پاکستان سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں لوگوں کو وٹامن ڈی
کی کمی کا سامنا ہے لیکن نصف کرہ شمالی میں سورج کی روشنی کی کم مقدار کی
وجہ سے یہ مسئلہ بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے بہت سے لوگ سپلیمنٹس استعمال کرتے
ہیں۔
وٹامن ڈی 2 اور ڈی 3 کے سپلیمنٹس دوائیوں کے سٹورز کے کاؤنٹر پر نظر آتے
ہیں اور ان کے حصول کے لیے ڈاکٹر کے نسخے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ قوت
مدافعت بڑھانے، اعصابی کمزوری کے خاتمے، اعصاب کی مضبوطی، ہڈیوں کے درد اور
ڈپریشن کے خاتمے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ انھیں کینسر کے خاتمے اور
بڑھاپے سے بچاؤ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
مارکیٹ کا جائزہ لینے والی ایک کمپنی منٹل کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں ہر
تیسرا نوجوان جو سپلیمنٹ لیتا ہے اس میں وٹامن ڈی بھی شامل ہے۔
لیکن اس پر ابھی تنازع ہے کہ کیا تمام نوجوانوں کو وٹامن ڈی کا سپلیمنٹ
لینا ضروری ہے۔ نام کے باوجود وٹامن ڈی وٹامن نہیں ہے۔ اس کے بجائے اصل میں
یہ ہارمون ہے جو کہ جسم میں کیلشیم کو جذب کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتا ہے۔ اس
میں چیلنج یہ ہے کہ بہت کم غذائیں ایسی ہوتی ہیں جن میں یہ موجود ہوتا ہے
جیسا کہ آئلی فش۔ لیکن یہ بھی ہے کہ جسم میں عام طور پر وٹامن ڈی اس وقت
بنتا ہے جب جلد پر سورج کی روشنی پڑتی ہے۔ وٹامن ڈی کی دو اقسام ہیں۔ وٹامن
ڈی 3 جو کہ جانوروں سے حاصل ہونے والی خوراک میں پائی جاتی ہے۔ اس میں
مچھلی شامل ہے۔
دوسری وٹامن ڈی ٹو ہے جو کہ پودوں سے حاصل ہونے والی خوراک میں شامل ہیں۔
اس میں مشرومز بھی شامل ہیں۔
تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ ڈی 3 زیادہ موثر ہے اور سنہ 2012 میں کیے جانے
والی ایک تجزیے میں یہ کہا گیا تھا کہ ڈی 3زیادہ بہتر سپلیمنٹ ہے۔
برطانیہ میں پبلک ہیلتھ انگلینڈ نے ہر بالغ کو تجویز کیا ہے کہ وہ موسم
سرما اور خزاں میں دس مائیکروگرام سپلمنٹ لیں۔ یہ وہ موسم ہوتے ہیں جب سورج
کی کرنیں زمین پر مکمل طور پر نہی آ پاتی ہیں۔
اس کے لیے حکومتی ادارے نے ہر رنگ کے افراد سے کہا ہے کہ اگر وہ وٹامن ڈی
کی کمی کا شکار ہیں تو وہ پورا سال یہ سپلیمنٹ استعمال کریں۔ کچھ دوسرے
ممالک بھی ان ہی اصولوں پر عمل پیرا ہیں۔ وٹامن ڈی کی کمی سے تھکاوٹ ہو
سکتی ہے اور انسانی جسم کے خلیوں میں طاقت کے مرکز مائیٹو کانڈریہ پر اثر
پڑتا ہے۔
اسی طرح کینسر کے مریضوں میں وٹامن ڈی مدافعتی نظام کو بہتر کرتا ہے اور
بیکٹیریا کو ختم کرتا ہے۔ وٹامن ڈی سپلیمنٹس کے استعمال کی ایک وجہ ہڈیوں
کے بڑھنے اور صحت برقرار رکھنا ہے۔
کتنی وٹامن ڈی چاہیے اس حوالے سے تحقیق کے بعد مرتب کیے گئے حالیہ رہنما
اصولوں کے نتیجے میں بنائی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ عمر رسیدہ افراد جو کہ
سورج کی روشنی میں زیادہ نہیں جاتے اور انھیں فریکچر اور ہڈیوں کے ٹوٹنے کا
زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
لیکن ٹم سپیکٹر جو کہ کنگز کالج لندن میں پروفیسر ہیں کا خیال ہے کہ یہ
تحقیقات شاید ٹھیک نہیں ہیں۔
یہ درست ہے کہ ابھی کوئی شواہد واضح نہیں۔ رواں سال اگست میں ایک تجزیے سے
پتہ چلا ہے کہ وٹامن ڈی کا لیول بڑھا دیں تو صحت مند لوگوں میں ہڈیوں کے
فریکچر کا خطرہ کم ہوا جبکہ 81 کیسز کے تجزیے میں یہ سامنے آیا کہ سپلیمنٹس
نے اس صورتحال سے بچنے میں کوئی مدد نہیں کی۔
لیکن نرس سارہ لیلینڈ کہتی ہیں وٹامن ڈی کے سپلیمنٹس اس گروپ کے لیے بہہت
فائدہ مند ہے جن کو سورج کی روشنی بالکل نہیں ملتی۔ ریسرچ سے منسلک صوما
ادھے کا کہنا ہے کہ کہ یہ کمی اس لیے دیکھنے میں آتی ہے کیونکہ برطانیہ میں
بچوں کے لیے وٹامن ڈی کے سپلیمنٹس کے حوالے سے کوئی بہتر نگرانی کا عمل
نہیں۔
لیکن طبی ماہرین وٹامن ڈی کے سپلیمنٹس کے استعمال کے معاملے پر منقسم ہیں۔
کچھ کہتے ہیں کہ لاکھوں ڈالر کی وٹامن انڈسٹری کے اپنے مفادات ہیں۔
امید ہے کہ یہ نتائج رواں برس کے آخر میں سامنے آ جائیں گے۔ ان میں یہ
دیکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کیا وٹامن ڈی اور اومیگا تھری کا کینسر،
سٹروک اور دل کے مرض پر کوئی اثر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں 25000 بالغوں کو
تحقیق میں شامل کیا گیا ہے۔ |