للن نے نوجوان سے سوال کیا تمہارا نام کیا ہے؟
میرا نام جمن ہے؟
کلن سے رہا نہیں گیا ۔ وہ بولا پورا نام بتاو ۔ یہ صرف جمن کیا نام ہے ؟
جی سر میرا ابھی یہی نام ہے ۔ جمن ۔
اچھا تو کیا پہلے کوئی اور نام تھا ؟
جی ہاں سر پہلے میرا نام اچھن سنگھ تھا ۔
اچھا ۔ یہ تو بڑا اچھا نام تھا ۔ اس کو بدل کیوں دیا؟
وہ لوگوں نے کہا کہ دھرم بدل دیا تو نام بھی بدل دو۔ اسلیے بدل دیا۔
للن بولا دھرم بدل دیا ؟ کیا مطلب میں نہیں سمجھا۔
سر ایسا ہے کہ میں نے اسلام دھرم قبول کرلیا ہے ۔
کلن سہم کر بولا اچھا تمہیں اسلام قبول کرنے کا خیال کیسے آیا؟
وہ ایسا ہے کہ میرے کارخانے کے پاس مسجد ہے ۔ مجھے اذان اچھی لگتی تھی ۔
پھر میں اپنے دوست کے ساتھ مسجد میں جانے لگا ۔
للن نے پوچھا اور پھر کیا ہوا؟
مجھے امام صاحب کا تلاوت اچھی لگنے لگی ۔ بڑا سکون ملتا تھا اس لیے میں نے
کلمہ پڑھ لیا ۔
کلن بولا یہ تو بہت اچھا ہوا ،مگر اب کیا مسئلہ ہے؟
مسئلہ یہ ہے کہ میں خودقرآن پڑھنا چاہتا ہوں ۔
تو اس میں کیا مشکل ہے تمہارا دوست تمہیں پڑھا دے گا ۔
میرے دوست کو خود نہیں آتا وہ کیا پڑھائے گا؟ اس کو نماز یاد ہے ۔ اس لیے
پڑھ لیتا ہے۔
اچھا تو امام صاحب ؟
جی ہاں میں ان سے پڑھتا ہوں لیکن میرے تلفظ کی وجہ سے وہ بہت ناراض ہوتے
ہیں اور ہاتھ بھی چلا دیتے ہیں ۔ میں اسی سے پریشان ہوں ۔
للن نے پوچھا تو میں کیا کرسکتا ہوں ؟
آپ بڑے آدمی ہیں ۔ انہیں سمجھا دیجیے کہ وہ میرے ساتھ مارپیٹ نہ کریں ۔
میں آہستہ آہستہ اپنا تلفظ ٹھیک کرلوں گا۔
کلن لپک کر بولا دیکھو اب تمہیں اس بدمعاش امام سے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
میں تمہیں پڑھاوں گا ۔ میرے پاس آیا کرو۔
آپ کے پاس ؟ کیسی بات کرتے ہیں سر؟
کیوں تم اس بدتمیز کے پاس جا سکتے ہو تو میرے پاس کیوں نہیں آسکتے؟
سر میں کارخانے کے بغل میں مزدوروں کے ساتھ رہتا ہوں اور پاس میں مسجد ہے
لیکن آپ تو پندرہ کلومیٹر پر ہیں ۔ میں یہاں ہر روز کیسے آوں گا؟
للن نے کہا جی ہاں یہ نامعقول بات ہے ۔ تم ایسا کرو کہ اس گاڑی میں بیٹھو ۔
لیکن وہ کس کی گاڑی ہے؟
کلن بولا میری اور کس کی؟ جاو بیٹھو ہم ابھی آتے ہیں ۔
لیکن سر ؟
میں ریموٹ سے کھول دیتا ہوں جاو۔
جمن چلا گیا تو للن نے پوچھا تم اس کے بارے میں کیا سوچ رہے تھے ؟
جی ہاں وہ میری غلطی تھی لیکن تم بلاوجہ اس بددماغ امام پر وقت خراب کررہے
ہو ۔ ایسے کند ذہن مولیوں کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آتی۔
