#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالکہف ، اٰیت 45 تا 49
ازقلم مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
اضرب لھم
مثل الحیٰوة الدنیا
کما ان انزلنٰہ من السماء
فاختلط بہ نبات الارض فاصبح
ھشیما تذروہ الریٰح وکان اللہ علٰی کل
شئی مقتدرا 45 المال والبنین زینة الحیٰوة
الدنیا والبٰقٰیٰت الصٰلحٰت خیر عند ربک ثوابا و
خیر املا 46 ویوم نسیرالجبال وتری الارض بارزة
وحشرنٰھم فلم نغادر منھم احدا 47 وعرضوا علٰی ربک
صفا لقد جئتمونا کما خلقنٰکم اول مرة بل زعمتم ان لن نجعل
لکم موعدا 48 ووضع الکتٰب فترالمجرمین مشفقین مما فیہ ویقولون
یٰویلتنا مال ھٰذ الکتٰب لا یغادر صغیرة ولا کبیرة الا احصٰہا ووجدوا ما
عملوا
حاضرا ولا یظلم ربک احدا 49
انسانی نظر میں اُترنے والے مناظر ، انسانی نظر سے گزرنے والے مناظر اور
انسانی نظر میں ٹھہر جانے والے مناظر نظر کو منظر اور منظر کو نظر میں
اُلجھا دینے والے وہ جادُو گر ہیں کہ جو انسان اِن کے جادُوئی جال میں
آجاتا ھے تو اُس کا ارتقاۓ حیات رُک جاتا ھے ، اُس کی حیات ناکام ہو جاتی
ھے اور اُس کے وسائلِ حیات برباد ہو جاتے ہیں اِس لیۓ اللہ نے اپنے نبی سے
کہا ھے کہ اہلِ زمین کو بتادیا جاۓ کہ دُنیا کی مثال تو یہ ھے کہ ھم آسمان
سے جو بارش برساتے ہیں جب وہ زمین میں رَچ بَس جاتی ھے تو زمین سے وہ سبزہِ
بہار نمُودار ہوتا ھے جس کو دیکھ کر انسان یوں محسوس کرتا ھے کہ یہ کبھی
بھی ختم نہ ہونے والا ایک دائمی منظر ھے لیکن پھر کُچھ دنوں کے بعد یوں
ہوتا ھے کہ زمین پر بچھے ہوۓ سبزہ و گُل کے یہ تختے سُوکھ کر ریزہ ریزہ ہو
جاتے ہیں اور پھر زمین کے چاروں اَطراف سے اُمڈ اُمڈ کر وہ ہوائیں آتی ہیں
جو خار و خس کے اِس اَنبار کو اُڑا اُڑا کر لے جاتی ہیں ، کائنات پر صرف
اللہ کا اقتدار ھے اور کائنات کی ہر شئی پر بھی اللہ ہی کا اختیار ھے ،
انسان کا مال اُس کے جسم و جان کی آسائش ہوتا ھے اور اُس کی اَولاد اُس کے
حسنِ حیات کی زیبائش ہوتی ھے لیکن حُسنِ حیات کے یہ دونوں ساتھی ایک محدُود
زمانے تک اِس کا ساتھ دیتے ہیں ، جہاں تک ارتقاۓ حیات کے آنے والا لامحدُود
زمانوں کا تعلق ھے تو اُس کے لیۓ انسان کا عملِ خیر ہی اُس کا وہ گنجِ گراں
مایا ھے جو اُس کے پروردگار کی مشیت کے مطابق آنے والے ہر زمانے میں زادِ
حیات کے طور پر اُس کے ساتھ ساتھ جاتا ھے اور ساتھ ساتھ رہتا ھے ، اور جس
روز زمین پر گرے پڑے لوگ اُٹھ کھڑے ہوں گے تو تُم دیکھ لو گے کہ ھم نافرمان
لوگوں کے مال کے پہاڑوں کو کس طرح اُکھاڑدیتے ہیں اور اَولاد کے سہاروں کو
کس طرح پچھاڑدیتے ہیں اور اُس روز تُم کو ھمارے توازنِِ اعمال کا وہ ترازُو
بھی نظر آجاۓ گا جس کے دونوں پَلڑے برابر ہیں اور جس کا کوئی پَلڑا ایک
دُوسرے سے کُچھ کم ھے اور نہ ہی کُچھ زیادہ ، اور اُس روز جب اِن سب کو ایک
لائن میں کھڑا کر کے تُمہارے پروردگار کے نظامِ احتساب کے سامنے پیش کیا
