للن شیخ اور کلن خان حسب معمول گلی کے نکڑ پر بیٹھے گپ شپ
کررہے تھے کہ دور سے آواز آئی السلام علیکم ۔
کلن ایک پھٹے حال نوجوان کو دیکھ کر آہستہ سے بولا یہ لو خود چل کرآرہا
ہے نیا شکار۔
للن نے ڈانٹ کر کہا چپ کرو ۔ اپنی کالی زبان بند رکھو ۔
نوجوان نے قریب آکر کلن کی جانب اشارہ کیا اور بولا سر آپ للن شیخ ہیں ؟
کلن نے جواب دیا جی نہیں میں کلن خان ہوں ۔ یہ ہیں تمہارے للن شیخ ۔
نوجوان نے دوبارہ سلام کیا اورللن سے مخاطب ہوکر بولا سر مجھے آپ سے ایک
ذاتی بات کرنی ہے۔
للن نے کہا بولو کیا مسئلہ ہے؟
اس نوجوان نے اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر بولا سر میں اکیلے میں آپ سے اپنی
بات کہنا چاہتا ہوں ۔
کلن بگڑ کر بولا تو کیا عالم پناہ تخلیہ چاہتے ہیں اورمیں یہاں سے دفع
ہوجاوں ۔ حد ہوگئی یار؟
للن نے سمجھایا دیکھو بھائی تم نہیں جانتے۔ ہم ایک جان دو قالب ہیں۔
میں آپ کی بات نہیں سمجھ سکا معافی چاہتا ہوں ۔
دیکھو ایسا ہے کہ تم مجھے اکیلے میں بھی جو کچھ بولو گے اس کو پتہ چلا جائے
گا اس لیے بلاتکلف بولو۔
نوجوان کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ وہ تھوک نگل کربے یقینی سے بولا
اگر ایسا ہےتو۰۰۰۰
اس سے پہلے کہ کلن کچھ اور بولتا للن نے کہا تم کو شاید پیاس لگی ہے۔
وہ بولا جی ہاں جناب۔ میں بہت پیاسا ہوں ۔
دیکھو وہ کونے والی دوکان سے بسلیری کی ایک ٹھنڈی بوتل لے آو۔ پہلے ہم
پانی پئیں گے پھر بات کریں گے۔
غریب نوجوان حیرت سے بولا بسلیری ! میں لاوں ؟
کلن نے کہا نہیں تو کیا عالم پناہ کے لیے میں پانی لے کر آوں ۔
للن پھر مداخلت کرکے بولا دیکھو تم اس کو میرا نام بتاو گے تو وہ پیسے نہیں
لے گا ۔ جاو جلدی سے لے کر آو۔
نوجوان کے جاتے ہی کلن بولا دیکھو یہ بہت بڑا کلاکار لگتا ہے۔ پانی کو
پوچھا تو بہت پیاس لگی ہے ۔ کھانے کو پوچھوگے تو بولے گاکئی ہفتوں سے بھوکا
ہوں۔
ارے بھائی اس بدگمانی کی بیماری سے نکلو ۔ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ واقعی
پیاسا ہو؟
جی ہاں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھوکا ہو۔ ایسے بھوکے پیاسے لوگوں کو ہمارا
پتہ نہ جانے کیسے مل جاتاہے؟
ارے بھائی انسان چھاوں کے لیے سایہ دار درخت کے نیچے ہی آتا ہے اس میں
تعجب کی کیا بات ہے؟
خدا تمہارا سایہ ان کے سر برقرار رکھے لیکن تم جیسے لوگوں نے قوم کو بھیک
منگا بنادیا ہے۔
مجھ جیسے لوگوں نے؟ میں تو کسی کا استحصال نہیں کرتا۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن اس جیسے ہٹھے کٹھے نوجوانوں کی مدد کرکے ان کو نکھٹو
توبناتے ہو۔
ارے بھائی اس نے تو ابھی اپنی کوئی حاجت بھی پیش نہیں کی اور تم شروع
ہوگئے۔
تم کو تو پتہ ہی ہے ہم اڑتے پنچھی کے پر گن لیتے ہیں ۔
ہاں لیکن یہ بیچارہ پرکٹا پنچھی تو اڑنے سے معذور لگتا ہے۔ اس کے پر تم نے
کیسے گن لیے؟
ارے بھائی یہ اداکاری ہے اداکاری ۔ تم جیسے لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لیے
