1990ء سے پیچھے نظر دوڑائیں تو ملک میں پیغام رسانی کا سب
سے واحد ذریعہ ڈاک اور دوسرے نمبر پر پی ٹی سی ایل فون تھا، لوگ اپنے عزیز
و اقارب کا احوال جاننے اور خوشی غمی کے پیغام کیلئے ایک دوسرے کو خط لکھا
کرتے تھے، اس کیلئے محکمہ ڈاکخانہ جات بھی تھا اور ڈاکیے بھی، جو اب بھی
موجود ہیں، ماضی میں ڈاک کا یہ ادارہ انتہائی منافع بخش تھا جبکہ اب حکومت
پر بوجھ بنا ہوا ہے، اس دور میں ٹیلیفون (پی ٹی سی ایل) کا استعمال زیادہ
تر بڑے کاروباری مراکز میں ہوتا تھا، دکانوں اور گھروں میں خال خال یہ
سہولت موجود تھی، جوں جوں زمانہ ترقی کرتا گیا تو ٹیلی مواصلات کے نظام میں
بھی جدت آتی گئی، پھر کارڈلیس فون آیا جو پی ٹی سی ایل سے لنک کر کے سنا
اور استعمال کیا جا سکتا تھا، لوگ اسے جدید ذریعہ مواصلات قرار دے رہے تھے
کہ 1989-90ء میں موبائل فون آ گیا، جس کا استعمال پاکستان سمیت دنیا بھر
میں کثرت کے ساتھ ہونے لگا تو موبائل فون کے ذریعے سوشل میڈیا بھی وجود میں
آ گیا، آئے روز سوشل میڈیا کی نئی نئی ایپس، فیس بک، وٹس ایپ، سکائپ اور
دیگر منظر عام پر آنے لگیں اور بدستور آ رہی ہیں، ملک میں فیس بک کا
استعمال 2004ء کے ابتداء میں ہوا جبکہ ٹویٹر کا استعمال 2006ء میں شروع ہوا،
فروری 2009ء میں وٹس ایپ نے پاکستان میں قدم رکھا، دیکھتے ہی دیکھتے نجانے
کتنی ایپس متعارف ہوئیں اور پاکستان سمیت دنیا بھر کی عوام کو ان ایپس نے
اپنی طرف راغب کر کے اپنے سحر میں جکڑ لیا، دوسرے ملکوں کی نسبت پاکستان
میں خواتین اور بچوں میں سوشل میڈیا اور ٹیلیفون کا استعمال تشویشناک حد تک
بڑھ چکا ہے، جس کے معاشرے پر جہاں بہت سے منفی اثرات دیکھنے میں آ رہے ہیں
وہاں موبائل فون اور سوشل میڈیا کے فوائد بھی ہیں، بہر حال اب معاشرے کیلئے
یہ آئینہ ہے، جس کے اندر طرح طرح کا مواد سوشل میڈیا یوزر کو ملتا ہے،
موبائل فون اور سوشل میڈیا نے دنیا بھر کے فاصلے سمیٹ کر رکھ دیئے ہیں، اس
طرح خط و کتابت قصہ ماضی بن چکا ہے اور پی ٹی سی ایل فون اب خال خال جگہوں
پر دیکھنے کو ملتاہے، اربوں روپے کا کاروبار بھی موبائل فون کے ذریعے ہو
رہا ہے، لیکن ہماری اکثریتی لا شعوری قوم سوشل میڈیا اور موبائل فون کا غلط
استعمال کر رہی ہے، راقم نے گزشتہ روز موبائل فون پر وٹس ایپ آن کیا تو دل
دہلا دینے والی خبر پڑھنے کو ملی کہ منڈی بہاوالدین میں مدرسہ کے معلم نے
اپنے 16 سالہ حافظ قرآن شاگرد کا تیز دھار آلے سے سر تن سے جدا کر کے اسے
قتل کر دیا ہے، جس کی مزید تفصیل کچھ یوں سامنے آئی کہ منڈی بہاوالدین کے
گاؤں ساہنا کے رہائشی حنیف حسین کا 16 سالہ بیٹا محمد فیضان جو کہ محلہ
شفقت آباد میں مدرسہ کا طالبعلم تھا 5 مارچ کو وہ شام کے وقت اپنا جیب خرچ
چلانے کیلئے محلہ لالہ زار میں ٹیوشن پڑھانے گیا اور غائب ہو گیا، 16 سالہ
حافظ قرآن بیٹے کے لا پتہ ہونے پر والدین پر تو جیسے قیامت گزر گئی اور
خاندان پر سکتہ طاری ہو گیا، والد حنیف نے ہمت کر کے نا معلوم اغواء کار
کیخلاف مقدمہ درج کرایا تو پولیس نے مدرسہ کے معلم مغوی کے استاد مولوی
شہزاد مزمل کو شامل تفتیش کیا تو ہوشیار شہزاد مزمل نے پولیس کو کوئی راز
نہ دیا، تو پولیس نے روایتی تفتیش کی تو شہزاد مزمل نے ابتدائی طور پر
انکشاف کیا کہ مغوی فیضان زیادہ وقت موبائل پر گھنٹوں کسی سے گفتگو کرتا
اور وٹس ایپ پر چیٹ کرتا رہتا تھا، جس پر مغوی کا موبائل ڈیٹا حاصل کیا گیا