جاۓ گا تو تُم دیکھو گے کہ یہ ایسے معصوم بن کر کھڑے ہوں گے کہ جیسے یہ آج
پہلی بار پیدا ہوۓ ہیں اور اُس روز اِن کا وہ سارا گمھنڈ اور گمان دَھرے کا
دَھرا رہ جاۓ گا کہ ھم نے اپنی وحی کے ذریعے اِن کو حسابِ حیات اور احتسابِ
حیات کا جو پیغام دیا تھا وہ ھمارے ایک لفظی ڈراوے سے زیادہ کُچھ نہیں تھا
، اور اُس روز جب حسابِ عمل کی کتاب کھول کر سامنے رکھ دی جاۓ گی اور
قُرآنی اَحکام کا انکار کرنے والوں پر فردِ جُرم عائد کی جاۓ گی تو خُدا
اور مخلوقِ خُدا کے یہ مُجرم خوف سے لَرزہ بر اندام ہو کر کہیں گے یہ کیسی
کتاب ھے جس میں چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے مُجرم کا چھوٹے سے چھوٹا اور
بڑے سے بڑا ہر ایک جُرم درج ھے اور کسی کا کوئی ایسا عمل نہیں ھے جو اِس
کتاب سے باہر رہ گیا ھے اور یہ کتنی عجیب کتاب ھے کہ جس کا ایک ورق کُھلتے
ہی ہر ایک کا کیا دَھرا اُس کے سامنے آگیا ھے اور پھر جب اِس کتاب کے مطابق
ہر ایک کا ہر ایک اَچھا بُرا عمل سامنے آجاۓ گا تو ہر ایک کو اُس کے ہر نیک
و بَد عمل کا پُورا پُورا بدلہ مل جاۓ گا اور کسی کے ساتھ اِک ذرا سی بھی
ناانصافی روا نہیں رکھی جاۓ گی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کا جو مفہومِ بالا ھم نے تحریر کیا ھے وہ اگرچہ بذاتِ خود ہی
اٰیاتِ بالا کے اجتماعی مفہوم کا ایک ایسا مُفصل بیانیہ ھے کہ جس پر کسی
اضافی حاشیۓ کی کُچھ زیادہ گنجائش نہیں ھے لیکن ھم جب اِن پانچ اٰیات کو
اِن کے انفرادی دائرے میں اَلگ اَلگ رکھ کر دیکھتے ہیں تو اِن اٰیات کے
اجتماعی مفہوم کا وہ انفرادی نتیجہ بھی اپنی اَلگ اَلگ صورتوں میں سامنے
آجاتا ھے جو انسانی فہم کی ایک اضافی تفہیم کا حامل ہوتا ھے اور ھم جب اِس
خاص فکری زاویۓ سے اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا پر نگاہ ڈالتے ہیں تو معلوم
ہوتا ھے کہ پہلی اٰیت میں آسمان سے زمین پر برسنے والی جس بارش کا ذکر کیا
گیا ھے وہ انسانی مُشاھدے میں آنے والی ایک عام بات ھے لیکن انسانی مُشاھدے
میں آنے والی اِس عام بات میں انسانی فہم کے لیۓ خاص پیغام یہ ھے کہ انسان
کا عمل اُس کی حیات کا وہ آسمان ھے جس سے انسانی اعمال کے اُن مُثبت نتائجِ
اعمال کی بارش ہوتی رہتی بھی جو اُس کی حیات کی کشتِ ویران پر وہی رَنگِ
بہار لاتی ھے جو زمین کے آسمان کی بارش زمین پر لاتی ھے اور انسان کے مَنفی
اعمال کی آندھی بھی اُس کی حیات پر خزاں کی وہی ویرانی لے کر آتی ھے جو
آندھی زمین پر آتی ھے تو باغ و بہار دونوں کو خس و خاشاک کی طرح اُڑا کر لے
جاتی ھے اِس لیۓ انسان پر اپنے دین کی حفاظت بھی اتنی ہی لازم ھے جتنی کہ
زمین کی حفاظت لازم ھے ، دُوسری اٰیت میں انسان کے لیۓ دُوسرا پیغام یہ ھے
کہ انسان کا مال انسان کے لیۓ یقیناً ایک آسائشِ حیات اور انسان کی اََولاد
بھی انسان کے لیۓ یقیناً ایک زیبائشِ حیات ھے لیکن یہ دونوں چیزیں اُسی وقت
