عظیم صوفی شاعر بابا بلھے شاہ کی سرزمیں قصور ،عظیم فلمی
اداکار یوسف خان کی جنم بھومی قصور اور سروں کی ملکہ نورجہاں کا آبائی خطہ
قصور یہ وہ زرخیز ضلع ہے جس نے ادب ،تعلیم ،موسیقی ،اور دیگر فنون میں نام
پیدا کرنے والی شخصیات کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اسی ضلع قصور کی تحصیل
پتوکی کے نواحی علاقے واں رادھا رام موجودہ حبیب آباد میں ایک ایسے سپوت نے
آنکھ کھولی جس نے ادب و صحافت میں نہ صرف خود نام کمایا بلکہ پاک دھرتی کے
طول و ارض سے نئی نسل کو کتاب و قلم سے وابستگی کا شعور دیا ۔آج کے ڈیجیٹل
دور میں جب لوگ کتب بینی اور اخبار بینی سے دور ہوتے جا رہے تھے وہاں پاک
وطن کے اس فرزند نے نسل نو کو قلم و قرطاس سے جڑے رہنے کے شوق کو اسقدر
بڑھایا کہ پتوکی کے اس عظیم فرزند کی دی ہوئی تحریک سے اب تک ہزاروں کی
تعداد میں لوگ منسلک ہوکر اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کر رہے ہیں وہ اظہار
کالم نویسی کی صورت میں ،شاعری کی شکل میں ناول و افسانہ کے روپ میں میری
نسل نو ایک بڑی تعداد میں کر رہی ہے تحصیل پتوکی میں جنم لینے والی اس عظیم
شخصیت کو دنیا رشید احمد نعیم کے نام سے جانتی ہے۔ پاک دھرتی کے اس عظیم
سپوت نے بحیثیت ایک کالم نویس اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ ’’چشم نم‘‘
کے نام سے کالم لکھتے ہیں۔ آپ ایک سچے اور کھرے قلم کار ہیں۔ ان کی تحریروں
میں جذبہ حب الوطنی نمایاں طور پر عیاں ہوتا ہے۔ ملک دشمن عناصر کی بغیر
لگی لپٹی درگت بنانا ان کا خاصہ ہے۔ وہ اپنے وطن اور افواج پاکستان سے عشق
کی حد تک محبت و عقیدت رکھتے ہیں اور یہی جذبہ انہوں نے مادر وطن کی نسل نو
میں منتقل کرنے کے لئے ایک ایسا پلیٹ فارم اپنی نوجوان نسل کو مہیا کیا کہ
ملک و قوم کی خدمت کے لئے اپنی سوچوں کو قرطاس کی زینت بنا کر دنیا کو یہ
باور کرواسکیں کہ یہاں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے بلکہ میری نوجوان نسل کو
اگر مواقع فراہم کیئے جائیں تو وہ بھی علم ،ادب ،صحافت اور دیگر شعبہ ہائے
زندگی میں کسی سے کسی بھی طور کم نہیں ہیں ۔رشید احمد نعیم ۔۔۔ایک ایسے سچے
پاکستانی کا نام کہ جو خود کو پاکستانی شہری نہیں بلکہ پاکستان متصور کرتا
ہے گذشتہ ڈیڑھ دہائی سے میں ان کی خدمات کا عینی نہیں بلکہ عملی شاہد ہوں
کہ کس طرح اپنی شبانہ روز انتھک محنت شاقہ سے علم و ادب اور صحافت میں
کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں وہ چاہتے تو محض ایک کالم نویس ہی کام کرتے
رہتے اور صرف اپنے نام کو آگے بڑھانے کی سوچ لے کر محو سفر رہتے مگر انہوں
نے ایسا ہرگز نہیں چاہا بلکہ نئے لکھنے والوں کو آگے لائے ان کی تحریروں کو
پاکستان بھر کے اخبارات میں شائع کروایا اور الحمدﷲ اب تک سینکڑوں نہیں
ہزاروں نئے لکھنے والے اسی ایک سپوت مادر وطن کی دی ہوئی ہمت اور حوصلے سے
اپنا نام پیدا کر چکے ہیں قارئین کرام! میں رشید احمد نعیم کے عظم و حوصلے
کا ببانگ دہل معترف ہوں کہ بہت ساری مخالفتوں کے باوجود وہ اپنے مشن سے
کبھی دستبردار نہیں ہوئے ۔خیبر سے مہران تک ،پنجاب سے بولان تک ،پاکستان کا
شائد ہی کوئی علاقہ ایسا ہو جہاں سے کسی لکھنے والے نے رشید احمد نعیم کی
شفقت سے نام نہ کمایا ہو اس شخصیت کے بڑھتے ہوئے حفظ و مراتب سے حاسدین میں
ایک تشویش کی لہر دوڑی اور بہت سے نام نہاد ادبی بونے اس قد آور فرزند مادر
وطن کی حسد کی ڈگڈگی لے کر میدان میں کود پڑے مگر وہ کیا کہتے ہیں نہ کہ جس
کی عزتوں اور مقام کے سورج کو خدائے واحد بلندی سے سرفراز کرے اس پر کسی
