|
|
کہتے ہیں کہ جب مشکل وقت آتا ہے تو ہر انسان اپنی عمر سے بڑا بن جاتا
ہے۔۔۔وہ فیصلے کر لیتا ہے جو اس کی ہمت اور حوصلے سے بھی بڑے ہوتے
ہیں۔۔۔امجد صابری کی وفات کے بعد بھی کچھ یونہی ہوا۔۔۔۔پانچ چھوٹے
چھوٹے بچوں کو دنیا میں چھوڑ کر جانے سے ہی تو گھبرا رہے تھے امجد
صابری۔۔۔لیکن قاتلوں نے ان کی اس پریشانی کو ایک لمحہ میں ہی دنیا سے
دور کردیا۔۔۔ |
|
یہی رمضان کا مہینہ تھا جب امجد صابری اس دنیا سے گئے اور ان کا بیٹا مجدد
صابری جس کے لئے والد نے اعلیٰ تعلیم کے خواب دیکھے تھے ایک لمحے میں ہی
اپنی عمر سے کئی سال بڑا ہوگیا۔۔۔ |
|
غم کا ایک پہاڑ تھا اور مجدد کے کانوں میں کئی آوازیں تھیں۔۔۔اب کیا
ہوگا۔۔۔اب بچوں کو کون سنبھالے گا۔۔۔چھوٹے چھوٹے بچے کہاں جائیں گے۔۔۔یہ سب
تو اپنی جگہ ہی تھا لیکن جان کے خطرے کے خوف سے امجد صابری کی بیوہ بچوں کو
لے کر شہر سے بھی دور چلی گئیں۔۔۔ |
|
|
|
حکومتی وعدے تھے کہ پاکستان کی اتنی خدمت کرنے والے اس
گھرانے کے بچوں کی تعلیم کا خرچہ اٹھایا جایا گا لیکن یہ وعدہ بھی وفا نا
ہوا۔۔۔۔امجد صابری کا خواب کہ میرے بچے تو بس تعلیم حاصل کریں اور کسی
اونچے مقام پر پہنچیں لگتا تھا کہ اپنی منزل کھو رہا ہے۔۔۔لیکن پھر مجدد
صابری نے خود کو اپنے باپ کی وراثت کو آگے بڑھانے کا حوصلہ دیا۔۔۔ |
|
مجدد نے اپنے گلے میں اپنے باپ کی آواز کو زندہ کرنے کا سوچا اور دن رات
ایک کردئے۔۔۔اپنے چھوٹے بھائیوں کو بھی اپنے ساتھ لگایا تاکہ یہ بھاری ذمہ
داری کسی ایک سے بھی دور نا ہو۔۔۔کچھ سال بعد اچانک جب لوگوں نے مجدد کی
آواز سنی تو یہ گمان گزرا کہ آواز بالکل نا صحیح لیکن کہیں نا کہیں امجد
صابری جیسی ضرور ہے، یہ انداز، یہ لہجہ ، یہ شکل۔۔۔کیا امجد صابری واپس
آرہے ہیں- |
|
|
|
باپ کے جانے کے بعد مجدد صابری نے بڑا بیٹا بن کر دکھانے کا جو فیصلہ کیا
وہ اب اپنی منزل کی جانب بڑھ رہا ہے۔۔۔ان کی ماں اس بات پر خوش ہیں کہ امجد
صابری کی وراثت ان کے بچوں کے ساتھ آگے جائے گی۔۔۔ |