اچھا جیون ساتھی قسمت سے ہی ملتا ہے

اﷲ تعالی کا میں شکرگزار ہوں جس نے وفا شعار اور خدمت گزار بیوی عطا فرمائی
وہ جتنی محبت مجھ سے کرتی ہے اس سے دوگنی محبت میں اس سے کرتا ہوں
یہ آرٹیکل شادی کی 43ویں سالگرہ کے موقع پر بیگم کی خدمات کے اظہارکے لیے لکھاگیاہے

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ بڑھاپے میں بیوی نرس بن جاتی ہے ۔جوانی میں تو میں اسے ایک مذاق ہی سمجھتا رہا ہوں لیکن اب جبکہ بالوں میں سفیدی آنے کے ساتھ ساتھ بنک سے بھی ریٹائر ہو چکا ہوں اور جسم کے ہر حصے کی توانائی ،کمزوری میں بدلتی جا رہی ہے تو بیوی سے نرس بننے کی بات کا مطلب کچھ زیادہ ہی سمجھ آرہا ہے ۔بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ گزشتہ پندرہ سولہ سال سے قوت سماعت نے پریشان کررکھا ہے ۔یہ موذی مرض پیدائشی ہرگز نہیں ہے بلکہ 2005ء کی ایک صبح اچانک جب میں گھر کے برآمدے میں بیگم کے پاس بیٹھا ہوا ناشتہ کررہا تھا تو یکدم کانوں میں سماعت کا مسئلہ پیدا ہوگیا ،مجھے برتنوں کی آوازیں تو آرہی تھیں لیکن بیگم اور بچے مجھ سے مخاطب ہوکر کیا کہہ رہے تھے، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔پہلے پہلے تو یہی سمجھا کہ شاید کانوں میں میل اکھٹی ہوگئی ہو گی ۔کان صاف کروا لیے جائیں گے تو سماعت واپس آجائے گی ،لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جو ں جوں اس مرض کا علاج کروایا یہ بیماری اسی طرح بڑھتی چلی گئی ۔حتی کہ مجھے حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑا ۔بنک آف پنجاب میں ملازمت کے دوران بھی مجھے ایگزیکٹو کی بات سننے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن کچھ اچھے افسران میری اس مجبوری کو سمجھتے ہوئے جو بات کہنا چاہتے تھے وہ کاغذپر لکھ کر دے دیتے۔گھر میں یہ پریشانی یایقینا بیگم کو لاحق ہے کہ جو بات وہ کرتی ہے ،ساتھ والے گھروں میں رہنے والوں کو پتہ چل جاتا ہے لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی۔ کئی مرتبہ تنگ آکر کہنے لگتی ہے کہ آپ سے کوئی راز کی بات کرنا بھی اب ممکن نہیں رہا۔اس کے برعکس جب میں بات کرنے لگتا ہوں توآہستہ کی جانے والی بات خود مجھے بھی سمجھ نہیں آتی اس لیے میں تھوڑا اونچی آواز میں بات کرتا ہوں تو بیگم کا جواب آتا ہے کہ آپ کی آواز کچھ زیادہ ہی اونچی ہوجاتی ہے آپ مجھے سناتے ہیں یا پڑوسیوں کو۔بہرکیف کوئی اور ہوتا تو مجھے چھوڑکے جا بھی چکا ہوتا لیکن اچھی بیویاں نرم اور گرم کو اپنی اعلی ظرفی کی بدولت برداشت کرلیتی ہیں ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ میری بیوی بھی امراؤ جان ادا کی طرح ایک سلجھی ہوئی اور سلیقہ مند خاتون ہے،وہ زندگی کی اونچ نیچ کو بخوبی سمجھتی ہے۔زندگی کی 43بہاریں اس کے ساتھ کچھ اس طرح گزری ہیں کہ ابھی کل کی بات لگتی ہے جب دولہا بن کر اس کے گھر اسے دولہن کے روپ میں لینے گیا تھا ۔اس وقت سر کے بال سیاہ تھے ،آنکھوں کی بینائی بھی بالکل ٹھیک تھی،گھٹنوں میں درد کا کوئی تصور بھی نہیں تھا ۔جسمانی طور پر اتنا مضبوط تھا کہ صبح سے رات آٹھ نو بجے تک کام کرنے کے باوجود تھکاوٹ دور دور تک دکھائی نہیں دیتی تھی ۔نہ سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے خوف آتا تھا اور نہ گرمیوں میں پنکھے کے بغیر پریشانی ہوتی تھی ۔جہاں تھا جیسے تھا زندگی کی شاہراہ پر تیز سے تیز دوڑتا ہوا بغیر تھکاوٹ کے منزل مقصود پر پہنچ جایا کرتا تھا ۔

