شبِ برات کی فضیلت و اہمیت، چند خرافات اور ہماری بے اعتدالیاں

image
 
ماہِ شعبان ایک بابرکت مہینہ ہے، ”شعبان“ عربی زبان کے لفظ ”شَعّْبْ“ سے بنا ہے، جس کے معنی پھیلنے کے آتے ہیں اور چوں کہ اس مہینے میں رمضان المبارک کے لیے خوب بھلائی پھیلتی ہے اسی وجہ سے اس مہینے کا نام ”شعبان“ رکھا گیا۔ (عمدة القاری، باب صوم شعبان۱۱/۱۱۶، فیض القدیر۲/۳)
 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے کے اکثر حصے میں روزے رکھتے تھے؛ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: مَا رَأَیْتُ رسولَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اِسْتَکْمَلَ صِیَامَ شَہْرٍ قَطُّ الَّا رَمَضَانَ وَمَا رَأَیْتُہ فِيْ شَہْرٍ اَکْثَرَ مِنْہُ صِیَامًا فِيْ شَعْبَانَ (صحیح بخاری ۱/۲۶۴، صحیح مسلم ۱/۳۶۵) یعنی میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پورے اہتمام کے ساتھ) رمضان المبارک کے علاوہ کسی پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوں۔
 
اللہ تعالیٰ کی طرف اعمال کا اٹھایا جانا
 حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شعبان کا مہینہ رجب اور رمضان کے درمیان کا مہینہ ہے، لوگ اس کی فضیلت سے غافل ہیں؛ حالاں کہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال پروردگارِ عالم کی جانب اٹھائے جاتے ہیں، لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتاہوں کہ میرا عمل بارگاہِ الٰہی میں اس حال میں پیش ہو کہ میں روزہ دار ہوں۔ (شعب الایمان حدیث ۳۸۲۰، فتح الباری ۴/۲۵۳)
 
مرنے والوں کی فہرست کا ملک الموت کے حوالے ہونا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ماہِ شعبان میں اس کثرت سے روزے کیوں رکھتے ہیں؟ ارشاد فرمایا: اس مہینے میں ہر اس شخص کا نام ملک الموت کے حوالے کردیا جاتا ہے جن کی روحیں اس سال میں قبض کی جائیں گی؛ لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتاہوں کہ میرا نام اس حال میں حوالے کیا جائے کہ میں روزے دار ہوں۔ (مسند ابو یعلی حدیث ۴۹۱۱، فتح الباری ۴/۲۵۳ٌ
 
image
 
شبِ برات کی فضیلت و اہمیت
ماہِ شعبان کی پندرہویں شب ”شبِ برأت“ کہلاتی ہے، برات کے معنی ”رستگاری وچھٹکارا“ کے ہیں- احادیث شریفہ میں شبِ برات کی بہت زیادہ فضیلت اور اہمیت بیان کی گئی ہے، جن میں سے چار حدیثیں پیش کی جاتی ہیں:
 
(۱) بے شمار لوگوں کی مغفرت:
عَنْ عَائِشَةَ قالت فَقَدتُّ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لَیْلَةً فَخَرَجْتُ فَاِذَا ہُوَ بِالبَقِیْعِ فَقَالَ أَکُنْتِ تَخَافِیْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللّٰہُ عَلَیْکِ؟ قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ظَنَنْتُ اَنَّکَ اَتَیْتَ بَعْضَ نِسَائِکَ فَقَالَ اِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وتَعَالٰی یَنْزِلُ لَیْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ اِلٰی سَمَاءِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لِاَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ․ (ترمذی شریف ۱/۱۵۶، ابن ماجہ ،ص۹۹)
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے، فرماتی ہیں: میں نے ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر نہ پایا، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلی، تو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع (مدینہ طیبہ کا قبرستان) میں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھے دیکھ کر) ارشاد فرمایا: کیا تو یہ اندیشہ رکھتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیرے ساتھ بے انصافی کرے گا؟ (یعنی تیری باری میں کسی دوسری بیوی کے پاس چلا جائے گا؟) میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے یہ خیال ہوا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور قبیلہٴ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔ (بنوکلب عرب کا ایک قبیلہ تھا، عرب کے تمام قبائل سے زیادہ اس کے پاس بکریاں ہوتی تھیں۔ (مرقاة شرح مشکوٰة ۳/۳۳۹)
 
