امریکہ ، پاکستان اور ہمارے سیاستدان

ڈرانا ، ڈرا کر پیار کرنا ، پیار میں لپٹا کر دبوچ لینا اور دباکر پھر منالینا یہ کام ہے اس ملک کا جس کا نام امریکہ ہے اور جو اپنے آپ کو سپر پاور کہتا ہے لیکن اس سپر پاور کا نزلہ اکثر و بیشتر مسلم ممالک پر ہی گرتا ہے، وہ سپرپاور ہونے کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن لمیٹڈ تھنکنگ کا اظہار کرکے اپنی ساری توجہ مسلم ممالک پر مرکوز رکھتا ہے ، جس سے یہ بھی تاثر ملتا ہے کہ وہ ان ہی ممالک سے ڈرتا ہے اور یہ ایک حقیقت بھی ہے کیونکہ بہرحال اسلام اور مسلمانوں کا ڈر و خوف اس کے دل و دماغ میں اسے اپنے آباؤ اجداد سے ملا ہے یہ اور بات ہے کہ مسلم ممالک کے عیاش ، بد کردار , بدعنوان حکمران اور سیاست دان اپنے مفادات کے لیئے اس کی غلامی کرنے میں اس کے تصورات سے دو ہاتھ آگے ہیں ، یہ ہی گھٹیا ذہن کے حکمران قوموں کو غلام بننے پر مجبور کردیتے ہیں اور کرتے ہیں۔

ملک اور قوم کو امریکہ کی غلامی کرانے پر مجبور کردینے والے حکمرانوں میں پاکستان کے حکمران چاہے وہ سول ہوں یا فوجی سر فہرست ہیں۔

آج ملک میں جو کچھ ہورہا ہے وہ سب ایسے ہی حکمرانوں کی بدولت ہے ، امریکہ سے جان چھڑانے کے نعرے جتنی قوت سے ہمارے ملک میں لگائے جاتے ہیں اتنی کشش سے ہم امریکہ کے قریب ہوتے چلے جارہے ہیں اور آج ہماری یہ حالت ہوگئی ہے کہ ہم امریکی دہشت گرد کو سر عام گرفتار کرنے کے باوجود اسے عزت و وقار سے چھوڑ دیتے ہیں جس کی مثال ریمنڈ ڈیویس ہے۔ جبکہ پاکستان کی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی 82 سال کی سزا دے دیتے ہیں شائد اس لیئے کہ وہ بے گناہ تھی اور ریمنڈ ڈیویس ایک دہشت گرد تھا جسے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا تھا۔

پرویز مشرف کو ایک امریکی (جن کا نام لکھنا میں ضروری نہیں سمجھتا ) نے پتھر کے دورمیں لے جانے کی دھمکی دی اور عالمی دھشت گردوں کے خلاف کاروائی کے نام پر پاکستان میں اس آپریشن کا آغاز کیا کہ جس سے جان چھڑانا مشکل ہوگیا اور آج پوری قوم اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے ، جن صاحب نے یہ فیصلہ کیا وہ آرام سے اپنے کیئے کی کھا رہے ہیں۔

مگر ایسا لگتا ہے کہ ملک اور قوم ، امریکہ کی بات ماننے کے باوجود پتھر کے دور میں داخل ہوچکی ہے۔

ہوسکتا ہے کہ بعض لوگ اس بات پر اعتراض کریں اور کہیں کہ یہ تو اس سے بھی بد تر دور ہے کیونکہ اس دور میں بجلی، گیس ، پانی کا نظام موجود ہونے کے باوجود قوم اس سے محروم ہورہی ہے، پتھر کے دور میں تو ان سہولیات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ہاں البتہ طاقت ور اہلکار جس کو چاہے مار دیا کرتے تھے ، تو آج ہمارے ملک میں کیا ہورہا ہے ؟ آج تو قوانین بھی موجود ہیں پھر بھی ایسی لاقانونیت یہ پتھر کے دور کی ہی تو باتیں ہیں۔