طرح کا گہن کیسے لگے ۔کئی نام نہاد محقق ،سکالر ،دانشور بزدلانہ ہتھکنڈوں
سے اس شخصیت کی مخالفت میں اپنی ڈیڑھ انچ کی ادبی مساجد بنا کر میدان میں
کودے اورسوشل میڈیا پر اپنی جنس تبدیل کر کے ایک ہی رات میں پچاس پچاس فیک
فیس بک اکاؤنٹ بنا کر سرگرم ہوئے مگر ذلت و رسوائی انکا مقدر ٹھہری ۔رشید
احمد نعیم نے ہر قسم کی مخالفت اور رکاوٹوں کا بڑی پا مردی سے مقابلہ کیا
اور تمام تر پتھر کے اصنام اس فرزند دھرتی کا بال بھی بیکا نہ کر سکے۔ اﷲ
پاک کی رحمت کے سبب یہ سورج آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے جبکہ
وہ تمام تر خودرو ادبی بونے اپنے ہی حسد کے اندھیروں میں گم ہوکر بے نشان
ہوچکے ہیں ۔ تو بات ہورہی تھی رشید احمد نعیم کی ادبی اور صحافتی خدمات کی
آپ انویسٹی گیٹیو کونسل آف کالمسٹ کے بانی و صدرہیں جس میں نہ صرف نئے کالم
لکھنے والے کالم نگاروں کی تحریروں کو اخبارات کے ادارتی صفحات میں شائع
کرواتے ہیں بلکہ اگر کسی کالم نویس کی تحریر کو کوئی چو ر لکھاری چوری کر
کے اپنے نام سے شائع کروانے کی جسارت کرے تو اس کی سرکوبی کر کے تخلیق کار
کی تخلیق کو تحفظ بھی فراہم کیا جاتا ہے راقم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس
تنظیم کی بنیاد سے لیکر تاحال رشید احمد نعیم کے ساتھ بطور مرکزی سینئر
نائب صدر خدمات انجام دے رہا ہے ،اسکے بعد رشید احمد نعیم نے ادب کی تمام
اصناف شعر و ادب ،ناول ،افسانہ نگاری میں طبع آزمائی کرنے والے نسل نو کو
ایک ایسا پلیٹ فارم دیا کہ جہاں اپنی تخلیقات کو وہ اخبارات رسائل اور
جرائد میں باآسانی شائع کروانے کے قابل بنیں۔ میری قوم کے ایسے بچے بچیاں
جن کی اخبارات و جرائد تک رسائی نہیں تھی انکو دنیا کے سامنے متعارف
کروایا۔ اس وقت پروردگار ’’ن والقلم ‘‘کی خاص مہربانی سے اور رشید احمد
نعیم کی سرپرستی سے ہزاروں کی تعداد میں جواں ہمت جواں نسل کے نمائندے اپنا
مقام بنا چکے ہیں اور اس پلیٹ فارم کو انہوں نے کشمیر رائٹرز فورم کا نام
دیا جس کے وہ چیف ایگزیکٹیو ہیں اور راقم اس میں بھی بطور مرکزی ترجمان
خدمات انجام دے رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر’’ رائٹرز پلیس ‘‘کے نام سے ایک پیج
دیا کہ نئے لکھنے والے اس کے توسط سے اپنی تحریریں بھیجیں اور انکو بھی
شائع کروانے کا بیڑا اسی ماں دھرتی کے لعل نے اٹھایا ۔اس پیج پر اس وقت تک
پچیس ہزار سے زائد ممبران موجود ہیں آپ تین بڑے اخبارات کے میگزین ایڈیٹر
کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ اب تک بہت سے اعزازات سے رب العامین نے
انہیں نوازا ہے۔ ابھی حال ہی میں حرافاؤنڈیشن نیو یارک اور کشور ٹونی پیس
فاؤنڈیشن کینیڈا نے انہیں ایوارڈ اور سرٹفیکیٹ سے نوازا ہے یہ ایک عالمی
علمی و ادبی تنظیم ہے جو دنیا بھر میں علمی و ادبی خدمات پر اعزازات سے
نوازتی ہے اور خالص کارکردگی پر ایوارڈ دیتی ہے۔ یہ وہی تنظیم ہے جس نے بہت
سارے سربراہان مملکت کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگریوں سے بھی نوازا ہے جن میں
میرے وطن کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان بھی شامل ہیں ۔رشید احمد نعیم کی
خدمات کے صلے میں یہ ایوار ڈ ملنا نہ صرف میرے لئے بلکہ میری اس عظیم دھرتی
کے ہر ایک اہل قلم کے لئے باعث عزت و افتخار ہے ۔ رشید احمد نعیم ایک شخصیت
کا نہیں بلکہ ایک جہد مسلسل کا نام ہے پروردگار میری دھرتی کے اس عظیم سپوت
کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور کروڑوں مزید کامیابیوں سے ہمکنار فرمائے
(آمین )
|