اس سال(2020-21ء) اتنی سردی پڑی کہ آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جسمانی کمزوری اور بڑھاپے کی وجہ سے سردی کچھ زیادہ ہی محسوس ہورہی تھی ،لیکن پھر یہ کہہ کر خود کو حوصلہ دے لیتاتھا کہ سکردو، گلگت ،کوئٹہ میں مارچ میں بھی اس قدر سردی پڑ رہی ہے کہ اب بھی درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے جا رہا ہے ۔لاہور میں موسم اس لیے بھی معتدل ہوگیا کہ شاید اﷲ نے ہماری تہجد میں کی جانیوالی دعائیں قبول کرلی ہیں ۔یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اﷲ نے مجھے بیس پچیس سالوں سے تہجد کی نماز اور صلوۃ تسبیح کے بعد نماز فجر باجماعت ادا کرنے کی توفیق عطا کررکھی ہے۔شاید ہی کوئی دن ایسا جاتا ہو گا جب یہ نفلی عبادت عمل پذیر نہ ہوتی ہو۔اب تو بیگم بھی میرے ساتھ مصلہ بچھا کر تہجد اور فجر کی نمازپڑھنے لگی ہے۔عمربڑھنے کے ساتھ ساتھ گھٹنوں میں درد کی تکلیف نے اپنی جگہ پریشان کررکھا ہے آرتھوپیڈک کی تجویز کردہ ادویات کھاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں جسم کا کوئی اور اہم اعضا ان بھاری بھرکم ادویات سے متاثر نہ ہوجائے ۔گھٹنوں کی روزانہ مالش کی ذمہ داری میرے بڑے بیٹے شاہد نے سنبھال رکھی ہے جس کی وجہ سے کچھ چلنے پھرنے کے قابل ہوجاتا ہوں وگرنہ گھر کی سیڑھیاں چڑھنا اور اترنا بھی محال ہو جاتا ہے۔بہرکیف بیگم کو اس بات کا علم ہے سردیوں کی صبح ٹینکی کا پانی اس قدر ٹھنڈا ہوتا ہے اگر میں نے اس سے وضو کیا تو ایک درجن چھینکیں وہیں کھڑے کھڑے مارنی پڑیں گی اور نماز تہجد پڑھنا بھول جاؤں گا۔پہلے چھینکوں کی الرجی بیگم کو تھی اب مجھے بھی پوری شدت سے یہ مرض لاحق ہوگیا ہے اگر T-dayگولی نہ ملے تو نارمل حالت میں واپس آنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہو جاتا ہے۔بیگم نے میری آسانی کے اعلی صبح موٹر چلانے کا اس طرح اہتمام کیا کہ مجھے صرف بٹن ہی دبانا پڑتا تھا لیکن نلکوں میں پہلے سے موجود ٹھنڈا پانی نکالنے کے لیے کچھ پانی ضائع کرنا پڑتا تھا ،بیگم نے اس کا حل یہ نکالا کہ آدھی بالٹی پانی بھرکر میرے بیدار ہونے سے آدھا گھنٹہ پہلے چولہا جلاکر رکھ دیتی ہیں ۔جب میں نیند سے بیدار ہوتا تو وضو والا برتن اٹھا کر باورچی خانے جاتا اور بالٹی میں سے مطلوبہ پانی لے کر وضو کر تا اورمصلے پر تہجد کے نوافل پڑھنے لگتا ۔میں نے کئی بارسوچا کہ گرم گرم بستر سے نکل کر اپنی نیند خیر باد کہہ کر بیگم صرف میرے سکھ اور آرام کے لیے جو انتظام کرتی ہے ۔اس کا اجریقینا اﷲ کے ہاں محفوظ ہوگا۔