گنج عنایت ،پیر کامل ٗ قطب دوراں ٗ منبع رشد وہدایت حضرت
محمد عنایت احمدؒ نقشبندی مجددی 1938ء کو وادی کشمیر کے معروف گاؤں "
کلسیاں " کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے
سرکاری سکول میں حاصل کی، جبکہ قرآن پاک اپنی والدہ ماجدہ سے پڑھا۔پھر قیام
پاکستان کے وقت آپ ؒ کا خاندان ہجرت کرکے گجرات کے نواحی قصبے چک 34 میں
آکر آباد ہوگیا ۔ جب آپ نے ہوش سنبھالاتو آپ ؒ کو استاد العلما مولانا غلام
علی اوکاڑوی کے مدرسے " اشرف المدارس " میں داخل کروا دیاگیا جہاں آپ ؒ
سالہا سال تک یہاں تعلیمی مدارج طے کرتے رہے ۔ اوکاڑہ شہر سے کچھ ہی فاصلے
پر حضرت کرماں والا کا ایک چھوٹا سا قصبہ موجود ہے یہ قصبہ ایک ولی کامل
حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ کا مسکن ہے۔کئی ایک بار آپ ؒ مولانا غلام علی
اوکاڑی ؒ کے ہمراہ آستانہ کرماں والا تشریف لے گئے ۔پھر روحانیت کی منزلیں
طے کرنے کا ایسا جنون طاری ہوا کہ آپ ؒ ہردوسری تیسری شام حضرت کرماں والا
تشریف لے جانے لگے ۔ایک بار جب آپ ؒ حضرت کرماںؒ والا پہنچے تو مغرب کی
نماز ہوچکی تھی ، نماز کے بعد حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ گوشہ خاص میں
وضائف میں مشغول تھے ۔وہاں کسی کو جانے کی اجازت نہ تھی لیکن آپ ؒ کسی نہ
کسی طرح گوشہ خاص میں جا پہنچے ۔ جب بزرگوں کی نظر کرم آپ ؒ پر پڑی تو
انہوں نے آنے کی وجہ پوچھی ۔ آپ ؒ نے کہا میں آپ ؒ کا مرید ہونے آیا ہوں۔
یہ سن کر حضرت سید اسمعیل شاہ بخاری ؒ نے فرمایا کہ تم تو ازل سے ہی میرے
مرید ہو...... یہ کہتے ہوئے اپنا دست شفقت آپ ؒ کے سینے پر پھیرا اور
فرمایا جاؤ ہم تمہیں دنیا کے تمام علوم عطا کرتے ہیں۔ کرماں والوں ؒ کے یہ
الفاظ سن کر آپؒ کے بے قرار دل کو سکون حاصل ہوا ۔ اوکاڑہ میں تعلیمی مدارج
طے کرنے کے بعدآپ ؒ قصور شہر میں استاد العلما حضرت محمد عبداﷲ ؒکے مدرسے
میں آٹھ سال تک قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کرتے رہے ۔ اسی دوران
لاہورسے علما کا ایک وفد قصور میں استاد العلما حضرت محمد عبداﷲ قادری ؒ کے
پاس پہنچا اوران سے درخواست کی کہ بطور خاص گلبرگ لاہور میں اہل حدیث مسلک
کے علما کا غلبہ ہوتا جارہا ہے اور بھٹکے ہوئے انسانو ں کو صراط مستقیم پر
گامزن کرنے کے لیے آپ ؒ کی روحانی خدمات کی لاہور میں اشد ضرورت ہے ۔یہ سن
کر استاد گرامی ؒ نے آپ ؒ کو لاہور جانے کی اجازت دے دی۔یہ 1969 کا زمانہ
تھا جب آپ ؒنے اے تھری گلبرگ تھرڈ لاہور میں امامت سنبھالی تو یہ مسجد
انتہائی خستہ حال تھی ،اسے از سر نو تعمیر کرنے کا آپ ؒ نے عزم کیا اور
1971ء میں اپنے دست مبارک سے اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جس کا نام آپ ؒ نے
مسجد طہ رکھا تو چند ہی سالوں میں عاشقان رسول ﷺ کا رخ مسجد طہ کی جانب
