ایک صاحب کا معمول تھا کہ وہ قبرستان میں آکر بیٹھ جاتے اور جب بھی کوئی
جنازہ آتا، اس کی نماز پڑھتے اور شام کے وقت قبرستان کے دروازے پر کھڑے ہو
کر اس طرح دعائیں دیتے: "(اے قبرستان والو!) خدا تم کو اُنْس عطا کرے
تمہاری غربت پر رحم فرمائے تمہارے گناہ معاف فرمائے اور نیکیاں قبول فرمائے)۔
وہی صاحب فرماتے ہیں: ایک شام (بوقت رخصت) میں اپنا قبرستان والا معمول
پورا نہ کر سکا، یعنی انہیں دعائیں دیے بغیر ہی گھر آگیا۔ میرے خواب میں
کثیر مخلوق آ گئی! میں نے ان سے پوچھا: آپ لوگ کون ہیں اور کیوں آئے ہیں؟
بولے: ہم قبرستان والے ہیں، آپ کی عادت تھی کہ گھر آتے وقت ہم کو ہدیہ (یعنی
تحفہ) دیتے تھے اور آج نہ دیا۔ میں نے کہا: وہ ہدیہ کیا تھا؟ انہوں نے کہا
وہ ہدیہ دعاؤں کا تھا۔ میں نے کہا: اچھا، اب یہ ہدیہ میں تم کو پھر سے دوں
گا اس کے بعد میں نے اپنے اس معمول کو کبھی ترک نہ کیا۔
حضرت سیدنا امام سفیان بن عُیَیْنہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا بیان ہے: جب
میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا تو میں نے بہت آہ و بُکا کی اور ان کی قبر
پر روزانہ حاضری دینے لگا، پھر رفتہ رفتہ کچھ کمی آگئی۔ ایک روز والد مرحوم
نے خواب میں تشریف لا کر فرمایا: اے بیٹے! تم نے کیوں تاخیر کی؟ میں نے
پوچھا: کیا آپ کو علم ہو جاتا ہے؟ فرمایا: "کیوں نہیں، مجھے تمہاری ہر
حاضری کی خبر ہوجاتی تھی اور میں تمہیں دیکھ کر خوش ہوتا تھا، نیز میرے
پڑوسی مردے بھی تمہاری دعا سے راضی ہوتے تھے" چنانچہ اس خواب کے بعد میں نے
پابندی سے والد صاحب کی قبر پر جانا شروع کر دیا۔
تو پتہ چلا، گویا کہ روحیں گھروں میں آکر ایصال ثواب کا مطالبہ کرتی ہیں
لہذا ہمیں ان کے لیے ایصال ثواب کا اہتمام خوب خوب کرنا چاہیے اور اگر ان
کے لئے دعائے مغفرت نہ کی جائے تو مغموم بھی ہو جاتے ہیں۔
شب برات میں قبرستان جانا ویسے بھی سنت ہےلہذا ہمیں قبرستان جاکر اپنے
مرحومین کے لئے ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کرنا چاہیے تاکہ اس سے مُردوں
کو انسیت حاصل ہو اور انہیں راحت پہنچے۔ |