جب سے سینئر صحافی اور بیباک انسان جبار مرزا صاحب کی رانی کا انتقال ہوا ہے اور میرے محلے کے دوست محمد الیاس کی اہلیہ بھی انتقال کرچکی ہیں یہ دونوں اپنی اپنی بیگمات کی جدائی میں جس طرح نظر نہ آنے والے آنسو بہاتے ہیں انہیں دیکھ کر میں نے اپنے جیون ساتھی کی صحت اور سلامتی کے لیے دعاؤں کی مقدار دوگنی کردی ہے۔میں یہی دعا کرتا ہوں اے اﷲ جب ہم دونوں میں سے دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آئے تو پہلے مجھے ہی اپنے پاس لے جانا ۔بیگم شاید میرے بغیر بچوں کی محبت میں شوہرکی جدائی کے لمحات گزار لے گی لیکن جتنی آسانیاں بیگم کی وجہ سے مجھے میسر ہیں ان کامتبادل اور کوئی نہیں ہوسکتا۔یہ بھی اﷲ کا شکر ہے کہ میری دونوں بہوئیں اپنی اپنی ڈیوٹی نہایت ذمہ داری سے انجام دیتی ہیں لیکن وہ کوشش کے باوجود بھی میرے لیے اتنی آسانیاں فراہم نہیں کرسکتیں جتنی بیگم نے کررکھی ہیں ۔

جنوری کے وسط میں بیگم کے بھائی ممتاز خان کے منجھلے بیٹے احسان کی شادی تھی ، پروگرام کے تحت بارات نے بذریعہ بس ہربنس پورہ سے گوجرانوالہ جانا تھا ۔گھٹنوں میں آپریشن کی وجہ سے میں عام واش روم استعمال نہیں کرسکتا ،پیٹ میں کب ایمرجنسی نافذ ہوتی اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتااس لیے میں نے بارات کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔شام ڈھلے نماز کے بعد کھانا کھایا اور بستر پر دراز ہوکر ٹی وی دیکھنے لگا خبرنامے کے بعد نیند کی گہری وادی میں جا پہنچا ،رات کے بارہ بجے ہوں گے جب مجھے اپنے پیٹ میں اٹھتا ہوا طوفان محسوس ہوا۔یہ طوفان قے کی شکل اختیار کرتا جارہا تھا میں نے کافی دیر تک چہل قدمی کی لیکن طوفان تھمنے کا نام نہ لے رہا تھا۔ رات کا پچھلا پہرشروع ہوچکا تھا میں نے موبائل پر کال کی اور بیگم بچوں سے پوچھا وہ لاہورکب پہنچ رہے ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ ابھی ان کی بس لاہور سے کچھ فاصلے پر ہے ایک ڈیڑھ گھنٹہ مزید لگے گا۔ادھر میری طبیعت خراب سے خراب ہوتی جارہی تھی ،کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں ۔رات ڈیڑھ بجے گھر پہنچے اور چھوٹا بیٹا مجھے لے کر ڈاکٹر کے پاس گیا ۔ڈاکٹر کی دوائی سے کچھ افاقہ تو ہوا لیکن خوراک کی نالی میں زخم محسوس ہونے لگے ۔صبح ناشتہ کرنے لگا تو جب بھی منہ میں نوالہ ڈالتا اور اسے نگلنے کی جستجو کرتا تو جہاں جہاں سے نوالہ گزرتا تکلیف دیتا ہوا گزرتا ۔عجیب مجھت صورت حال کا سامنا تھا ۔محلے کے ڈاکٹر کو چیک کروایاان کی تشخیص کردہ ادویات دوہفتے کھاتا رہا لیکن منہ کا ذائقہ خراب ہونے کے ساتھ ساتھ خوارک کی نالی کی تکلیف نے مجھے پریشان کردیا ۔اس سے پہلے نزلہ اور زکام نے کافی دن پریشان کیے رکھا ۔نزلہ تو ٹھیک ہوگیا کھانسی ٹھہرنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔معالجین نے ادویات سمیت ہرلمحے گرم پانی پینے کی تاکید کی ۔ایک دو بارہو تو ممکن ہوجاتا ہے مسلسل ایک مہینے تک ہر وقت پینے والاگرم پانی فراہم کرنا بھی بیگم کے لیے مشکل تھا۔