کسی نے کیا خوب کہا ہے ،بچہ چاہے کتنا ہی بڑا کیوں نہ
ہوجائے ،باپ سے بڑا نہیں ہوسکتا ۔اس فقرے کا مطلب مجھے اس وقت سمجھ آیا جب
میں گلبرگ ہائی سکول لاہور کینٹ میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔بات کو
آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتاتا چلوں میرے والد زیادہ پڑھے لکھے تونہ تھے پھر
بھی عقل و فہم کے اعتبار سے وہ مجھ سے کہیں زیادہ بڑھ کر تھے ،ان کے حساب
سے میرا شمار نکمے بچوں میں تھا۔ہر باپ کی طرح وہ مجھے بیحد پیار کرتے تھے
لیکن انہوں نے اپنے پیار کا برملا کبھی اظہار نہیں کیا تھا۔ہاں ایک مرتبہ
میں نے انہیں اس وقت بہت خوش دیکھا ،جب پنجاب صنعتی ترقیاتی بورڈ میں بطور
سٹینو گرافرکی مجھے گیارہویں گریڈ میں ملازمت کا لیٹر بذریعہ رجسٹرڈلاہور
کینٹ کے ریلوے اسٹیشن پرموصول ہوا۔ریلوے ملازمین کی تمام ڈاک ، اسٹیشن ہی
پر آیا کرتی تھی پھر وہاں سے ملازمین اپنے اپنے خط اور پوسٹ کارڈ وصول کیا
کرتے تھے۔جس وقت میری نئی ملازمت کا تقرر نامہ وہاں پہنچا ، حسن اتفاق سے
اس وقت والد صاحب ،کسی کام کے سلسلے میں اسٹیشن ماسٹر آفس میں ہی موجود تھے
۔ان سے پہلے یہ لیٹر اسٹیشن ماسٹر نے کھول کر پڑھا تو انہوں نے خوشی کا
اظہار کرتے ہوئے والد صاحب کو مبارک باد دی ،کہ آپ کے بیٹے کو گیارہویں
گریڈ میں ملازمت مل گئی ہے ۔یہ اس کا تقرر نامہ ہے ۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ
ریلوے کا اسٹیشن ماسٹر اس وقت ساتویں گریڈ کا ہوا کرتاتھا جس کا رعب دبدہ
ملازمین پر بہت تھا جبکہ میرے والد کا شمار کلاس چہارم کے ملازمین میں
تھا۔والدصاحب نے میرا تقرر نامہ نہایت وفخرو انبساط کے ساتھ وصول کیا اور
اسی لمحے گھر تشریف لے آئے ۔والدصاحب کے آنے سے پہلے والدہ ہمیشہ ہمیں
ہدایات دیا کرتی تھیں کہ باپ کے سامنے کوئی فرمائش نہیں کرنی ۔او رنہ ہی
اپنے جھگڑوں کا تذکرہ ان سے کرناہے ۔وہ تھکے ماندے آتے ہیں ان کو ذہنی اور
جسمانی آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب وقت سے پہلے والد صاحب گھر تشریف لے آئے
تو یقینا یہ ہم سب کے لیے حیران کن بات تھی ۔انہوں نے آتے ہی پوچھا سوہنا
کہاں ہے ،(مجھے گھر میں سوہنے کے نام سے پکارا جاتا تھا، اب اسی نام سے میں
اپنے چھوٹے بیٹے زاہد سے مخاطب ہوتا ہوں )۔والدہ صاحبہ نے مجھے آواز دی اور
میں ڈرتے ڈرتے پیش ہوگیا کہ آج پھر کوئی غلطی ہوگئی ہے ، پھر پھینٹی کھانے
کا وقت ہو گیا ہے ۔لیکن جب میں نے والد صاحب کاخوشگوار موڈ دیکھا تو حوصلہ