للن نے جواب دیا دیکھو بھائی اپنا کام کوشش کرنا ہے۔ چلو اب اس نوجوان کے
پتے پر لے چلو ۔
ایک گھنٹے کے بعد وہ لوگ چمبور پہنچے تو عشاء کی تیاری تھی ۔
نماز کے بعد للن نے کلن اور جمن کو نیچے بھیجا اور تنہائی میں امام صاحب سے
کہا مولانا میں آپ سے عہد چاہتا ہوں ۔
مولانا بولے کیا بات ہے کہیے ۔
بات یہ ہے کہ جو راز کی بات میں اب کہوں گا وہ آپ کسی کو نہیں بتائیں گے۔
ٹھیک ہے یہ راز میرے ساتھ قبر میں جائے گا ۔
شکریہ ۔کیا آپ کے پاس جمن نام کا کوئی نوجوان قرآن پڑھتا ہے؟
جی ہاں لیکن اس کا تلفظ بہت خراب ہے اس لیے مجھے بہت غہڑ آتا ہے مگر کیا
کروں ۔ قرآن کا سوال ہے ورنہ بھگا دیتا ؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کون ہے؟
جی ہاں ۔ یہیں پاس میں ریڈی میڈ گارمنٹ کی کمپنی میں ملازم ہے۔
سو تو ہے مگر وہ ایک بڑے اداکار کا بھائی اور اس کی جان کو خطرہ ہے ۔
جان کا خطرہ؟ وہ کیوں؟؟
اس لیےکہ وہ خاندان کی مرضی کے خلاف مذہب اسلام قبول کرنے کے سبب گھر سے
فرار ہے۔
اوہو ! یہ تو مجھے نہیں پتہ تھا ۔
خیر اب تو پتہ چل گیا اس لیے امید ہے کہ آپ اس کے ساتھ نرمی کا سلوک کریں
گے؟
جی ہاں ۔ اب تو میں اسے اپنے بیٹے کی طرح رکھوں گا ۔ آپ بے فکر رہیں ۔
جی بہت شکریہ ۔ میں یہی استدعا کرنے کے لیے حاضر ہوا تھا۔
امام صاحب بولے آپ نے اچھا کیا جو میری آنکھ کھول دی ورنہ میں جہنم رسید
ہوجاتا۔
للن نے فون کرکے کلن کو جمن کے ساتھ بلایاتو مولانا نے کہا بیٹا جمن کل سے
تم کھانا میرے ساتھ کھاوگے اور پھر پڑھائی ہوگی۔
کلن یہ سن کر حیران رہ گیا ۔ جمن سوچ رہا تھا کہ مولانا شکایت کرنے کی وجہ
سے پر ناراض ہوجائیں گے لیکن ان کی آنکھوں میں ندامت تھی ۔
واپسی میں کلن نے کہا یاراس امام نے تو کمال کردیا ۔ میں سمجھ رہا تھا
تمہیں دھتکار کر بھگا دے گا اور اس کو پڑھانا بند کردے گا ۔
للن بولا بھائی تمہارا مسئلہ یہی ہے کہ تم ہر کسی سے بدگمان ہوجاتے ہو۔
پہلے جمن سے ہوئے پھر امام سے ہوگئے ۔
یہ بات تو درست ہے لیکن آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اس لیے کہ تم دوسروں کو اپنے جیسا سمجھتے ہو۔
اور تم ؟ اپنے جیسا نہیں سمجھتے ؟؟ اس لیے بدگمانی سے بچ جاتے ہو۔
جی نہیں میں بھی اپنے جیسا ہی سمجھتا ہوں ۔ اس لیے خوش گمان رہتا ہوں ۔
یہ معمہ کلن کی سمجھ سے پرے تھا کہ للن بھی وہی سمجھتا ہوں جووہ سمجھتا ہے
لیکن کوئی خوش گمان رہتا ہے اورکوئی بدگمان ہوجاتا ہوں ۔
|