تحریر: خصیفہ نازنین۔نارووال
صبح چار بجے کی قریب نازش کے کانوں میں آواز گونجی نازش او نازش!!!کہاں رہ
گئی تو اور کتنا سو گی۔ ماہرانی یہ تمہارا میکہ نہیں جہاں تمہیں من سلوہ
ملے گا۔ نازش نے آنکھ ملتے ہوئی جی آئی بولا!
صندس بیگم نے اضافہ کیا جب میں جواں ہوتی تھی کھیت، ساس، سسر، شوہر، بچے
نیز گھر اور باہر کے سب کام میں کرتی تھی پتا نہیں تم پھوہڑ کیسے میرے متھے
لگ گئی جلدی کچن میں جاؤ۔ ماں جی نماز پڑھ کے ابھی جاتی ہوں نازش نے
استفسار کیا۔
آئیندہ اپنی زبان میرے سامنے مت چلانا جو کہا ہے ویسا کروپہلے علی کے لئے
کھانا بناؤ اٹھنے والا ہوگا۔ یہ کہتے ہی صندس بیگم نے نازش کو ایک لسٹ تھما
دی اور کہا یہ سب بنانا ہے اور دو گھنٹے میں بن جائے اور ہاں میں نے
نوکرانی کی پکی پکی چھٹی کرا دی ہے اب سے سب کام تم سنبھالو گی۔
یہ کہہ کر وہ چلی گئیں اور نازش انکی باتوں پر غور کرتی رہ گئی کہ نماز کی
بھی اجازت نہیں ہے۔
نازش ابھی اسی سوچ میں تھی جب پھر سے اسکا نام پکارا گیا وہ کچن کی طرف
بھاگی اور کام شروع کر دیا اسے کام کرتے ساڑھے سات ہو گئے تبھی صندس بیگم
نے کہا جا کے علی کو اٹھاؤ اور اس کا سوٹ استری کرو اس نے جا کے علی کو
اٹھایا کپڑے دئے اس دوران اس کے 7 سے 8 چکر اوپر سے نیچے لگ چکے تھے کچن
نیچے تھا جبکہ انکا اور صندس بیگم کا کمرہ اوپر والی منزل پر تھا۔
علی اور صندس بیگم نے ناشتہ کیا نازش کھانے کی میز پر بیٹھنے ہی لگی تھی کہ
صندس بیگم نے استفسار کیا
''ہمارے ہاں بہو ساتھ بیٹھ کر نہیں کھاتی جب تک سب پیٹ بھر کھا نا
لیں''نازش سوچ میں پڑ گئی کہ اگر شروعات ایسی ہے تو اختتام کیا ہوگا۔
اور اسکی سوچ بلکل صحیح تھی شام کا اختتام بہت دلسوز ہونے جا رہا تھا ناشتہ
میں اس کے لئے صرف آدھی پلیٹ چاول بچے تھے اس نے وہ کھا کہ شکر ادا کیا اور
اسے وہ پل یاد آنے لگے جب اسکی شادی کے دن قریب تھے راحت بیگم سب ضروریات
چھوڑ کر اسے اپنے ہاتھوں سے کھلا رہی تھیں اور نازش کھانا نہ کھانے پر بضد
تھی''بیٹا کھانا کھا لو میرا ہیرا بیٹا ہو تم اﷲ ہمیشہ تمہاری آنکھوں کی
چمک اور مسکراہٹ برقرار رکھے'' ساتھ ہی ماں اور بیٹی کی آنکھیں بھر آئیں جو
نازش کھانا نہ کھانے پر بضد تھی وہ ماں کی آنکھوں میں آنسو نا دیکھ سکی اور
کھانا کھانے لگ گئی تھی۔
نازش۔۔۔۔ صندس بیگم کی آواز نازش کی حقیقت کی دنیا میں لے آئی۔
نازش جلدی صفائی ختم کرو۔۔۔ ایک ایک بات بتانی پڑ رہی ہے گھر سے کیا سیکھ
کے آئی ہو۔۔۔ پھر کھانا بنانا ہے۔ نازش اپنے آنسو چھپاتے ہوئے بمشکل جی ماں
جی ہی کہ پائی۔
گھر کافی بڑا تھا صفائی پوری ہوتے ہی دوپہر کا کھانا بنایا صندس بیگم کو
پروسا ان کے کھاتے کی برتن اٹھائے جا کہ اپنے لئے کھانا نکالنے ہی لگی تھی
کہ اس پر حکم صادر ہو گیا''برتن دھو کہ جلدی سے شام کا بندوبست کرو وقت ہو
چلا ہے اور ہاتھ پاؤں ذرا تیز چلایا کرو ''
نازش جس کو انتہا کی بھوک لگی ہوئی تھی شام کا کھانا بنانے میں محو ہو گئی۔
جلدی جلدی کی وجہ سے چاقو اس کے ہاتھ میں پھر گیا
صندس بیگم جو کہ سامنے بیٹھی تھیں اسے پٹی تک نہ کرنے دی اور اٹھ کر اس کے