ہوا ۔ والد صاحب نے اپائنمنٹ لیٹر مجھے دیتے ہوئے میری والدہ کو مبارک باد
دی کہ آج میرے بیٹے اسلم نے میر ا سر اسٹیشن ماسٹر کے سامنے فخر سے بلند
کردیا ہے ۔یہ سن کر والدہ بھی بے حد خوش ہوئیں۔میں نے جب لیٹر کھول کر پڑھا
تو واقعی میرے لیے اس خط میں خوشی کا پیغام تھا ۔
بات کچھ زیادہ ہی طویل ہوگئی لیکن میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ بیٹا چاہے کتنا
ہی بڑا ہوجائے ،باپ کی نظروں میں وہ بچہ ہی رہتاہے۔میرا ساتویں جماعت کا
سالانہ امتحان تھا ،اردو کا پرچہ دے کر میں پیدل ہی سکول سے گھر جایا کرتا
تھا ۔سائیکل خریدنے کی مالی استطاعت نہ تھی ۔چونکہ سکول سے گھر اور گھر سے
سکول میرا آنا جانا ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ بنی ہوئی چھوٹی سی پگڈنڈی
پرہوا کرتا تھا ،اس پر چلتا ہوا میں منزل مقصود پر پہنچ جاتا تھا ۔سکول اور
گھر کے درمیان ریلوے کی ایک منزلہ کیبن پڑتی تھی جس پر میرے والد بطور کیبن
مین اکثر ڈیوٹی انجام دیا کرتے تھے۔میری کوشش ہوتی کہ آنکھ بچا کر میں کیبن
کے قریب سے نکل جاؤں لیکن والد صاحب پہلے ہی سے میری تاک میں کھڑے ہوتے
جہاں سے میں انہیں دور ہی سے نظر آسکتا تھا ۔جیسے ہی میں قریب پہنچا تو
والد صاحب نے اشارے سے مجھے بلایا ۔ ڈرتا ڈرتا لکڑی کی سیڑھیاں چڑھ کر میں
ان کے پاس پہنچ گیا ۔انہوں نے پوچھا آج کونسا پرچہ تھا، میں نے کہا ،آج
اردو کا پرچہ تھا۔انہوں نے پرچہ پکڑا اور مجھ سے سوال پوچھنا شروع کردیئے ۔
میں بہت پریشان ہوا کہ اگرکوئی غلط جواب دیا تو تھپڑ میری گال پر رسید ہوگا
۔جیسے تیسے میں جواب دیتا رہا لیکن پھر انہوں نے پوچھا کشمکش کا مطلب
کیاہے؟ اب میری بلا جانے کشمکش کس بلا کا نام ہے ۔؟میں خاموش رہا ،انہوں نے
پھر یہی سوال دھرایا،میں پھر خاموش رہا۔ میری خاموشی پر انہیں غصہ آگیا
ابھی تھپڑ مارنے کے لیے ان کا ہاتھ فضا میں بلند ہوا ہی تھا کہ میری خوش
بختی، جھاڑودینے والا صوبہ مسیح آگیا ۔صوبہ مسیح کیبن میں جھاڑو پھیرنے آ
کرتا تھا۔ والد صاحب نے کہا صوبہ مسیح کشمکش کا کیا مطلب ہے؟اس نے کہا نوک
جھوک ، لڑائی جھگڑا ۔ کھنیچا تانی۔ یہ سن کر والد صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے
اور کہا "لکھ دی لعنت تیرے پڑھنے کے۔لگدا اے توں چھولے دے کے پاس ہوجاندا
ایں "- میں چپ ۔ پھر بولے تجھ سے تو صوبہ مسیح ہی زیادہ اردو جانتا ہے ۔
ہمارے زمانے میں سال میں کچے پکے دو تین امتحان ہوا کرتے تھے ،ان امتحانوں
