کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھا تو ڈیوٹی کا وقت شروع
ہونے میں ابھی پون گھنٹا باقی تھا۔بس میں سوار ہوئے اُسے پندرہ منٹ ہو چکے
تھے جب بیٹھنے کے لیے سیٹ ملی۔ صبح کا وقت تھا اس لیے ابھی مال روڈ پر رش
کم تھا۔ کھڑکی سے باہر سڑک پر دیکھتے ہوئے وہ اپنی آج کی ڈیوٹی کے بارے میں
سوچ رہی تھی۔ بس گورنر ہاؤس کے سٹاپ پر رُکی تھی۔ایک سمارٹ، خوب صورت حلیے
کی لڑکی، اپنے گورے چہرے پر ماسک اور بلیک گلاسز لگائے تیزی سے بس میں سوار
ہوئی۔ اُس کے بوائے کٹ بالوں اور ماڈرن حلیے نے کھڑکی کے شیشے سے باہر
جھانکتی ندا کی توجہ اپنی جانب کھینچی ۔ کوئی سیٹ خالی نہ ہونے کی وجہ سے
وہ ندا کے پاس سے گزرکر بس کی ونڈ سکرین کے قریب لگے راڈ کے سہارے کھڑی ہو
گئی تھی۔ اب اُس کی پشت ندا کی طرف تھی۔ندا کی نظروں نے غیر ارادی طور پر
اُس کا بغور جائزہ لینا شروع کر دیا تھا۔وہ اُس کے بالوں کی طرف دیکھ رہی
تھی۔’’ اس قدر چھوٹے بال۔۔ آخر کیا وجہ ہو گی اتنے چھوٹے بال کٹوانے کی۔‘‘
وہ حیران سی سوچنے لگی۔’’مجھے یہ نارمل کیوں نہیں لگ رہی۔۔۔اس کے بال۔۔۔
ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے مکمل گنج کے بعد بال اتنے ہوئے ہیں۔۔۔ایک، ڈیڑھ
انچ لمبے ۔۔۔ورنہ اتنی شارٹ کٹنگ بھلا کون عورت کرائے گی۔‘‘ ندا سوچتی رہی
اور جائزہ لیتی رہی۔ اِسی دم اُس smart and young looking نے دائیں جانب
چہرہ گھمایا تو ندا نے دیکھا بلیک گلاسز میں چھپی اُس کی آنکھوں پر گہرا
میک اپ اور کاجل ہے۔اُس کی بھنویں بھی مکمل طور پر میک اپ سے بنی ہوئی
تھیں۔ چہرے پر لگی میک اپ فا ؤنڈیشن بھی اس سلیقے سے لگی تھی کہ دور سے
معلوم ہی نہ ہوتا تھا کہ چہرے پر کوئی میک اپ بھی ہے۔ندا نے دل ہی دل میں
اس سیلقے کی داد دی۔ مفلر کی صورت لپٹے ہوئے زنگالی رنگ کے ریشمی دوپٹے نے
اُس کی گردن کوچھپا رکھا تھا۔ زنگالی سبز پھول دار قمیص اورسادہ میچنگ
شلوار کے تنگ پائنچوں کے ساتھ ہی جب ندا کی نظر اُس کے پیروں پر پڑی تو اسے
حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا اور اُس نے فوراً آنکھیں پورے زور سے بھینچ کر
کھولیں تھیں۔ گہرے سانولے، جھریوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے پاؤں، ناخنوں پر
لگی، اُکھڑی اُکھڑی سی سرخ نیل پالش اور نہایت خستہ حالت کے پرانے ویج
سینڈل (wedge sandals) نے ندا کو مزید الجھا دیا تھا۔سینڈل کی حالت بالکل
ایسے تھی جیسے کسی کوڑے کے ڈھیر سے اُٹھائے گئے ہوں۔
’’اُف خدایا! یہ کیا چکر ہے۔ یہ عورت تو کسی ڈرامے کا کردار لگ رہی ہے۔‘‘
اُس عورت کے پاؤں کی جلد دیکھ کر ندا نے فوراً اُس کے دائیں ہاتھ کی طرف
دیکھا جس سے اُس نے قدرے دائیں جانب لگے راڈ کو پکڑرکھا تھا۔ اُس کے ہاتھ
بھی اُس کے پیروں کی طرح اُس کی عمر کی چغلی کھا رہے تھے۔ ہاتھوں اور پاؤں
کی جلد بتا رہی تھی کہ وہ اپنی زندگی کی لگ بھگ چھے دہائیاں گزار چکی
ہے۔ہاتھوں کے ناخنوں پر لگی نیل پالش بھی پاؤں کی ناخنوں کی طرح جگہ جگہ سے
اُکھڑی ہوئی تھی جیسے لگائے ہوئے دو ہفتے گزرچکے ہوں۔ ندا نے پھر اُس کے
پاؤں کی طرف دیکھا اور یقین کرنا چاہا کہ جو وہ دیکھ رہی ہے واقعی سچ ہے یا
اُس کی نظر کا دھوکا۔
اِنھی سوچوں میں تھی کہ نیلا گنبد کے سٹاپ کا اعلان ہو گیا۔ ’’ ایکسکیوزمی!