تو اس کی کڑیاں مولوی شہزاد مزمل کی سالی سے جا ملیں اور عندیہ کھلا کہ 16
سالہ حافظ قرآن محمد فیضان کے مولوی شہزاد مزمل کی سالی کے ساتھ مراسم تھے
اور اس رنج کی بناء پر مولوی شہزاد مزمل نے محمد فیضان کو وقوعہ کے روز
اپنے گھر بلایا اور اس کی آنکھیں بند کرا کے تیز دھار آلے سے اس کی گردن تن
سے جدا کر دی، بعد ازاں لاش بوری میں ڈال کر ریلوے لائن اور گردن کٹھیالہ
سیداں کے قریب گندے نالے میں پھینک دی، اس طرح مولوی مزمل شہزاد نے 16 سالہ
حافظ قرآن طالبعلم کے قتل کا اعتراف کر لیا اور قتل کا پس منظر مزید کچھ
یوں بتایا کہ محمد فیضان اس کا قابل اعتماد شاگرد تھا، جسے وہ سامان دے کر
گھر بھجواتا تھا کہ اس نے ملزم کی سالی کے ساتھ تعلقات قائم کر لئے اور کئی
کئی گھنٹے اس سے فون پر باتیں اور سوشل میڈیا چیٹ کرتا رہتا تھا، سالی سے
تعلقات کا انتقام لینے کیلئے مولوی مزمل نے اپنے ہی شاگرد کو انتہائی
سفاکانہ طریقہ سے قتل کیا، جس کے اثرات اب بھی علاقہ میں خوف کی صورت میں
موجود ہیں، حالانکہ پولیس نے ملزم کو گرفتار اور آلہ قتل برآمد کر لیا ہے،
مولوی شہزاد مزمل کی بیان کردہ کہانی میں کہاں تک صداقت ہے یہ تو اﷲ پاک کی
ذات ہی جانتی ہے، لیکن اس طرح والدین کا لخت جگر اور لاڈلا موت کی وادی میں
چلا گیا ہے، مقتول بچے کا پورا خاندان افسردہ اور علاقہ میں سوگ کی سی فضاء
ہے، واقعہ پر لوگ مختلف رائے دے رہے ہیں، چونکہ اب اس کیس کا چالان عدالت
میں جائے گا اور سزا جزا کا تعین بھی عدالت کرے گی لیکن قتل کے اس بھیانک
واقعہ سے پوری قوم کو سوچنا ہو گا کہ ان کے بچے سوشل میڈیا اور موبائل فون
کے ذریعے کیا کر رہے ہیں؟ ورنہ آنے والے وقت میں اس طرح کے بھیانک واقعات
میں مزید اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔ اور آئے روز محمد فیضان جیسے بچوں کی
لاشیں مختلف علاقوں سے ملتی رہیں گی اور ان کی روک تھام پھر نہ عوام کے بس
میں ہو گی اور نہ حکومت کے؟
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہو رہی تھی سوشل میڈیا اور اس کے نقصانات
کی تو کپتان جی جس ریاست میں کوئی جانور بھی بھوکا مر جائے تو اس کا حساب
حاکم نے وقت دینا ہوتا ہے، آپ ملک کو ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار ہیں،
سوشل میڈیا کے بے لگام گھوڑے کو لگام دینا آپ کی ذمہ داری ہے، سوشل میڈیا
کے بے ہنگم استعمال کی روک تھام کیلئے قانون سازی کرنا اور کرانا بھی آپ کا
فرض ہے، نیز یہ کہ حافظ قرآن محمد فیضان کا بہیمانہ قتل ریاست مدینہ کے
صوبہ پنجاب کے شہر منڈی بہاوالدین میں ہوا ہے، آپ حاکم وقت ہیں، محمد فیضان
کے قاتل کو منطقی انجام تک پہنچانا آپ کے فرائض منصبی میں شامل ہے تو آپ
وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کو حکم دیں کہ وہ آئی جی پنجاب کی وساطت سے
مقدمہ کا چالان ایسا مرتب کروائے جس میں کوئی قانونی سقم باقی نہ ہو، نیز
یہ کہ ملزم کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے سرکاری سطح پر پراسیکیوشن ٹیم
تشکیل دی جائے جو عدالت میں مقدمہ کی پیروی کرے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ
مقتول محمد فیضان کے والدین اتنی سکت نہ رکھتے ہوں کہ مقدمہ کی پیروی کیلئے
کوئی وکیل کر سکیں، کپتان جی تب بنے گا ریاست مدینہ؟ اگر ایسا نہ کیا گیا
اور قاتل بچ نکلا تو اس کا حساب آخرت میں قاتل کے ساتھ آپ کو بھی دینا ہو
گا؟
|