کے نتائج پراگرس رپورٹ کی شکل میں ہر طالب علم کو دیئے جاتے کہ اپنے والد
صاحب کے دستخط کروا کر لائیں ۔درحقیقت اس پریکٹس کا مقصدیہ ہوا کرتا تھا کہ
والد اپنے فرزند کی تعلیمی قابلیت اور کار گزاری سے آگاہ رہیں۔جس زمانے کی
میں بات کررہا ہوں، یہ وہ دور تھا جب ماں شفقت و محبت کا سرچشمہ اور باپ
ہلاکو خاں کا سفیر نظرآتا تھا جو ہر وقت غصے میں ہی رہاکرتا تھا ،بطورخاص
میں اپنے ہی والد کی مثالِ دے رہا ہوں ان سے بات کرنا اور پھر منوانا جوئے
شیر لانے کے مترادف ہوتا ۔شام ہوتے ہی ایک انجانا ساخوف ہمیں گھیر لیتا کہ
کسی بھی وقت لالٹین کی اکلوتی روشنی میں تعلیم کے بارے میں سوال جواب شروع
نہ ہوجائیں ۔اس ماحول میں صرف ماں کا وجود ہی سازگار محسوس ہوتا جو ہمیں
والد کی مارپیٹ سے بچایا کرتی تھی ۔جیسے ہی کلاس ٹیچر ہمیں پراگراس پر والد
کے دستخط کروانے کے لیے دیتے اسی وقت جسم کا آدھا خون خشک ہوجاتا کہ ابا جی
سے کب اور کیسے دستخط کروائے جا سکتے ہیں ،کئی بار سوچ کر پھر خاموش ہوجاتے
کہ تھپڑ کسی بھی وقت ہمارے گال پر رسید ہوسکتے ہیں ،کیونکہ سکول کے زمانے
میں میری تعلیمی رپورٹ زیادہ اچھی نہیں ہوا کرتی تھی ، بس میں درمیانے درجے
کا طالب علم تھا ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ہم واں رادھا رام ( حبیب آباد ) میں ہوا کرتے تھے
تو والد صاحب مجھے پتلون لے کر دینے کاوعدہ کرکے چٹکیاں کٹواتے رہتے ۔کسی
دن سو تو کسی دن دو سو۔میں چٹکی کاٹنا شروع کرتا تو والد صاحب کوگہری اور
میٹھی نیند آجاتی اور وہ خراٹے لیتے ہوئے نیند کی گہری وادی میں پہنچ جا تے
۔ایک مہینہ پورا چٹکیاں کٹوانے کے بعد جب تنخواہ آتی جو ساری کی ساری ادھار
کی ادائیگی میں ہی چلی جاتی تو پتلون خرید کر دینے کا وعدہ ایک پھر ملتوی
ہوجاتا،ایک مہینہ گزرگیا تو دوسرے مہینے کا وعدہ شروع ہوا ، جبکہ دوسرے
مہینے بھی پیسے نہ بچے تو اس سے اگلے مہینے کا وعدہ ہوگیا ۔ایک دن میں نے
والدہ سے شکایت کے انداز میں کہا ۔امی جان ، ابا جی ہرتنخواہ پر پتلون لے
کر دینے کا وعدہ کرتے ہیں ،پھر ٹرخا دیتے ہیں ۔مجھے نہیں معلوم کہ والدہ نے
والد صاحب کو کس انداز سے میری شکایت پہنچائی ہو گی کہ ایک مرتبہ ابا جی
مجھے ٹرین پر سوار کرکے لاہور لے ہی آئے اور پہلے انہیں ڈی ایس آفس میں
کوئی محکمانہ کام تھا انہوں نے وہ کیا پھر وہ مجھے ایک ایسے بازار سے لے کر
گزارے۔ جہاں اردگرد دکانوں پر بکروں کی سریاں ہی سریاں دکھائی دے رہی
تھیں۔چونکہ مجھے ذبح شدہ جانور کی سریوں سے خوف آتا ہے بلکہ میں کسی جانور