وہ تھرموس بھرتی چند گھنٹے بعد پھروہ خالی ہوجاتا ۔گیس پریشرکی کمی ایک الگ مسئلہ تھا،پھر ہر نماز سے پہلے وضوکے لیے گرم پانی فراہم کرنا بھی آسان نہیں تھا جبکہ بیگم کی اپنی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی ۔میں نے یہ بات شدت سے محسوس کی کہ اس نے اپنے دکھ درد بھولا کر میرے لیے زندگی کو آسان بنانے کے لیے اپنی کاوشوں کا بھرپور استعمال جاری رکھا۔اﷲ کا لاکھ لاکھ شکرہے کہ ڈاکٹر جمشید جساوالا کے طریقہ علاج سے خوراک کی نالی میں ہونے والا زخم توٹھیک ہوگیا اور میں پہلے کی طرح کھانے پینے لگا۔لیکن اس وجہ سے احسان کی بارات اور ولیمے میں ،میں شرکت نہیں کرسکا جس کا مجھے بے حد افسوس ہے۔

یہ بھی بتاتا چلوں کہ ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی میری دائیں آنکھ میں سفید موتیا اترآیا تھا، دیکھنے اور چلنے پھر نے میں خاصی دقت کا سامنا تھا ۔میں نے سوچا چلو ایک آنکھ کا آپریشن کروا لیتے ہیں ،معالجین کے بقول آپریشن کے دوران چونکہ لینز آنکھ میں فکس کردیئے جاتے ہیں اس لیے بینائی پہلے سے نہ صرف ٹھیک ہوجاتی ہے بلکہ عینکیں بھی اتر جاتی ہیں ۔بینائی کی بہتری کے لیے میں نے بھی آپریشن کا کڑوا گھونٹ پی لیا ۔اس وقت چونکہ میں ابھی چھ ماہ کی چھٹی پر تھا اور مجھے بنک کی جانب آپریشن کے اخراجات مل سکتے تھے اس لیے نیشنل ہسپتال ڈیفنس کا انتخاب کیا ۔جس آئی سپیشلسٹ نے آپریشن کیا وہ اس قدر بیباک تھا کہ اس نے آپریشن سے پہلے ہی مجھے کہہ دیا کہ انشورنس کمپنی والے آنکھ میں ڈالے جانے والے لینز کی قیمت چالیس ہزار دیتے ہیں لیکن جو لینز میرے پاس ہے اس کی قیمت پچاس ہزار روپے ہے۔اس طرح آپ کو آپریشن سے پہلے دس ہزار روپے جمع کروانے ہونگے ۔نہ چاہتے ہوئے بھی دس ہزار ادا کردیئے گیے ۔آپریشن ہوگیا اور گھر میں سورج کی روشنی سے بچ کر آرام کرنے لگا ۔ابھی ایک دو ہفتے ہی گزرے ہونگے کہ بجلی کا ماہانہ بل آٹھ ہزار آگیا ۔نئے مکان کی خرید اور مرمت کے دوران میں اس قدر مقروض ہوچکا تھا کہ آٹھ ہزار بل نے مجھے پریشان کردیا۔ دونوں بیٹے تو یہ کہتے ہوئے اپنے اپنے دفتر چلے گئے کہ انہیں چھٹی نہیں ملتی،اب ساری ذمہ داری مجھ پر آن پڑی ۔ڈاکٹر نے مجھے بائیک چلانے سے منع کیا تھا لیکن مجبوری کے عالم میں مجھے گھر سے نکلنا پڑا اور غازی روڈ ڈیفنس کے ایس ڈی او آفس میں بل کم کروانے جا پہنچا جب وہاں سے انکار ہوا تو لیسکو ہیڈکوارٹرشارع فاطمہ جناح روانہ ہوگیا۔ بائیک چلاتے ہوئے تیزہوا میری آپریشن والی آنکھ میں لگتی ہوئی محسوس ہورہی تھی لیکن اس سے بچاؤ ممکن نہیں تھا۔ وہاں ایک دوست کے توسط سے بجلی کا بل تو کچھ کم ہوگیا لیکن آپریشن والی آنکھ سے پانی ایسا بہنا شروع ہوا کہ آج تک سات سال ہوچلے ہیں، لاہور کے تمام آئی سپیشلسٹ کو چیک کروا چکا ہوں لیکن نہ آنکھ سے بہنے والا پانی ختم ہوا ہے اور نہ آنکھ کی بینائی ٹھیک ہوئی ہے ۔کسی کا کچھ نہیں گیا بڑھاپے میں ،پانی کے ساتھ ساتھ بینائی میں بھی شدید کمی واقع ہوتی جا رہی ہے ۔