" بھارت اور پاکستان کے مستحکم تعلقات جنوبی اور وسطی
ایشیا کی اُن صلاحیتوں کو کھولنے کی چابی ہیں،جن سے اب تک فائدہ نہیں
اٹھایا گیا ۔۔۔اس مسئلے کی بڑی وجہ کشمیرکا تنازعہ ہے۔۔۔۔ ہم محسوس کرتے
ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ماضی کو دفن کیا جائے اور آگے بڑھا جائے"۔اسلام
آباد میں18 مارچ 2021 کو ہونے والی سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے
ہوئےپاکستان کے سپہ سالار نے کشمیر، پاکستان ، بھارت اور خطے سے متعلق اپنی
سوچ اور ارادوں کا اظہار کیا جس نے ماضی کو دفنانے کے حوالے سے عوام میں
ایک نئی گرما گرم بحث کا آغاز کیا ہے ۔ اس حوالے سے یہاں مختلف سوالات جنم
لیتے ہیں۔ مثلاً:
آخر ماضی کی وہ کونسی چیز ہے جس کو دفن کرنے کا تذکرہ ہو رہا ہے؟
آخر وہ کون ہے جس کے لیے کشمیرکا تنازعہ ایک مسئلہ بنا ہوا ہے اور اُس کے
لئے اِس سے نجات حاصل کرنا انتہائی ضروری ہوچکا ہے؟
کیا ہندو ریاست کو علاقائی طاقت کے طور پر اُبھرنے کا راستہ فراہم کرنے سے
خطے میں امن اور خوشحالی آجائے گی ؟
جہاں تک ماضی کو دفن کرنے کی بات ہے، تو یہ وہ تابناک ماضی ہے جو کشمیر کے
مسلمانوں کی اُس مزاحمت کا گواہ ہے ،جوانہوں نے کشمیر پربھارتی قبضے کے
خلاف اور پاکستان سے الحاق کے لیے 1947 میں کی تھی۔ یہ وہ ماضی ہے کہ جس
میں پاکستان کے قیام کے فوراًبعد اس کے بسنے والے مسلمان کشمیر کو آزاد
کرانے کے لیے متحرک ہوئے اور اس کے ایک بڑے حصے کو آزاد کرانے میں کامیاب
ہوگئے۔ اُس وقت سے لے کر آج تک اِن سات دہائیوں کے دوران کشمیر کے باقی حصے
کو آزاد کرانے کے لیے ہزاروں مسلمان خوشی خوشی شہادت کو گلے لگاچکے ہیں۔ تو
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ عوام اس شاندار ماضی کو بُھلا کر دفن کردیں۔ کیا
جان، مال اور عزت و آبرو پر مبنی ان قربانیوں کی کوئی قیمت نہیں جو اس راہ
میں اس خطے کے مسلمان مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی جانب سے دی
گئیں؟پھر ہم کیوں ایک ناکام ریاست کی مانند کشمیر کو دفن کردیں جبکہ جدید
اسلحہ سے لیس اور جزبۂ جہاد سے لبریز ہماری باصلاحیت افواج اللہ کی نصرت
اور ہماری بھر پورمددوحمایت اور دعاؤں کی بدولت مقبوضہ کشمیر کو اس بزدل
اور اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھارتی ریاست کے چنگل سے آزاد کراسکتی ہیں۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کشمیر کا تنازعہ دراصل کس کے لئے سب سے بڑا
مسٔلہ ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان یقینی
اورپائیدار امن کا نہ ہونا اس وقت امریکا اور اس کے علاقائی اتحادی ہندو
ریاست بھارت کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان بھارت
کے رستے سے ہٹ جائے اوراس کے علاقائی طاقت بن کر اُبھرنے میں کوئی رکاوٹ
کھڑی نہ کرے تا کہ بھارت چین کے خلاف کردار ادا کرسکے۔لہٰذا،امریکا مقبوضہ
کشمیر کو دفن کرنے کا مطالبہ کررہا ہے تا کہ ہندوریاست بیک وقت دو محاذوں
پر جنگ کا سامنا کرنے کےخوفناک امکان سے بے فکر ہوجائے۔ یقیناً، لائن آف
کنٹرول پر جارحانہ کاروائیو ں کو روکنے کا معاہدہ ایک ایسے وقت طے پا یا ہے
جس نے ہندو ریاست کو سکھ کا سانس فراہم کیا ہے، کیونکہ چین کی سرحد پرمحاذ
گرم ہے اور بھارت کوخدشہ لاحق تھا کہ کہیں پاکستان مقبوضہ کشمیر کو آزاد
کرانے کے لیے کوئی اقدام نہ اٹھا لے۔ لیکن اس کے برخلاف حکومت کی جانب سے