(۲) صبح تک اللہ تعالیٰ کی ندا:
عَنْ عَلِیِّ بنِ اَبِیْ طالبٍ قال قال رسولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اِذَا کانَتْ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُوْمُوا لَیْلَہَا وصُوْمُوْا نَہَارَہَا فَاِنَّ اللّٰہَ یَنْزِلُ فِیْہَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ اِلٰی سَمَاءِ الدُّنْیَا فیَقُولُ اَلاَ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِیْ فَاَغْفِرَ لَہ اَلاَ مِنْ مُسْتَرْزِقٍ فَاَرْزُقَہ اَلاَ مُبْتَلاً فَاُعَافِیْہِ کَذَا اَلاَ کَذَا حتّٰی یَطْلُعَ الْفَجْرُ․ (ابن ماجہ ص۹۹، شعب الایمان ۳/۳۷۸، حدیث ۳۸۲۲) ترجمہ: حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جب نصف شعبان کی رات آجائے تو تم اس رات میں قیام کیا کرو اور اس کے دن (پندرہویں تاریخ) کا روزہ رکھا کرو؛ اس لیے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ سورج غروب ہونے سے طلوعِ فجر تک قریب کے آسمان پر نزول فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ کیا ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا جس کی میں مغفرت کروں؟، کیا ہے کوئی مجھ سے رزق کا طالب کہ میں اس کو رزق عطا کروں؟ کیا ہے کوئی کسی مصیبت یا بیماری میں مبتلا کہ میں اس کو عافیت عطا کروں؟ کیا ہے کوئی ایسا؟ کیا ہے کوئی ایسا؟ اللہ تعالیٰ برابر یہ آواز دیتے رہتے ہیں؛ یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا ہے۔
 
(۳) کن لوگوں کی مغفرت نہیں ہوتی:
عَنْ اَبِیْ مُوسیٰ الاشْعَرِیِّ عَنْ رسولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: اِنَّ اللّٰہَ لَیَطَّلِعُ فی لَیْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِجَمِیْعِ خَلْقِہ اِلاَّ لِمُشْرِکٍ او مُشَاحِنٍ․ (سنن ابن ماجہ ص۹۹، شعب الایمان للبیہقی ۳/۳۸۲)ترجمہ: حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ جھانکتے ہیں یعنی متوجہ ہوتے ہیں نصف شعبان کی رات میں، پس اپنی تمام مخلوق کی مغفرت فرمادیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے۔
 
شبِ برات میں کیا کیا جائے؟
(۱) شب برات میں عبادت کریں
اس سلسلے میں چند باتیں پیش نظر رہنی ضروری ہیں: (الف): نفلی عبادت تنہائی میں اور اپنے گھر میں ادا کرنا افضل ہے؛ لہٰذا شب برات کی عبادت بھی گھر میں کریں، مسجد میں نہیں، حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اِجْعَلُوْا فِیْ بُیُوْتِکُمْ مِنْ صَلَاتِکُمْ وَلَا تَتَّخِذُوْہَا قُبُوْرًا“ (بخاری شریف ۱/۱۵۸) اپنی نماز کا کچھ حصہ اپنے گھروں میں بناؤ یعنی نوافل گھر میں ادا کرو اور ان کو قبرستان نہ بناؤ کہ قبرستان میں نماز نہیں پڑھی جاتی (تحفة القاری ۳/۵۰۷)
 
(ب) اس رات میں (اسی طرح شب قدر میں بھی) عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں؛ ذکر وتلاوت، نفل نماز، صلاة التسبیح وغیرہ کوئی بھی عبادت کی جاسکتی ہے۔
 
image
 
(ج) اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق عبادت کرنی چاہیے، اتنا بیدار رہنا صحیح نہیں ہے کہ آدمی بیمار ہوجائے۔
 
