اس دنیا کے مشکل ترین سوالوں میں سے ایک سوال یہ ہے کہ
زندگی کیا ہے اور اس کا مقصد کیا ہے۔ اگر چند افراد کو ان کی زندگی کے معنی
بیان کرنے کے لئے ایک فقرہ بولنے کو کہا جائے تو یقینا سب کا زندگی کے لئے
نقطہ نظر مختلف ہوگا۔ اور ان میں سے پچاس فیصد سے زیادہ لوگ ایسے بھی ہوں
گے جو زندگی کے بارے میں کچھ بیان نہیں کر پائیں گے۔ بظاہریہ لوگ بہت قابل
اور ترقی یافتہ نظر آئیں گے مگران لوگوں میں کسی مخصوص سمت کی عدم دستیابی
کی وجہ سے ایک عنصر قدرے مشترک ہو گا اوروہ ہے سکون کی کمی مطلب
dissatifaction in life۔ انسان اس وقت تک پرسکون نہیں رہ سکتا جب تک وہ
اپنے لیے اپنی زندگی کا مقصد طے نہ کر لے۔صوفیانہ علم میں جاہل اس کو کہتے
ہیں کوئی بھی ایسا انسان جو راستہ سے اتر گیاوہ جاہل ہے، مطلب بھٹکا ہوا
شخص۔ان مقاصد میں کسی خاص چیز کا حصول، خاص عہدہ، کسی خاص چیز کی نگہداشت
وغیرہ شامل ہو سکتے ہیں۔ جبکہ دین بذات خود ایک مقصد نہیں بلکہ یہ رستہ ہے
جس کے تحت مخلوق سے محبت کی جاتی ہے اور یہی محبت خالق سے محبت کروا دیتی
ہے۔ اس موظوع پر کسی وقت تفصیل سے بات ہوگی۔
دنیا میں ابھی بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو زندگی کو اپنیے ذاتی مقاصد کے
لئے استعمال نہیں کرتے بلکہ لوگوں کی خدمت اور محبت کے لئے وقف کردیتے ہیں
جن میں سر فہرست اولیاء اللہ جیسے عظیم لوگ سر فہرست ہیں جن کی زندگی کا
مقصد اسی عمل میں پوشیدہ ہوتا ہے کہ کوئی سوالی جو رب نے بھیجا ہے خالی نہ
لوٹے۔ دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جن کو صرف اپنی کامیابی سے غرض ہے، اس
کامیابی کو حاصل کرنے کے لئے وہ کسی کی بھی گردن پر پاؤں رکھ کر خوشی سے
آگے بڑھ جائیں گے۔ انہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ زندگی کی معیاد بہت کم ہے
اور بطور مسلمان ہمارا تو ہر لمحہ یہی عقیدہ ہونا چاہیے کہ موت ا بھی آئی
کہ آئی۔لوگوں کی ایسی جماعت جوکہ پاکستان میں، خاص طور پرآسٹریلیا میں بھی
بہت وافر تعدار میں دیکھنے کو ملے گی جنہیں زندگی صرف اپنے طریقے سے دیکھنے
کی عادت ہے۔ یہ لوگ ہر کسی سے پاس یہی کہتے دکھائی دیں گے کہ ”ہمارے حقوق
اورہمارے حقوق“اور یہ سب فرائض سے بالکل باغی ہیں۔ ان میں مَیں کوٹ کوٹ کے
بھری ہے اور یہ دوسروں کو ’مقامِ ت و‘ پر دیکھ کر ان کا مزاق اڑاتے ہیں۔
ایسے لوگوں کے بارے میں ہی قران پاک میں فرمایا گیا ہے ”اور جب ان سے کہا
جاتا ہے کہ ظلم مت کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔“
اس موقع پر مولانا رومی نے فرمایا ہے کہ”جب میں کم سمجھ تھا تو میں دنیا کو
بدلنا چاہتا تھا، اب میں سمجھ دار ہو اور میں خود کو بدل رہا ہوں“
آخر میں ان لوگوں کے بارے میں بات کروں گا جو مجھے بہت انسپائر کرتے ہیں۔یہ
وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک اگر آپ مرنے کے بعد مر گئے تو سمجھو آپ کبھی پیدا
ہی نہیں ہوئے تھے،اگرچہ آپ کبھی اس دنیا میں آئے ہیں نہیں تھے۔ کامیاب انسا
ن و ہ ہوتا ہے جو اپنی زندگی کو بامقصد اس طریقے سے گزارے کہ مرنے کے
بعدزندہ ہی رہے۔ اس کی زندگی کے باعث بہت سی زندگیاں بہتر ہو جائیں۔ بہرحال
میں آج کی بات کو صرف اس ایک بات پر ختم کروں گاکہ ایک پرسکون زندگی ایک
ترقی یافتہ زندگی سے بہت بہتر ہے کیونکہ آپ کی ترقی کا تعلق دنیاوی چیزوں
اور دنیاوی لوگوں سے ہے جبکہ پر سکون زندگی کا تعلق آپ کے دل، دماغ اور روح
سے ہے
|