یہ سب کرنا پڑتا ہے۔
دیکھو بھائی ابھی تو اس نے کچھ کہا بھی نہیں اور تم نے اس کے بارے میں نہ
جانے کیا کیا گمان کرلیا؟
ارے میاں تم نے نہیں سنا: آدمی پہچانلیتے ہیں قیافہ دیکھ کر خط کا مضموں
بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر
یار کبھی غلطی سے ہی سہی کوئی شعر درست پڑھ لیا کرو
اس میں کیا غلط ہوگیا ؟
وہ اس طرح ہے کہ: آدمی پہچانا جاتا ہے قیافہ دیکھ کر۔
اوہو ایک ہی بات ہے تم بھی بال کی کھال نکالنے لگتے ہو۔ وہ دیکھو تمہارا
شکار پانی لے کر آرہا ہے ۔
ہاں یار مجھے بسکٹ بھی منگوانا چاہیے تھا ۔ ممکن ہے بھوکا بھی ہو ۔
بسکٹ ہی کیوں چائے بھی پلوادو ۔ بولو تو رامو چائے والے کو فون کر دوں ۔
ہاں یہ ٹھیک ہے۔
نوجوان نے قریب آکر کہا معاف کیجیے دوکان پر بہت بھیڑ تھی۔
کلن بولا جی ہاں بڑی برکت والی دوکان ہے ۔وہاں ہمیشہ گاہکوں کا تانتہ لگا
رہتا ہے۔
للن بولا ارے بھائی تمنے بوتل نہیں کھولی ۔ پہلے پانی پیو تب تک چائے آتی
ہے۔
سر پہلے آپ پئیں ۔ میں بعد میں پیوں گا۔
کیوں تم مہمان ہو ۔ تمہارا حق پہلے ہے۔
لیکن میرا جھوٹا پانی آپ کیسے پی سکتے ہیں ؟
جب میرا جھوٹا پانی تم پی سکتے ہو تو میں کیوں نہیں پی سکتا ۔ پہلے تم پیو
،پھر ہم پی لیں گے ۔
وہ نوجوان سامنے کٹےّ پر بیٹھ کر پانی پینے لگا اور پیتا چلا گیا ۔ آدھی
سے زیادہ بوتل خالی ہوگئی تو کلن نے فون پر چائے اور بسکٹ کا آرڈر دے دیا۔
للن نے کہا اچھا اب بولو تمہارا کیا مسئلہ ہے؟
وہ ۰۰سر۰۰ ایسا ہے کہ میرا بھائی بہت بڑا اداکار ہے ۔
کلن نے کہا ویسے تم بھی کم نہیں ہو۔ اس کو چھوڑ کر تم اس للن سے ملنے کیوں
چلے آئے؟
سر میرا بھائی میرے خون کا پیاسا ہے ۔ وہ مجھے مار ڈالے گا۔
کلن نے سوچا یہ کوئی بڑا منصوبہ لے کر آیا ہے۔ آج تو للن کو کسی بڑی بوتل
میں اتارے گا ۔ وہ بولا تمہارا بھائی ، قصائی تو نہیں ہے؟
سروہ دوسروں کے لیے بھائی مگر میرے لیے قصائی ہے ۔
کلن بولا خیر وہ جو بھی ہے۔ تم کوئی کام وام کیوں نہیں کرتے؟
سر میں کام کرتا ہوں ۔ چمبور کے اندر ایک کارخانے میں مزدوری کرتا ہوں ۔
کلن نے حیرت سے کہا اچھا تو برسرِ روزگار ہو؟ تو کیا بہن کی شادی کے لیے
مدد یا قرض چاہیے ؟ اپنے بھائی سے لے لو وہ اس کی بھی تو بہن ہے؟
جی نہیں سر ہم دو بھائی ہیں ہماری کوئی بہن نہیں ہے۔
تب تو گاوں میں ماں کی طبیعت خراب ہوگی؟کلن نے خجالت ما۔تے ہوئے کہا۔
جی نہیں سر ،ہمارے والدین کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا تھا۔ نانی نے پال
پوس کر بڑ اکیا اور اس کا بھی سورگ باس ہوگیا۔
اس سے پہلے کہ کلن پھر کوئی اوٹ پٹانگ بات بولتاللن نے ڈانٹ کر کہا بہت
ہوچکا کلن ۔ اب تم اپنی چونچ نہیں کھولو گے۔ کیا سمجھے ؟
کلن بولا سمجھ گیا بھائی سب سمجھ گیا ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کے پاس کہنے کو
کچھ بچا بھی نہیں تھا۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری )
|