(د) پورے سال فرض نماز کا اہتمام کیا جائے، صرف شب برات میں نفلی عبادت کرکے اپنے کو جنت کا مستحق سمجھنا باطل خیال ہے، یوں اللہ تعالیٰ مختار کل اور قادر مطلق ہے جس کو چاہے معاف کرسکتا ہے۔
 
(ھ) بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس رات میں ایک مخصوص طریقے سے دو رکعت نماز پڑھ لی جائے تو جو نمازیں قضا ہوگئیں وہ سب معاف ہوجائیں گی۔ یہ بات بالکل بے اصل ہے۔
 
(و) شب برات میں فضول گپ شپ میں شب بیداری کرنا، گلیوں، چوراہوں اور ہوٹلوں میں وقت گزارنا بالکل بے سود؛ بلکہ ”نیکی برباد گناہ لازم“ کا مصداق ہے۔
 
شب برات کی خرافات
(۱) آتش بازی
 ان بدعات وخرافات میں سب سے بدترین اور ملعون رسم ”آتش بازی“ ہے، جو آتش پرستوں اور کفار ومشرکین کی نقل ہے، اس شیطانی رسم میں ہرسال مسلمانوں کی کروڑوں کی رقم اورگاڑھی کمائی آگ میں جل جاتی ہے، بڑی دھوم دھام سے آگ کا یہ کھیل کھیلا جاتا ہے، گویا ہم خدائے تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی نیازمندی اور عبادت واستغفار کا تحفہ پیش کرنے کے بجائے اپنے پٹاخے اور آگ پیش کرتے ہیں۔
 
واضح رہے کہ آتش بازی کی یہ بدترین رسم تین بڑے گناہوں کا مجموعہ ہے:
 
(الف) اسراف وفضول خرچی
قرآنِ کریم میں اپنی کمائی فضولیات میں خرچ کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے، ارشادِ خداوندی ہے: ”اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْن“ بے شک فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں۔ (سورئہ بنی اسرائیل:۲۷)
 
(ب) کفار ومشرکین کی مشابہت
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار ومشرکین اور یہود ونصاریٰ کی مشابہت اختیار کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایاہے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ (مشکوٰة شریف ص۳۷۵) یعنی جو شخص کسی قوم سے مشابہت اور ان کے طور طریق اختیار کرے گا اس کا شمار انھیں میں ہوگا؛ مگر افسوس ہے ہماری زندگی پر کہ ہر چیز میں آج ہم کو غیروں کا طریقہ ہی پسند ہے اور اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے نفرت ہے۔
 
(ج) دوسروں کو تکلیف دینا
جب پٹاخے چھوڑے جاتے ہیں تو اس کی آواز سے کتنے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے اس کو ہر شخص جانتا ہے، جب کہ ہمارا مذہب اسلام ہم کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک مومن آدمی سے کسی بھی شخص کو (مسلم ہو یا غیرمسلم) تکلیف نہیں ہونی چاہیے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الْمُوٴْمِنُ مَنْ اَمِنَہُ النَّاسُ علٰی دِمَائِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ، (ترمذی شریف۲/۹۰) یعنی صحیح معنی میں موٴمن وہ شخص ہے جس سے تمام لوگ اپنی جانوں اور مالوں پر مامون اور بے خوف وخطر رہیں، یہاں تک کہ جانوروں کو تکلیف دینا بھی انتہائی مذموم، شدید گناہ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ (صحیح بخاری ۲/۸۲۸، صحیح مسلم حدیث ۱۹۵۸، کتاب الصید والذبائح) حاصل یہ ہے کہ صرف ”آتش بازی“ کی ایک رسم کئی بدترین اور بڑے گناہوں کا مجموعہ ہے، جو کسی بھی طرح مسلم معاشرے میں رواج پانے کے لائق نہیں؛ بلکہ پہلی فرصت میں قابلِ ترک ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE: