے، کوئی بھی انسان کسی بھی انسان چاہے مرد مرد اور
عورت عورت کیساتھ اسکی مرضی کیساتھ اکٹھے رہ سکتے ہیں، جسکا کسی کو اعتراض
کرنے کا حق نہیں ہونا چاہئے۔اک نوجوان قرآنی آیات سے میرا جسم میری مرضی کے
نعرہ کو ثابت کرنے کی مذموم کوشش کررہا تھا۔اور اک اور آیت کے ذریعہ مرد
اور عورت کو دوست بننے کا حق دے رہا تھا (انا للہ وانا الیہ راجعون)۔اک
نوجوان کہ رہا تھا کہ لڑکی لڑکی کے ساتھ اور لڑکا لڑکے کیساتھ اسکی مرضی
کیساتھ اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ اک لڑکا اور لڑکی اپنی مرضی کیساتھ بغیر نکاح کے
بھی اکٹھے رہ سکتے ہیں۔اک نوجوان کہ رہا تھا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ
بچوں کیساتھ ریپ مولوی حضرات مد رسوں میں کرتے ہیں۔اک اور پروگرام میں لڑکی
میرا جسم میری مرضی کے نعرہ کو سمجھانے کے لئے یہ مثال دے رہی تھی کہ میرا
شوہر میری مرضی کے بغیر RAPE نہیں کرسکتا (گویا حق زوجیت ادا کرنا بھی RAPE
میں شمار کیا جائے)۔اک خواجہ سرا نے اک پلے کارڈ اُٹھایا ہوا تھا جس پر
لکھا ہوا تھا کہ میری ڈیش نہیں ہے تو اس میں اسکا کیا قصورہے۔اگر دوپٹہ
اتنا پسند ہے تو آنکھوں پر باندھلو۔میری مرضی میں دوپٹہ لوں یا نہ لوں۔اک
پلے کارڈ پر لکھا ہوا تھا کہ ہم بھی کھڑے ہوکر SUSU کرینگے (ویسے ان عورتوں
کو ایسا کرنے سے کس نے روکا ہوا ہے؟)۔ اک پلے کارڈ پر لکھا تھا کہ
Legalised Alcohol and Same Sex Marriage.۔اک لڑکی نے پلے کارڈ پر لکھا ہوا
تھا کہ NO UTRUS NO OPINION یعنی اگر مرد حضرات کے پاس بچہ دانی نہیں ہے تو
آپکو عورت کے بارے میں رائے دینے کا بھی کوئی حق نہیں ہے اور اسی پلے کارڈ
پر UTRUS کی تصویر بھی بنی ہوئی تھی۔اک لڑکی کہ رہی تھی کہ اگر لڑکی کی
شارٹ شرٹ ہے تو اس لڑکی کو دیکھنے والا لڑکا غلط ہے۔ اک لڑکی نے پلے کارڈ
پر لکھا تھا کہ سنبھلتا نہیں ہے تو کاٹ دو؟مارچ میں اک منچلے لڑکے نے اپنے
پلے کارڈ پر لکھا تھا کہ I March because my sister says: کاش میں لڑکا
ہوتی۔اک اور مقام پر اس بیہودہ مارچ میں عورت کی آزادی کے لئے لگائے نعروں
نے اپنی تمام حدیں پار کرلیں، جیسا کہ تیرا باپ بھی دیگا آزادی، عمران بھی
سن لے۔آزادی۔ملاء بھی سن لے آزادی، ہر عورت مانگے آزادی۔وغیرہ وغیرہ۔عورت
مارچ میں درج بالا نعروں اور مطالبات کااک غیر جانبدرانہ تجزیہ کیا جائے تو
یہ رائے سامنے آتی ہے کہ عورت مارچ میں شامل افراد کی زیادہ تر توانائیاں
پاکستان کے اسلام کے تحت عائلی قوانین، اسلامی معاشرت، اسلامی ثقافت، تہذیب
و تمدن، اسلامی اور مشرقی رسم و رواج، اور خصوصی طور پر پاکستان کے مذہبی
حلقہ یعنی علماء کرام کے خلاف بغض عناد پر خرچ ہورہی ہیں۔ میڈیا کی طرف سے
عورت مارچ میں شامل مختلف خواتین کی طرف سے دیئے گئے انٹرویوز کا نچوڑ یہی
نکل رہا تھا کہ جیسے پاکستان کی ہر مسجد اور مدرسہ کا مولوی ہرروز اور ہر
وقت کسی نہ کسی بچے یا بچی کیساتھ RAPE کررہا ہے (معاذ اللہ)۔ اور یہ کہ
پاکستان میں خواتین کے حقوق میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ مولوی حضرات ہیں۔مولوی
کیخلاف بغض و عناد شائد مذہب اسلام سے انکی بیزاری کا نتیجہ ہوسکتا ہے،
ورنہ کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نام پر بننے والی مملکت
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو سوسائٹی تمام مسائل کا ذمہ دار مولوی کو
سمجھتی ہے انکے لئے بس اتنا ہی کہنا چاہوں
...
|