کو مردہ حالت میں بھی دیکھ نہیں سکتا ۔اگر اچانک کوئی مردہ جانور اچانک
مجھے نظر آ جائے تو میرے پورے جسم میں تھرتھلی سی مچ جاتی ہے ۔پاؤں کے
انگوٹھے سے لے کر دماغ کی تہوں تک ایک انجانا خوف سا مجھے گھیر
لیتاہے۔بطورخاص قربانی کے دنوں میں میرا گھر سے باہر نکلنا ہی محال ہوجاتا
ہے کیونکہ گلی کوچوں میں ذبح ہونے والے جانورجابجا دکھائی دیتے ہیں ۔اس
خوفناک بازار سے گزرنا مجھے آج بھی پریشان کردیتا ہے ،دوبارہ میں کبھی بھول
کر بھی ادھر نہیں گیا ۔ بہرکیف ہزاروں چٹکیوں کے عوض مجھے لنڈے سے پانچ
روپے کی پتلون مل گئی ۔میں اپنی اس اکلوتی پتلون کو پہن کر جب گھر سے باہر
نکلتا تو پینڈو دوستوں پر میرا خاصا رعب دبدہ پڑتا لیکن میں پتلون کی جیبوں
میں ہاتھ ڈالے یونہی ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر چلتا پھرتا رہتا ۔کبھی
اسٹیشن کے مسافر خانے میں جا کر ایسے ہی بیٹھ جاتا ۔مقصد صرف ایک ہی تھا کہ
پتلون کا رعب میرے پینڈو دوستوں پرڈالا جائے ۔
بہرکیف سکول کی پراگراس رپورٹ پر دستخط کروانے کے لیے میں نے یہی طریقہ
اختیار کیا بلِکہ شام ڈھلے جب وہ چارپائی پر لیٹ جاتے تو میں ان ٹانگوں اور
پاؤں کو دبانے لگتا۔وہ مجھے اکثر کہا کرتے تھے کہ تم دباتے کم ہو ہلتے
زیادہ ہو۔ ٹھیک طرح سے دباؤ ورنہ میں تمہیں ایسی ٹانگ مارں گا کہ دیوار میں
جا لگو گے ۔ایک صبح جب والدہ ناشتہ تیار کررہی تھی ،والد صاحب بھی چولہے کے
قریب ہی بیٹھے ناشتے کا انتظار کررہے تھے، ان کو موڈ خوشگوار ہی محسوس
ہورہا تھا تب میں نے سکول کی پراگراس رپورٹ نکال کر پین سمیت ان کے ہاتھ
میں دے دی ۔میرا خیال تھا کہ وہ کچھ دیکھے بغیر ہی دستخط کرکے رپورٹ مجھے
واپس کردینگے لیکن میرا یہ خیال اس وقت غلط ثابت ہوا جب انہوں نے ہر مضمون
میں حاصل کیے جانے والے نمبر چیک کرنا شروع کردیئے۔والدہ چونکہ پہلے ہی سے
میری رپورٹ دیکھ چکی تھی اس لیے انہوں نے بھی سفارش کردی اور تھپڑوں کے
بغیر ہی رپورٹ پر دستخط ہوگئے ۔میری جان میں جان آئی ۔ ہر مرتبہ ہی رپورٹ
پر دستخط کروانا ہی ایک مسئلہ ہوا کرتا تھا ۔
اس میں شک نہیں کہ میں اپنے والد کا بے حد لاڈلا بھی تھا لیکن پڑھائی کے
معاملے میں وہ لاڈل اور پیار سب کچھ بھول جاتے تھے۔ایک دن مجھ سے غلطی
ہوگئی جب اس کا علم والد صاحب کو ہوا تو وہ مجھے اٹھا کر پھینکنے لگے ،
گرنے سے بچنے کے لیے میرے ہاتھ میں ان کے گلے میں بندھی ہوئی ڈوری آگئی
،میں اسے پکڑکرگرنے سے بچنا چاہتا تھا ،والد صاحب نے سمجھا کہ میں نے
