|
|
حال ہی میں انتقال کر جانے والے پاکستان کے معروف گلوکار
شوکت علی کی طبعیت میں پائی جانے والی عاجزی اور سادگی کے بہت چرچے تھے-
اور وہ اپنی ان خصوصیات کے باعث بھی اکثر لوگوں میں پسند کیے جاتے تھے- |
|
ایک بار کسی نے شوکت علی سے ان کی اتنی کامیابیوں کے
باوجود عاجزی والی طبعیت کا راز دریافت کیا تو شوکت علی نے اپنی والدہ کا
قصہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ "یہی بات میں نے اپنی ماں سے بھی پوچھی تھی کہ
لوگ کامیاب ہونے کے بعد مغرور کیوں ہوجاتے ہیں تو ماں نے مسکراتے ہوئے صرف
اتنا کہا تھا کہ ’میں نے تمہارے منہ سے وہ زہر والی تھیلی کاٹ دی ہے، جو
تمہیں دوسروں کو حقیر سمجھنے پر اکسائے- |
|
پاکستان کے معروف رائٹر و ڈائریکٹر پرویز کلیم پرویز
کلیم شوکت علی کی انکساری اور سادہ دلی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں
کہ جب وہ شوکت علی اور پاکستانی صحافی حسن نثار اور شاعر منیر نیازی کے
ساتھ جالندھر پہنچے تو وہاں ہربجھن مان اور گرداس مان احتراماً شوکت علی کے
گھٹنوں کو چھو رہے تھے تب انھوں نے دل. میں سوچا کہ ""شوکت علی کو گانے
والے انڈیا میں محلوں میں رہتے ہیں اور شوکت علی پاکستان میں چھوٹے سے مکان
میں زندگی بسر کر رہے ہیں"- |
|
|
|
بھارتی فنکاروں میں شوکت
علی کی مقبولیت |
کہتے ہیں فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ یہ بات شوکت علی پر
صادق آتی ہے جو پاکستان کی طرح بھارت میں بھی نہ صرف سننے والوں کے دل میں
جگہ بنائے ہوئے تھے بلکہ کئی نامی گرامی گلوکار انھیں اپنا استاد بھی مانتے
تھے۔ |
|
بھارتی گلوکار جس بھیر سنگھ جسی نے شوکت علی کی وفات پر
کہا کہ "شوکت علی دونوں اطراف کے پنجاب کے بادشاہ تھے اور ہم انھیں سن کر
گلوکار بنے ہیں"- |
|
بھارت کے ایک اور مشہور گلوکار دلیر سنگھ مہدی نے بھی
دکھی لہجے میں کہا کہ "شوکت علی پنجاب کے لاڑھے (دولھا ) تھے۔ ان کے چلے
جانے سے پنجابی موسیقی کی مانگ اجڑ گئی ہے"- |
|
|
|
ہنس راج ہنس نے کہا کہ" دنیا پر ایک مشکل وقت چل رہا ہے اور اچھے لوگ یہاں
سے جا رہے ہیں۔ ہمیشہ یوں لگا کہ شوکت علی پاکستان کے ساتھ ساتھ انڈیا کے
بھی آرٹسٹ تھے"- |
|
|