ہونے لگا اور ہر نماز کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ہزاروں
لوگوں نے آپ ؒ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا جن میں ( محمد اسلم لودھی)
بھی شامل تھا۔ لاہور اومنی بس ورکشاپ میں( جہاں آجکل سٹی سکول ہے) آپ ؒ
مسلسل14 سال تک درس قرآن پاک دیتے رہے۔ایک مرتبہ شیخ القرآن حضرت غلام علی
اوکاڑوی ؒ جن کے شاگردوں میں ہزاروں مفتی ٗ عالم اور ولی شامل ہیں ٗ مسجد
طہ تشریف لائے انہوں نے فرمایا کہ جب روز محشر خدا مجھ سے پوچھے گا کہ اے
غلام علی تو دنیا سے میرے لیے کیا لایا تو میں عرض کروں گا کہ پروردگار میں
تیرا ایک نیک متقی اور پرہیز گار بندہ " محمد عنایت احمد "لایا ہوں۔یہ کہتے
ہوئے آـپ ؒ نے فرمایا کہ میرے سینے میں جو علوم موجود ہیں وہ میں" محمد
عنایت احمد" کو عطا کرتا ہوں۔حضرت کرماں والوں کا فرمان عالی شان تھا کہ جو
شخص حضرت کرماں والا نہ آسکے وہ گلبرگ تھرڈ لاہور کی جامع مسجد طہ میں "محمد
عنایت احمد " کے پاس چلاجائے۔جہاں وہی فیض ملے گا جو کرماں والا میں آنے
والوں کو ملتاہے۔ آپؒ کا شمار، صاحب کشف اور باعمل علما میں ہوتا تھا۔ آپ ؒ
اکثرفرمایا کرتے تھے کہ پیرو مرشد اپنے مریدوں کو ہاتھ کی ہتھیلی پر رائی
کے دانے کی طرح دیکھتا ہے ۔وہ پیر ہی کیا جو اپنے مریدوں کی حالت زار سے بے
خبرہو ۔ پھر فرمایا انسان ترک گناہ کے بعد جب عبادات کو اپنا معمول
بنالیتاہے اور رات کے پرسکون لمحات میں اﷲ کی حمد و ثنا کرتا ہے تو کامل
پیرو مرشد کی موجودگی میں اس میں یہ استعداد خود بخود پیدا ہوجاتی ہے ۔عبادت
میں وہ توانائی ہے جو حدود و زمان و مکان کو توڑ کر ہمیں رب کائنات کے جوار
میں پہنچا سکتی ہے اس سے کائنات کی وسعتیں سمٹ جاتی ہیں۔ایسا کیوں نہ ہو
کیونکہ علم سے دماغ کو اور عبادت سے روح کو نور عطا ہوتا ہے جس قدر نور
عظیم ہوگا مومن کی قوت بھی اسی قدر عظیم ہوگی ۔یہاں ایک واقعے کا ذکرنا
چاہتاہوں جو مجھ پر بیتا۔ ایک صبح میں نے عرض کی کہ مجھے قبرسے ڈر
لگتاہے،آپ نے فرمایاقبرکی دوگز جگہ ماں کو کوکھ سے تو بڑھی ہوتی ہے اگروہاں
تنگی کا احساس نہیں ہوتا تو نیک لوگوں کے لیے قبربھی جنت کا گہوارہ بن جاتی
ہے۔اس بات کو ابھی چند دن ہی گزرے ہونگے کہ ایک را ت خواب میں ،میں نے اپنی
موت کا منظر دیکھا جب مجھے قبر میں دفن کردیاگیاتو میں نے اپنی دائیں جانب
دیکھا جہاں سے روشنی کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں،جب کروٹ لی تومیں ایک وسیع
عریض کشادہ ہال میں جا گرا،جہاں دور دور تک لوگ موجود تھے،اسی اثنا میں
میری آنکھ کھل گئی ۔میں نماز فجرادا کرنے کے لیے مسجد طہ پہنچا تو آپ ؒ نے
فرمایااب تو آپ کو قبرکے اندھیرے سے ڈرتو نہیں لگتا۔ آپ ؒ 73 سال کی عمر
پاکر 31 جولائی 2011 ء کی دوپہر جسمانی طور پر دنیا سے پردہ فرما گئے۔ اب
اس آستانہ گنج عنایت کے سجادہ نشین صاحبزادہ محمد عمر دام برکاتہ ہیں ۔
|