امریکہ کے حوالے سے مجھے یہ سب کچھ اس لیئے لکھنے کا موقع ملا کہ امریکہ اور امریکی افواج کے لوگوں نے ایک بار پھر پاکستان کو ڈرانا اور ساتھ میں پیار کرنا بھی شروع کردیا وہ ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان سے تعلقات کشیدہ ہیں تو دوسری طرف کہتے ہیں کہ” مگر ہم امداد بند نہیں کریں گے“ ۔

ایبٹ آباد میں کیئے گئے مبینہ خود ساختہ آپریشن جس میں اسامہ کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا کے بعد امریکی صدر بارک اوبامہ نے کہا تھا کہ اگر پاکستان میں کہیں بھی القائدہ یا طالبان لیڈر نظر آئے تو اسی طرح کی کاروائی کی جائے گی لیکن جب ان تنظیموں کے لوگوں نے دو دن بعد ہی پاکستان کی حساس تنصیبات پر کراچی میں حملہ کیا تو امریکہ کے صدر یا اس کے حساس نظام کو ان کا پتہ نہیں چلا۔ آخر کیوں ؟ کیا امریکی کی جاسوسی کا نظام پاکستانی تنصیبات کو نقصان پہنچانے والے افراد کی نشناندہی کرنے سے معذور ہے؟

پی این یس مہران کراچی میں دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں جو دو امریکی جہاز تباہ ہوئے امریکہ نے اب اسی طرح کے جہاز پاکستان کو دینے پر رضا مند ہوگیا آخر کیوں؟ جب پاکستان سے تعلقات کشیدہ ہونے کا واویلہ مچایا جارہا ہے، جب پاکستان کے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں روزانہ ڈرون حملے کیئے جارہے ہیں تو پھر یہ محبت کس لیئے ؟ اور اس کے بدلے میں پاکستان سے کیا لینے کی کوشش کی جائے گی؟

امریکہ کو پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کی بہت فکر ہے اکثر و بیشتر وہ ان تنصیبات کا ذکر کرتا رہتا ہے آخر کیوں ؟

مجھ جیسے نا سمجھ لوگ بھی یہ سمجھنے لگے ہیں کہ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو بنیاد پرستوں ، اور دہشت گردوں سے زیادہ امریکہ اور اس کی لے پالک دہشت گرد تنظیموں سے خطرہ ہے لیکن کیا ہمارے سیاست دان ، حکمران اور ایجنسیاں یہ بات نہیں سمجھتی؟

پاکستان کے سیاست دانوں خصوصا میاں نواز شریف اور آصف زرداری کو چاہیئے اس نازک موڑ پر صرف اپنے مفاد کے لیئے سیاست کرنے کے بجائے ملک اور قوم کے لیئے انہیں کچھ کرنا چاہیئے ورنہ وہ دن دور نہیں جب دور حاضر کے سیاست دانوں کا نام تاریخ میں ہمیشہ کے لیئے ”سیاہ سیاسی باب“ کے طور پر لکھا جائے گا۔

ویسے بھی میاں صاحب سب کو معلوم ہے کہ آپ موجودہ حکومت کے کتنے دوست اور کتنے دشمن ہیں لوگوں کو اندازہ ہے کہ آپ وہ شیر ہیں جو صرف غراتا ہے لیکن حملہ نہیں کرتا۔۔۔۔۔کیونکہ آپ ابھی پیپلز پارٹی کی حکومت کو گرانا نہیں چاہتے صرف ڈرانا چاہتے ہیں اسی طرح جیسے امریکہ پاکستانی حکمرانوں کو ڈراتا ہے نہ امریکہ موجودہ حکومت کو گرائے گا اور نہ نواز شریف سمیت تمام شور شرابہ کرنے اور انقلاب کی باتیں کرنے والے سیاست دان ایسا چاہیں گے کیونکہ یہ سب اپنے مفاد کا کھیل کھیل رہے ہیں ۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 166358 views I'm Journalist. .. View More