آپ یہاں آ جائیں اس سیٹ پر‘‘ ندا نے کھڑے ہو کر اُس عورت کے کاندھے پر ہاتھ
سے دباؤ ڈال کر متوجہ کیا۔ وہ پلٹی تو ندا نے بہت غور سے ماسک کے اطراف میں
سے نظر آتا اُس کا چہرہ دیکھا۔ اب وہ قریب سے بہتر دیکھ پائی تھی کہ میک اپ
فاؤنڈیشن بیس (base) نے اُ س کی گہری سانولی رنگت ہی نہیں بوڑھی جلد کو بھی
خوب ڈھانپ رکھا تھا۔ ’’ کیا خوب کردار ادا کرنے لگا ہے یہ ماسک بھی۔‘‘ وہ
اُسی کے بارے میں سوچتی ہوئی ہسپتال میں داخل ہوئی تھی۔
ڈیوٹی ختم ہونے میں ابھی پندرہ ،بیس منٹ ہی باقی ہوں گے جب بس میں ملنے
والی عورت ندا کی ساتھی ڈاکٹر کے سامنے بیٹھی تھی ۔بنا کچھ کہے اُس نے اپنے
بلیک گلاسز اُتارے ۔ ماسک ایک کان سے اُتارا اور وہ دوسرے کان سے لٹک
گیا۔اُس کی ایک آنکھ پتھر کی تھی اور اُوپر کا ہونٹ آدھا کٹا ہوا۔۔۔۔۔ ۔
’’اِس وبا نے بھی کتنوں کا بھلا کر دیا ہے ناں۔ منہ چھپانے کا بڑا Valid
reason دے دیا ہے۔‘‘ رات کی شفٹ اور دن کی ڈیوٹی کے بعد روزنیہ نے کمرے میں
آکر دستانے اور ماسک اُتار کر میز پر رکھااور منہ دھونے کے لیے واش بیسن کی
طرف آئی۔ اُس کی بات سن کر ندا مسکرائی اور صرف ہاں کہنے پر اکتفا کیا۔
روزنیہ نے منہ دھو کر اچھی طرح کلّی کی ٹشو پیپر سے اپنا چہرہ تھپتھپا کر
خشک کرنے لگی۔ ندا نے سٹیتھو سکوپ گلے میں لٹکایا ، ماسک کے اوپر ایک اور
ماسک پہنا، دستانے پہنے اور وارڈ کی طرف چلی گئی۔روزنیہ نے کرسی پر بیٹھ کر
پانی کا گلاس بھرا اور ایسے پیا جیسے صدیوں سے پانی نہ ملا تھا۔گلاس میز پر
رکھ کر اُس نے ایک طویل سانس کھینچا ۔تھکن سے اُس کا برا حال تھا۔دونوں
ہاتھوں کی انگلیوں سے اُس نے کنپٹیوں کو دبایا اور کرسی کی پشت سے سر ٹکا
کر آنکھیں موند لیں۔
رات بھر ایک مریضہ کی خراب حالت نے اُسے لمحہ بھر کے لیے بھی سونے نہ دیا
تھا۔وہ اور اس کے ساتھی ڈاکٹر عدنان نے بہت کوشش کی تھی کہ وہ جوان لڑکی جو
خود کشی کی کوشش کے بعددو دن سے ہسپتال میں پڑی تھی، بچ سکے ۔لیکن اس کی
زندگی کے لمحے آخری سانسیں لے چکے تھے۔آج صبح ہی اُدھر موذن نے اﷲ اکبر کی
آواز بلند کی اوراِدھر اُس کی روح کو رہائی کا پروانہ مل گیا۔اُس کی ماں
دھاڑیں مار مار کر روئی تھی۔ اُس کی ماں کی حالت دیکھ کر روزینہ کی بھی
آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔
’’ وہ بچ بھی جاتی تو ۔۔۔نہ زندوں میں ہوتی نہ مُردوں میں۔۔۔‘‘ عدنان نے
دھیمی آواز میں روزنیہ کو تسلی دینے کے لیے کہا اورخود بھی بوجھل دل کے
ساتھ واش روم کی طرف چلا گیا۔
’’اچھا ہوا مر گئی۔ منحوس نے جینا حرام کر دیا تھا ہمارا۔۔۔‘‘ ایک غصیلی
مردانہ آواز نے گالی کے ساتھ اپنا جملہ ختم کیا تھا۔ روزینہ نے مڑ کر
دیکھا۔نیلے رنگ کی شلوار قمیص میں درمیانے قد کا ایک مرد ، چہرے پر نفرت
اور غصّہ جمائے اُس لڑکی کی ماں سے مخاطب تھا۔ ’’کہیں منہ دکھانے کے قابل
نہیں چھوڑا تھا اِس مردُود نے۔کہہ دینا رشتے داروں سے، کورونا سے مر گئی۔۔۔
اور ہاں! ڈاکٹرنی سے اس کے لیے ماسک لے لینا۔ غسل کے بعد اس کے منہ پہ
لگانا ہے ۔‘‘
|