شدت کی گرمی کا وقت ہے کہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے والدِ ماجد رحمۃ
اللہ علیہ آپ کو کمرے میں لے جاتے ہیں اور دروازہ بند کر کے ایک پیالہ آپ
کو دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اسے کھا لیں آپ عرض کرتے ہیں: میرا تو روزہ
ہے کیسے کھاؤں؟ ارشاد ہوتا ہے: بچوں کا روزہ ایسا ہی ہوتا ہے، لو کھا لو،
میں نے دروازہ بھی بند کر دیا ہے کوئی دیکھنے والا بھی نہیں ہے۔ آپ عرض
کرتے ہیں: جس کے حکم سے روزہ رکھا ہے وہ تو دیکھ رہا ہے۔
یہ تھے ہمارے اسلاف مگر افسوس کہ آج کل کے بعض نادان و ناقدرے لوگ، جن کا
حال یہ ہوتا ہے کہ بخشش و مغفرت سے مالامال اس نورانی مہینے کو بھی عام
مہینوں کی طرح مال و دولت اکٹھی کرنے، کاروبار چمکانے اور لوٹ مار مچانے کا
مہینہ ہی سمجھتے ہیں
حالانکہ پہلے کے لوگ رمضان آنے سے پہلے اپنی مصروفیات ختم کرکے خود کو طاعت
و بندگی میں مصروف کر دیتے، پہلے کے لوگ ماہ رمضان میں زیادہ سے زیادہ وقت
رضائے الہی کے حصول میں گزارتے، پہلے کے لوگ ماہ رمضان کو اپنے لیے نیکیاں
کمانے کا سیزن شمار کرتے تھے جبکہ آج کل اسے مال کمانے کا سیزن سمجھا جاتا
ہے
رمضان المبارک کا خوبصورت مہینہ ہم پہ سایہ فگن ہو چکا ہے یہ وہ مہینہ ہے
جس میں رحمتیں اور برکتیں بھی عروج پر ہوتی ہیں اس ماہ میں اجر و ثواب بھی
کئی گُنا بڑھا دیا جاتا ہے۔
دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں سارے روزے ظاہری و باطنی آداب کے ساتھ رکھنے اور
خشوع و خضوع کے ساتھ فرائض و واجبات اور تراویح و نوافل ادا کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔
تلاوت قرآن کریم کا خوب جذبہ نصیب فرمائے۔ آمین۔ |