شہروزہ وحید (گوجرانوالہ)
قدرت نے ہر انسان کو غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا ہے، جو ان صلاحیتوں کو
تلاش کرتے اور عمل میں لاتے ہیں۔ تاریخ ان کا نام سنہری حروف سے لکھتی ہے
اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں۔ وہ اس دنیا سے چلے جانے کے
باوجود دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ تاریخ کے انہی روشن صفحات میں ایک نام عظیم
سائنسدان آئزک نیوٹن کا بھی ہے۔ نیوٹن 4 جنوری 1643ء کو انگلستان کے شہر
لنکا شائر میں پیدا ہوا۔ نیوٹن کو ابتدائی تعلیم کے دوران اسکول سے ذہنی
بیماری کے باعث تلخ مزاج اور شدید غصہ کی وجہ سے برخاست ہونا پڑا۔ اس وقت
کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ کمزور بچہ انتہائی طاقتور نظریات پیش کرے گا۔ آج
بھی نیوٹن کے پیش کیے گئے ’’لاء آف موشن‘‘ کے نظرئیے کو سائیکل سے لے کر
ہوائی جہاز بنانے تک استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ’’کشش ثقل‘‘ کے نظرئیے کا
بانی اور شہرہ آفاق تصنیف ’’قدرتی فلسفہ کے حسابی اصول‘‘ کا مصنف ہے۔ آئزک
نیوٹن کو بابائے سائنس بھی کہا جاتا ہے۔
نیوٹن کی زندگی ویران تھی، اس نے اپنی زندگی میں شکرگزاری کے بیج بوئے اور
قدرت اس پر مہربان ہو گئی۔ وہ مسلسل محنت اور شکرگزاری کی رسی تھامے
کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ نیوٹن کے قوانین اور اس کے خیالات و افکار
کو دنیا میں خوب پذیرائی ملی۔ جب آئزک نیوٹن سے ان کی کامیابیوں کے متعلق
پوچھا جاتا تو وہ ہمیشہ اپنے ساتھیوں، دوست احباب اور قدرت کا شکریہ ادا
کرتے دیکھائی دیتے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھڑی پڑی ہے، جنھوں نے شکر ادا
کیا اور ان کی زندگی میں حیران کن تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ انہوں نے اپنی
محنت سے معاشرے کی تقدیر بدل دی۔ مثلاً: قائداعظم، شیکسپیئر، ابراہم لنکن،
اور آئن سٹائن وغیرہ۔
جس طرح عظیم لوگ چھوٹے چھوٹے واقعات سے بڑے بڑے معنی اخذ کر لیتے ہیں، آئزک
نیوٹن بھی غیر معمولی تخلیقی صلاحیتوں کا مالک تھا۔ ایک روز یہ سیب کے درخت
کے نیچے آرام کی غرض سے بیٹھا تھا۔ اچانک اس کے سر پر سیب گرا، جس کے سبب
اس نے کشش ثقل کے نظرئیے کو پیش کیا اور وقتاً فوقتاً اس نے حرکت کے قوانین
بھی پیش کیے۔ آج ہم آئزک نیوٹن کے جس قانون کو موضوع گفتگو بنانے جا رہے
ہیں، وہ حرکت کا تیسرا قانون کہلاتا ہے۔ اس قانون کے مطابق، ’’ہر عمل کا
ہمیشہ ایک مخالف اور مساوی ردعمل ہوتا ہے۔‘‘ یہ نیوٹن کا قانون بھی ہے اور
کائنات اور سائنس کا بنیادی اصول بھی۔ نیوٹن پر کائنات کے بہت سے راز افشاں
ہوئے، اس کی سائنسی دریافتوں نے ہمارا کائنات کو دیکھنے کا نظریہ ہی بدل
دیا۔ جب ہم اظہار تشکر کے خیال کو نیوٹن کے قانون پر لاگو کرتے ہیں تو یہ
کہتا ہے کہ، شکرگزاری احساس کا نام ہے اور احساسات عمل سے پیدا ہوتے ہیں۔
آپ جس محبت و خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ شکریہ ادا کریں گے تو آپ اس کے
مساوی حاصل کریں گے، یعنی جب ہم شکر ادا کرتے ہیں تو بدلے میں بہت کچھ وصول
کرتے ہیں، جو شکریہ کی مقدار کے مساوی ہوتا ہے۔
اﷲ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو بے شمارنعمتوں سے نوازا ہے، اور اگر وہ ان
نعمتوں کو شمار کرنا چاہے تو شمار بھی نہیں کر سکتا۔ شکر کے لغوی معنی ہیں،
نعمت دینے والے منعم کی نعمت کا اقرار کرنا اور کسی بھی عطا، عنایت و نوازش
پر اس کا احسان ماننا۔ قرآن پاک میں اﷲ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں: ’’تم
شکر ادا کرو، میں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔‘‘ شکرگزاری اسلام کی مقدس صفات