چہرے پر تھپڑ جھڑ دیا کہ اتنا بھی نہیں کرنا آتا اتنی کھا کر بہو مجھے ہی
ملنی تھی ہائے میری قسمت۔۔۔
نازش کی آنکھوں سے آنسو برسنے لگ گئے اسے آج تک کسی نے ڈانٹا تک نہ تھا وہ
سب سے چھوٹی اور اب کی لاڈلی تھی۔
وہ پھر سے کھانا بنانے لگ گئی جب علی آیا کھانا کھلایا سب صبح جیسے ہی ہوا
بس فرق صرف اتنا تھا کہ ابھی نازش کے ایک پلیٹ نکل آئی تھی وہ جو گھر میں
نازوں پلی تھی آنکھوں میں حسیں خواب سنجوئے وہ اس گھر کی زینت بنی تھی راحت
بیگم جو اس کے ایک زخم پر ہزار آنسو بہاتیں مرہم لگاتی تھیں۔ نازش کو راحت
بیگم کے الفاظ یاد آنے لگ گئے۔ کہ میرا پیار بیٹا ہو تم سسرال والوں کو
شکایت کا موقع نہ دینا بیٹا ساس کو ساس نہیں ماں سمجھنا وہ بھی پھر تمہیں
بیٹی سمجھ لیں گی۔
رات کو نو بجے کی چائے کے بعد وہ اپنی ساس کے پاؤں دبانے لگ گئی دس بجے کے
قریب صندس بیگم کو نیند نے آ گھیرا۔
نازش برتن دھو کر اپنے کمرے میں داخل ہوئی۔ علی لیپ ٹاپ پکڑے آفس کا کام کر
رہا تھا۔ جی سنیے نازش نے کہاعلی اپنے کام میں مگن اسکی طرف دیکھے بغیر
بولا۔۔۔ ہاں بولو!
نازش نے صبح سے لیکر اب تک کی آپ بیتی سنا دی نازش کو سب سے ذیادہ دکھ اس
بات کا تھا کہ اسے نماز نہ پڑھنے دی گئی اور سارا دن کام کے بعد اسے پیٹ
بھر کھانا بھی نہ ملا یہاں تک کہ اسے زخم پر مرہم بھی نہ لگانے دی گئی میں
انسان ہوں مجھے کہا گیا تھا کہ ساس ماں کی طرح ہوتی ہے میں نے ایسی ماں
کہیں نہیں دیکھی نہ سنی جو بچوں کو اﷲ کی راہ سے روکے انہیں بھوکا رکھے ان
کے زخم پر مرہم بنے۔۔۔ساتھ اسکی آنکھوں اشکبار ہو گئیں۔۔
میری ماں نے بھی یہ سب کچھ برداشت کیا ہوا ہے جب وہ کر سکتی ہیں تو تم کیوں
نہیں کیا وہ انسان نہیں تھیں علی نے کہا۔
تمہیں ویسے ہی رہنا پڑے گا جیسے میری امی جان کہیں گی علی نے ایک اور
انکشاف کیا۔ یہ سب باتیں دروازے کے پاس کھڑی صندس بیگم سن رہی تھیں وہ اندر
داخل ہوئیں۔ نازش کے رونگٹے کھڑے ہو گئے کہ اب نجانے کیا ہوگا صندس بیگم
دھیمے دھیمے قدموں سے اسکی طرف بڑھنے لگیں۔ باہر بارش کا موسم تھا بجلی کی
کڑک اس منظر اور وحشت ذدہ بنا رہی تھی اور پھر نازش کی ایک دم سے کایا ہی
پلٹ گئی صندس بیگم نے اسے گلے سے لگا لیا اور اپنے رویے کی معافی مانگ لی۔
ماں جی آپ بڑے ہیں معافی نہ مانگیں بس اپنا شفقت بھرا ہاتھ میرے سر پر
سلامت رکھیے گا۔
میں ڈر گئی تھی بیٹا اب تک کے سب رشتوں نے مجھ پر چڑھائی کی بس مجھے تھا کہ
تم اور میرا بیٹا بھی ایسا نہ کر دو اس لئے دبا کے رکھ رہی تھی آخر میں بھی
تو انسان ہی ہوں مجھے بھی اپنے رشتوں سے پیار چاہیے شکر اﷲ تعالی کا کہ
میری آنکھ کھل گئی اور میں پانی پینے جا ہی رہی تھی کہ تم دونوں کی آوازیں
کانوں میں پڑ گئیں۔
علی اور نازش صندس بیگم کہ گلے جا لگے ماں جی ہم آپکو شکایت کا موقع نہیں
دیں گے دونوں نے یک زبان ہو کے استفسار کیا اور سب مسکرانے لگے۔۔۔!!!
(سب انسان ہی ہوتے ہیں انسان کو برا وقت اور حالات بناتے ہیں اور برے حالات
میں بہتر رہنا ایک اچھے انسان کی نشانی ہے)
|