نعمتِ حیات ہوتی ہیں جب حیات کی زمین پر مُثبت اعمالِ حیات کی بارش ہوتی
رہتی ھے کیونکہ انسان کا وہی مالِ حیات کمالِ حیات ہوتا ھے جو حلال طریقے
سے کمایا اور کھایا جاتا ھے لیکن جو مال حرام طریقے سے کمایا اور کھایا
جاتا ھے وہ مال کمالِ حیات نہیں ہوتا بلکہ صرف وبالِ حیات ہوتا ھے اور اسی
طرح اَولاد بھی وہی راحتِ حیات ہوتی ھے جس کو جسمانی طور پر زندہ رکھنے کے
لیۓ مُناسب خوراک اور ذہنی طور پر زندہ رہنے کے لیۓ مُناسب تعلیم دی جاتی
ھے ، جس اَولاد کو مُناسب خوراک اور مُناسب تعلیم نہیں دی جاتی وہ اَولاد
انسان کے لیۓ بُنیادِ حیات نہیں ہوتی بلکہ صرف ایک اُفتادِ حیات ہوتی ھے ،
تیسری اٰیت میں انسان کو یہ پیغام دیا گیا ھے کہ زمین پر انقلاب کا ایک وقت
تو وہ ہوتا ھے جب زمین کے گرے پڑے لوگ اپنے حقِ حیات کے لیۓ خود ہی اُٹھ
کھڑے ہوتے ہیں اور جب تک زمین کے سارے وڈیروں اور سارے لٹیروں سے اپنا حقِ
حیات چھین نہیں لیتے ہیں تَب تک وہ چین سے نہیں بیٹھتے ہیں اور دُوسرا
انقلاب کا وقت وہ ہو گا جب ظالم کی کامیابی اور مظلوم کی ناکامی کے بعد
اللہ تعالٰی خود ہی زمین میں گڑے ہوۓ انسانوں کو زمین کی مِٹی سے باہر لاۓ
گا اور ہر ظالم سے ہر مظلوم کو اُس کا حق دلاۓ گا لیکن زمین کے جن اہلِ
زمین کی زمین پر حق تلفی ہوتی ھے اُن کو ظالم اہلِ زمین سے اپنا حق حاصل
کرنے کے لیۓ خُدا کے اُس آخری انقلاب کا انتظار نہیں کرنا چاہیۓ بلکہ اپنا
حق حاصل کرنے کے لیۓ خُدا کے اُس انقلاب سے پہلے خود ہی اُٹھ جانا اور ایک
انقلاب اُٹھا دینا چاہیۓ کیونکہ اللہ تعالٰی اُن لوگوں کو ہی انقلاب کا
نقیب بننے کی توفیق دیتا ھے جو خود انقلاب کے نقیب بننا چاہتے ہیں ، چوتھی
اٰیت میں قُدرت کا یہ اصول بیان کیا گیا ھے کہ اللہ تعالٰی کے عالمی نظام
کے تحت دُنیا کی حیات میں بھی انسان کا حساب و احتساب کا عمل ہوتا رہتا ھے
اور دُنیا کی حیات میں حساب و احتساب کا جو عمل جاری ہوتا ھے وہ عمل آخرت
کی حیات میں بھی اُس وقت تک جاری رہتا ھے جب تک ظالم کو ظلم کا کرنے کا
بدلہ اور مظلوم کو ظلم سہنے کا بدلہ نہیں مل جاتا اور جو انسان اِس دُنیا
میں احتساب کے عمل سے بَچ جاتا ھے وہ اُس دُنیا میں پکڑا جاتا ھے اور
پانچویں اٰیت میں پکڑے جانے اور سزا پانے کی یہ تفصیل بیان کی گئی ھے کہ جب
حساب اور احتساب کا وہ دن آجاۓ گا تو انسان کے حسابِ عمل کی کتاب کھول کر
انسان کے سامنے رکھ دی جاۓ گی اور جب قُرآنی اَحکام کا انکار کرنے والوں پر
اُن کے اِس جُرم کی فردِ جُرم عائد کی جاۓ گی تو وہ حیران ہو کر کہیں گے کہ
یہ کتنی عجیب کتاب ھے کہ جس کا ورق کُھلتے ہی ہر ایک انسان کا کیا دَھرا
اُس کے سامنے آگیا ھے اور جب ہر انسان کا ہر عملِ نیک و بَد جان لیا جاۓ گا
تو ہر ایک انسان کو اُس کے جمعِ مال میں سے اُس کا جمعِ مال ترازُو کے تول
کے مطابق دے دیا جاۓ گا !!
|