دانستہ ان کا تعویز پکڑا ہے جس سے ان کا گلا دب گیا ۔انہوں نے اس توہین
آمیز حرکت پر مجھے بہت مارا اور والدہ نے بھی بچانے کی کوشش نہ کی ۔جس کا
دکھ مجھے مدت دراز تک رہا ۔ لیکن یہ بھی بتاتا چلوں والد صاحب جب مجھے کسی
بات پر سزا دیتے یا ڈانٹتے تو اس کا ازالہ چار آنے کی برفی مجھے کھلا کر
کرتے ۔ان کو پتہ تھا کہ مجھے برفی بیحد پسند ہے اس لیے ناراضگی کا ازالہ
برفی ہی سے ممکن تھا۔
یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہماری رہائش لاہور کینٹ کے ریلوے کوارٹروں میں تھی
،میرے والد کلاس چہارم کے ملازم تھے جبکہ میرے سکول کے دوست جاوید جس کے
والد ٹکٹ باؤ تھے ۔اس لیے وہ ہم سے بڑے کوارٹر میں رہتے تھے ان کا رہن سہن
بھی ہم سے کہیں زیادہ اچھا تھا ۔صبح سویرے ہم سکول اکھٹے ہی جاتے اور اکھٹے
ہی واپس آتے۔ایک دن جب سکول سے واپسی پرلاہور کینٹ کے پلیٹ فارم پر پہنچے
تو پیلی کوٹھی کے قریب ایک بیری کا درخت نظر آیا جس میں لگے ہوئے بیر ہمیں
للچانے لگے ،ہم دونوں نے پتھر ہاتھ میں پکڑا اور بیری کے درخت کو دے مارا
۔پتھر لگنے سے جو بیرزمین پر گرے اس پر ہم دونوں کا جھگڑا ہوگیا ۔وہ کہنے
لگا یہ بیر میرے پتھر سے گرے ہیں جبکہ میرا بھی یہی دعوی تھا۔چنانچہ نوبت
ہاتھا پائی تک جا پہنچ گئی ۔ہم لڑتے جھگڑتے گھر پہنچے تو جاوید نے اپنے
والد سے میری شکایت کر دی ۔اس کے والد اسی وقت شکایت لے کر ہمارے گھر پہنچ
گئے ۔حسن اتفاق سے میرے والد ہی گھر سے باہر نکلے ۔جاوید کے والد نے کہا کہ
آپ کے بیٹے اسلم نے میرے بیٹے کو پیٹا ہے ۔والد صاحب نے مجھے آواز دی اور
جھکڑے کی وجہ پوچھی ،میں نے صاف صاف بتا دیا ۔میری بات سن کر والد صاحب نے
جاوید کے والد کا مرتبہ، اختیار اور سٹیٹس دیکھے بغیر کہہ دیا ۔غلطی تمہارے
بیٹے کی ہے ،اس لیے میرے بیٹے نے جو کیا وہ ٹھیک کیا ۔کچھ دیر گرمی سردی
ہوئی پھر وہ بڑ بڑاتا ہو ا اپنے بیٹے جاوید کو لے کر واپس چلاگیا۔اس لمحے
مجھے احساس ہوا کہ میرے والد بیشک غصے کے تیز ہیں اور ان کا مزاج بھی ہر
لمحے خاصا برہم رہتا ہے لیکن وہ میرا دفاع کرنا بھی خوب جانتے ہیں ۔
ایک اور واقعے کا ذکر یہاں ضروری سمجھتا ہوں کہ 1971ء کے اوائل میں
والدصاحب کے کہنے پر مجھے ہیکو آئس کریم فیکٹری میں لوڈر کی ملازمت مل گئی
۔کچھ عرصہ لوڈنگ کا کام کرتا رہا پھر میٹرک پاس ہونے کی وجہ سے مجھے شپنگ
کلرک کی کرسی پر بیٹھا دیا گیا ۔آئس کریم چونکہ کھانے اور مزے لینے والی
چیز تھی اس لیے جو بھی کولڈ روم میں داخل ہوتا وہ آئس کریم کھا کر ہی باہر