میں سے ایک کا نام ہے۔ اﷲ تبارک و تعالی انسان کو شکر گزاری کے عوض سکون
قلب کی دولت سے نوازتا ہے، جس کا کوئی مول نہیں۔ شکرگزاری ایک نسخ? کیمیا
ہے، جو ہر دکھ اور درد سے نجات کا ذریعہ ہے۔ یہ ویکسین یا اینٹی سیپٹک دوا
کی طرح کام کرتی ہے۔ اظہار تشکر کی دوا باقاعدگی سے استعمال کرنے سے ہر قسم
کی ذہنی، جسمانی اور روحانی بیماریوں سے نجات مل جاتی ہے۔ شکر گزاری خوف،
پریشانی، دکھ اور ذہنی دباؤ کو ختم کرکے خوشی، صراحت، صبر، ہمدردی، سمجھ
بوجھ اور ذہنی سکون کا باعث بنتی ہے۔ بہترین اور پُرسکون زندگی کا راز
شکرگزاری کے وسیع سمندر میں پوشیدہ ہے۔ جو اسے تلاش کر لیتا ہے، وہ زندگی
میں راحت و فرحت حاصل کر لیتا ہے۔ دنیا کا امیر ترین انسان وہ ہے، جس کے
پاس سکون قلب کی دولت ہے۔ جو شکرگزاری کے احساس کو محسوس کرتا ہے اور قدرت
کی دی ہوئی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ وہ زندگی کے بدترین حالات کو نہیں
دیکھتا، بلکہ اس کی نظر اﷲ کی رحمت پر ہوتی ہے۔
اظہار تشکر رشتوں کو مضبوط کرتا ہے، جیسے ہی آپ کسی تعلق میں اظہار تشکر کا
بھرپور استعمال کریں گے تو آپ رشتوں میں بے شمار خوشیاں اور اچھائیاں پائیں
گے۔ تنقید، شکایت یا الزام نہیں لگائیں گے۔ چوٹی چھوٹی پریشانیاں، جو آپ
کبھی محسوس کرتے تھے اور وہ شکایات، جو آپ اپنے رشتوں میں کیا کرتے تھے،
ختم ہو جائیں گی، کیوں کہ جب آپ حقیقت میں کسی شخص کا شکریہ ادا کرتے ہیں
تو ایسی کوئی چیز نہیں ہوتی، جو آپ اس شخص میں بدلنے کے خواہاں ہیں۔ آپ
زندگی کے بڑے بڑے پہلوؤں پر نظر دوڑائیں جیسا کہ صحت، دولت، خوشیاں، آپ کا
پیشہ، گھر اور رشتے۔ آپ کی زندگی کے وہ پہلو جو بھرپور اور عمدہ ہیں، وہ
صرف وہی ہیں، جہاں آپ نے اظہار تشکر کا استعمال کیا۔ کوئی بھی پہلو جو
بھرپور اور عمدہ نہیں ہے، وہ بس شکر گزاری کی کمی کے باعث ہے۔ جب آپ شکر
ادا نہیں کرتے تو صحت، تعلقات، اپنی نوکری، پیشہ یا کاروبار میں بہتری کے
بہاؤ کو روک دیتے ہیں۔ شکریہ کے الفاظ آپ کی زندگی کے لیے بے حد اہم ہیں۔
شکر گزاری کو باقاعدہ اپنی روزمرہ کاموں کی فہرست میں شامل کریں اور اس کام
کے لیے وقت مقرر کریں۔ اپنی صحت، زندگی میں ملنے والی آسائشیں اور قدرت کی
دی ہوئی نعمتوں کا شکریہ ادا کریں۔ جو آپ کے پاس وافر مقدار میں موجود ہیں۔
مثلاً: بینائی، سماعت، اچھا خاندان، صحت اور زندگی کی آسائشات وغیرہ۔ اپنے
پیشے اور خاندان سے منسلک لوگوں کے شکر گزار بنیں۔ چاہے وہ اچھے نہ بھی
ہوں، تو آپ انہیں معجزانہ طور پر بہتر ہوتے ہوئے دیکھیں گے۔ آپ نے چیزوں کے
متعلق اچھا محسوس کرنا ہے، یہی آپ کو شکر گزاری کی اونچائی پر لے کر جائے
گا۔ جب آپ کسی چیز کا شکریہ ادا کریں تو اس وجہ کے متعلق بھی سوچیں، کہ آپ
کیوں کسی مخصوص شخص، چیز یا صورتحال کے لیے شکر گزار ہیں۔ پھر آپ مزید
گہرائی سے اظہار تشکر کے احساسات و جذبات کو محسوس کر سکیں گے۔
نعمتوں پر شکر ادا کیا جائے تو ان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر ان کی ناشکری کی
جائے، تو وہ نعمتیں چھینی جا سکتی ہیں۔ اس آدمی کا ناشکرا پن کبھی ختم نہیں
ہوتا، جو زندگی کے بہترین ایّام میں بھی مزید بہتری کا طلبگار رہے۔ جو قدرت
کی تقسیم پر قناعت اختیار نہ کرے۔ کسی اہل علم نے کیا خوب کہا ہے کہ
’’نعمتیں وحشی جانوروں کی طرح ہوتی ہیں، انہیں شکر کے ذریعے قید میں
رکھو۔‘‘ شکر گزار انسان کبھی اﷲ کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتا۔ امید کی
کرنیں اسی شخص کے دل و دماغ کو چھوتی ہیں، جو شکر گزار ہوتا ہے۔ جسے تاریک
راتوں میں بھی امید کا سورج نظر آتا ہے۔ شکر گزار انسان کے سر پر کبھی نا
امیدی اور مایوسی کے سائے نہیں منڈلاتے۔ اسے اپنی زندگی کے بد ترین حالات
میں بھی رحمن کی رحمت سے بھرپور امید ہوتی ہے۔
|