جہانِ فانی میں انسانوں کا آنا جانا لگا رہتا ہےلیکن یہ
ہفتہاس معنیٰ میں منفرد تھا کہ اس دوران ہم بڑی تیزی کے ساتھ یکے بعد دیگرے
معروف و محبوب ہستیوں سے محروم ہوتے چلے گئے۔ امیر شریعت مولانا محمد ولی
رحمانی کا سانحہ ارتحال ہر دلعزیز صحافی رفیع الدین رفیع کے انتقال پرملال
سے پیوستہ تھا اور پھر ممبرا کے مشہور عالمِ دین مولانا صہیب قاسمی کے دنیا
سے اٹھ جانے کی خبر آگئی۔ ابھی طبیعت اس غم سے نڈھال ہی تھی کہ ماہنامہ
شاعر کے مدیر اور صاحب طرز شاعر افتخار امام صدیقی نے داعیٔ اجل کو لبیک
کہہ دیا۔ ان کے جنازے سے لوٹے تو پونا سے عالمی شہرت یافتہ محقق و ادیب
پروفیسر انیس چشتی اور جلگاوں سے استادوں کے استاد فاروق اعظمی کے دنیا سے
کوچ کرجانے کی خبروں نے مغموم کردیا ۔اس دوران اردو ٹائمز کے قدیم صحافی
شکیل شیخ اور معروف ماہر تعلیم و صحافی نیز پدم شری اعزاز یافتہ فاطمہ
زکریا نے بھی دنیائے دنی کو خیر باد کہہ دیا۔ اسی دن سابق نائب امیر جماعت
اسلامی ہند، عظیم مفکر و مدبر پروفیسر صدیق حسن صاحب بھی رحلت فرما گئے۔
موت جیسی اٹل حقیقت کی تیز رفتاری کا ادراک اب ہوا ۔
ارشادِ ربانی ہے :’’اس زمین پر سب فنا ہونے والا ہے، اور صرف تیرے رب کی
ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی رہ جائے گی‘‘۔ مولانا ولی رحمانی ؒ کا
انتقال چونکہ ویکسین لینے کے بعد ہوا تو ان کے حوالے سے ذرائع ابلاغ میں
مختلف خبریں گردش کرنے لگیں ۔ ایک تعزیتی نشست میں مغفور و مرحوم مولانا کے
فرزند مولانا فہد رحمانی نے اس تناظر میں کہا کہ لوگ جب مجھ سے پوچھتے ہیں
ان کا انتقال کیسے ہوا؟ تو میں انہیں جواب دیتا ہوں کہ آپ یہ دیکھیں کہ
انہوں نے زندگی کیسے گزاری ؟ یہ نہایت مختصر اور جامع جواب ان کی صالح
تربیت کا غماز ہے۔ ان بزرگوں کے روشن کردہ علم و عمل کے چراغ ہمارے لیے
مشعلِ راہ ہیں ۔ ان سے رہنمائی ،عزم و حوصلہ اور جذبۂ عمل ملتا ہے لیکن ان
کی زندگی کے ساتھ ہمیں اپنی موت کو یاد کرنا چاہیے۔ فرمانِ ربانی یہ بھی ہے
کہ:’’اس کی ذات (پاک) کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ اسی کا حکم ہے اور
اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے‘‘۔
عظیم ہستیاں اپنا انعام پانے کے لیے بصد شوق دربار الٰہی میں حاضر ہوجاتی
ہیں لیکن ہر کس و ناکس کو اپنے حساب کتاب کی خاطر بارگاہِ الٰہی میں حاضری
کے لیے موت لازمی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کا استحضار ضروری ہے۔ بارگاہِ رسالت
میں استفسار کیا گیا کہ :’’ کون سے مومن زیادہ عقلمند ہیں؟ تو آپﷺ نےارشاد
فرمایا موت کو کثرت سے یاد کرنے اور موت کے بعد کے لیے اچھی تیاری کرنے
والے یہی لوگ زیادہ سمجھ دار ہیں‘‘۔فانی لذتوں پر دائمی نعمتوں کو ترجیح
دینا دانشمندی نہیں تو اور کیا ہے؟ دنیا کی تنگی و فراخی دونوں ہی موت سے
غفلت کا سبب بنتی ہے لیکن انسان خوشحالی چاہتا ہے ۔نبی پاک ﷺ نے فرمایا
:’’جس نے موت کو تنگی میں یاد کیا اس نے اس پر زندگی فراخ کردی‘‘یعنی موت
کی یاد دنیوی فراخی کا بھی سبب بنتی ہے۔ حزن و ملال کی ایک وجہ خواہشات کا
انبار بھی ہے اس کی بابت فرمانِ رسولﷺ ہے :’’لذتوں کو ختم کرنے والی موت کو
کثرت سے یاد کرو‘‘۔
موت کو یاد کرنے کا فائدہ دنیا و آخرت دونوں میں ہے۔ نبیٔ مکرم ﷺ کا ارشاد
ہے:’’موت کو کثرت سے یاد کیا کرو کیونکہ وہ گناہوں کو زائل کرتی اور دنیا
سے بے رغبتی پیدا کرتی ہے‘‘۔موت کو یاد کرنے والا مومن چونکہ توبہ و
استغفار کرتا رہتا ہے اس لیےاس کانامۂ اعمال گناہوں سے پاک ہوجاتاہے۔ دنیا
سے بے رغبت انسان کو دنیوی نعمتوں کے محرومی کا افسوس نہیں ہوتا اس لیے وہ
مایوسی سے دور رہتا ہے ۔ اس کا عزم و حوصلہ کبھی ماند نہیں پڑتا
۔احیاالعلوم میں رسول اکرم ﷺ کا یہ ارشاد نقل ہےکہ آنحضرت ﷺنے فرمایا
’’اگر تم سب جنت میں داخل ہونا چاہتے ہوتو اپنی امیدوں کو کوتاہ ( یعنی
مختصر) کرو ، موت کو آنکھوں کے سامنے رکھو (یاد کرو) اور اللہ پاک سے حیا
کا حق ادا کرو‘‘۔ان صفات کی جھلکیاں ان تمام محرومین میں نظر آتی ہیں جن
کا ابتداء میں ذکر ہے۔اللہ ان کی قبور کو نور سے بھر دے۔علامہ اقبال نےان
مومنانہ صفات کو اس طرح بیان کیا ہے ؎
خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز
اس کی اُمیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب، اس کی نِگہ دل نواز
|