نکلتا ۔ہماری سادگی دیکھو کہ ہم اس کو چیک ہی نہ کرسکے ۔جب آڈٹ ہوا تو پانچ
ہزار روپے کی آئس کریم کم نکلی ۔یہ بہت بڑا نقصان تھا اور مالکان کیس پولیس
کو دینے پر اصرار کررہے تھے، ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ چکے تھے ،ہر لمحے ایک
ہی خو ف ہم پر طاری تھا کہ نہ جانے اتنے پیسے کہاں سے پورے ہوں گے ۔ایک شام
مجھے سخت پریشان دیکھ کر والد صاحب نے وجہ پوچھی تو میں نے ڈرتے ڈرتے بتا
ہی دیا۔ پہلے تو وہ بھی پریشان ہوگئے پھر حوصلہ کرکے بولے تم فکر نہ کرو
میں کسی سے ادھار لے کر پیسے پورے کرکے تمہیں بچا لوں گاحالانکہ اس وقت
میرے والد کی تنخواہ 80روپے تھی۔ اس لمحے مجھے ایک بار پھر یہ احساس ہوا کہ
اولاد کے لیے والد کی حیثیت آسمان جیسی ہوتی ہے جونازل ہونے والی آفتیں
اپنے سر لے لیتا ہے لیکن اولاد کو بچا لیتا ہے۔
والد صاحب 19جنوری 1994ء کی صبح اس دنیا سے رخصت ہوئے تو تین دن بعد خواب
میں ان سے ملاقات ہوئی ۔وہ شیخ عبدالقادرجیلانی ؒ کے مزار شریف کے
بلندچوبترے پر دھوپ میں بیٹھے تھے ،ان کی صحت ماشا اﷲ بالکل ٹھیک تھی ۔مجھے
اپنے قریب دیکھ کر خوش ہوئے اور فرمایا تمہارا بڑا بھائی محمد اکرم اپنی
ٹانگ کے فریکچرکی وجہ سے میرے جنازے میں شریک نہیں ہوسکاتھا،اس کی صحت یابی
کے لیے صدقہ دو۔کیونکہ صدقہ مصیبتوں کو ٹالتا ہے ۔اگلی صبح جب میں نے خواب
میں والد مرحوم سے ہونے والی گفتگو کا ذکر والدہ اور بھائی اکرم سے کیا تو
وہ بھی حیران ہوئے کہ موت کے بعد بھی باپ ،اپنے بچوں کا خیال نہیں بھولتا۔
2اپریل 2021بروز جمعہ میں حسب معمول نماز جمعہ کی ادائیگی کے مسجد گیا
ہواتھا، واپسی پر جب موبائل کا واٹس اپ چیک کیا تو میرے چھوٹے بیٹے زاہد
اسلم کی گریڈ ٹو میں پرموشن کا لیٹر دیکھنے کو ملا ۔اس لیٹر کو دیکھ کر
مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ میں خوشی میں ناچتا ہوا اپنی بیگم کے پاس گیا اور
اسے مبارک باد دے کر بیٹے کی ترقی کا بتایا ۔کل میں اپنے باپ کا بیٹا تھا
تو مجھے اپنے والد کی خود سے محبت کا اتنا احساس نہ تھا لیکن جب سے اﷲ
تعالی کے فضل سے میں خود باپ بن چکاہوں تو دونوں بیٹوں اور بیٹی کی صحت
یابی اور دینی اور دنیاوی کامیابیوں کے لیے ہر لمحہ دعا گو رہتا ہوں ۔اولاد
کی معمولی سی تکلیف بھی مجھے پریشان کرنے کے لیے کافی ہے ۔اﷲ تعالی سے دعا
ہے کہ وہ میرے بچوں کو زندگی کی ہرخوشیا ں عطا فرمائے اور نہیں دکھ اور
تکلیف سے ہر لمحے محفوظ رکھے ۔آمین
|