بیگم کی اولین خواہش ہوتی ہے کہ وہ جہاں بھی غمی و خوشی میں جائے ،وہاں میں اس کے ساتھ ہوں ،لیکن بینائی کی کمی اور دائیں آنکھ سے بہنے والے پانی نے نظر بہت حد تک کمزور کردی ہے ۔اب مجھے بائیک چلاتے ہوئے دن کے اجالے میں بھی سیوریج کے اونچے نیچے ہول اور لاہور کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکوں کے گڑھے بھی ٹھیک سے نظر نہیں آتے ۔رات کے وقت بطورخاص اندھیرے میں صاف دکھائی نہیں دیتا ۔ اس لیے بیگم سے میں نے درخواست کی ہے کہ جب میں بائیک چلارہا ہوں تو سامنے آنے والے گڑھے اور اونچے نیچے گٹردیکھنے کی ذمہ داری اس کی ہوگی ۔وہ بے چاری جو قدم قدم پر میری مدد کیا کرتی خود اس کی بھی آنکھوں کی بینائی بھی خاصی کمزور ہو تی جارہی ہے۔ایک مرتبہ جب ہم دونوں سسرال جارہے تھے ،اچانک سامنے گڑھا آگیا اس سے بچنا اب ممکن نہیں تھا جیسے ہی بائیک اس سے ٹکرائی تو ہم دونوں زمین بوس ہوگئے۔بیگم سخت غصے میں بولی آپ کو موٹر سائیکل بھی چلانی نہیں آتی ۔ میں مسکراتے ہوئے کہا 42سال پہلے تو آتی تھی لیکن اب بھولتا جا رہا ہوں ۔میرے ساتھ آنے کی بجائے اپنے بیٹوں کے ساتھ سفرکرلیا کرو۔لیکن مجال ہے کہ وہ میرے بغیر کہیں جائے ،جب بھی اسے اپنے کسی بہن بھائی کے گھرجانا ہوتا ہے تو اس کی اولین خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ میرے ساتھ ہی جائے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ جب ہماری شادی نئی نئی ہوئی تھی تو ہم دونوں (اس وقت میرے پاس سائیکل ہواکرتی تھی)سائیکل پر سوارکر بیگم کی بڑی بہن کے گھر دعوت کھانے کھر سے نکلے۔ ابھی کچھ دور ہی گئے ہونگے کہ ایک جگہ کھڑے ہوئے پانی نے کیچڑ کا خاصا ماحول پیدا کررکھا تھا جب میں اس مقام پر پہنچا تو سائیکل پھسل گئی اور ہم دونوں کیچڑ میں جا گرے ۔اس وقت اسے ابھی میرے سامنے بولنا نہیں آتا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں، میں نے اتنا غصہ دیکھا کہ خوفزدہ ہوگیا ۔اگریہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ زندگی کے 43سال بیگم کے ساتھ معرکہ آرائی ،غربت ، بے وسائلی، افرتفری اور مشکلات پر قابو پاتے ہوئے ہی گزرگئے اب جبکہ اﷲ نے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ ساتھ پوتے پوتیاں اور نواسے بھی عطا کردیئے ہیں ۔غربت اور بے وسائلی کے دن بھی ختم ہوچکے ،اب بڑھاپے نے پریشان کررکھا ہے کچھ کھانے کو دل کرتا ہے تو ڈاکٹرمنع کردیتے ہیں کہیں سیر سپاٹے کو دل چاہتا ہے تو جسم اجازت نہیں دیتا۔اس پہر زندگی کی نسبت موت زیادہ قریب دکھائی دے رہی ہے ۔دیکھتے ہیں دنیا سے پہلے جانے کی باری کس کی آتی ہے۔44ویں سالگرہ دیکھنا نصیب ہوتی بھی ہے یا نہیں ۔ایک بات میں ضرور کہوں گا کہ بیگم کے میری زندگی میں آنے سے میری شخصیت میں نکھار سا پیدا ہوگیا ہے ،میں شادی سے پہلے اتنا معاملہ فہم اور جہاندیدہ نہیں تھا، جتنا اب ہوں۔اڑتی چڑیا کے پر گننا مجھے باوفا بیوی نے ہی سکھایا ہے۔

 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 659912 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.