سیز فائر کی یقین دہانی کے نتیجے میں کئی دہائیوں بعد یہ پہلی بار ہوا کہ
بھارت نے اپنی پہلی اسٹرائیک کور پاکستان کی سرحد سے ہٹا کر چین کی سرحد پر
منتقل کردی، جبکہ یہ معاہدہ مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں بسنے والےمسلمانوں
پر ہونے والے مظالم میں کسی کمی کا باعث نہیں بنا۔
جنرل مشرف کی طرح موجودہ حکومت بھی بھارت کے ساتھ پائیدار پرامن تعلقات کے
قیام کا پختہ عزم رکھتی ہے تا کہ اسے خطے کی علاقائی طاقت بننے میں سہولت
فراہم کی جائے جبکہ یہ ہندوریاست کسی طور پر اس کی حق دار نہیں ہے۔تعصب میں
ڈوبی ہندو حکمران اشرافیہ نچلی ذات کے ہندوؤں اوراپنے اقتدار تلے رہنے
والےاور اقتدار سے باہر رہنےوالے مسلمانوں کو انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت
ہی نہیں رکھتی ۔ یقیناً یہ ہندو اشرافیہ کا تعصب ہی تھا جس نے ہمارے
آباؤاجداد کو اس بات پر مجبورکیا تھا کہ وہ اسلام کے نام پر الگ ریاست کے
قیام کے لیے جدوجہد کریں۔پھر مزید یہ کہ ہندو مذہب کوئی مکمل ضابطۂ حیات
نہیں ہے ، اس لیے ہندو مت کے پیروکاروں کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں
کہ وہ اُسی سرمایہ دارنہ استعماری آرڈر کی پیروی کریں جودولت کو مقامی و
بیرونی حکمران اشرافیہ اور استعماری طاقتوں کے ہاتھوں میں جمع کر دیتا
ہےجبکہ پوری دنیا میں عوام کی بڑی تعداد معاشی بدحالی اور شدید غربت کا
شکار ہوجاتی ہے۔ ہندو ریاست کو مراعات دینے سے دودھ اور شہد کی نہریں نہیں
بہنے لگیں گی بلکہ ہندو ریاست کی حوصلہ افزائی ہو گی کہ وہ اپنی تباہ کن
کارروائیوں کے ذریعے پورے خطے کو نااُمیدی کےاندھیروں میں دھکیل دے ۔
لیکن ان تمام وجوہات سے بھی بڑھ کر یہ کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں ان
لوگوں سے قربت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے جو ہمارے دین کی وجہ سے ہم سے
لڑتے ہیں اور ہم سے لڑنے کے لیے دوسروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اللہ
سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،﴿إِنَّمَا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ
قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا
عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ
هُمْ الظَّالِمُونَ﴾ "اللہ انہی لوگوں کے ساتھ دوستی کرنے سےتم کو منع کرتا
ہے جنہوں نے تم سے دین کی وجہ سے لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا
اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی۔ تو جو ایسے لوگوں سے دوستی کریں گے
وہی ظالم ہیں"(سورۃمحمد،60:9)۔
تو ہم کیوں باطل اور گمراہی پر قائم ہندوؤں کی خاطر اپنے دین کی خلاف ورزی
کریں اوراپنی حرمتوں کا سودا کریں؟ یہ عوام ایک معزز امت کا حصہ ہیں جو ایک
زبردست میراث کی حامل ہے جو کہ ایک اسلامی میراث ہے ۔ وہ میراث جس کی
ابتداء رسول اللہ ﷺ کے بعد خلافت راشدہ کے وقت سے ہوئی اور برصغیر پاک وہند
پر اسلام کا مکمل غلبہ اس کا وقتِ عروج تھا۔ یہ برصغیر پاک و ہندپراسلام کی
بنیاد پر حکمرانی کا دور تھا جب اس کی معیشت کا حجم اس وقت کے یورپ کی کُل
معیشت کے برابر تھا، اور1700 عیسوی میں اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں اس
خطے کی معیشت دنیا کی کل معیشت کا 27 فیصدہو گئی۔ صدیوں تک اسلام کی
حکمرانی نے اس خطے کے لوگوں کے امن و تحفظ اور خوشحالی کو رنگ،نسل اور مذہب
کے امتیاز کے بغیر یقینی بنایا جس کی وجہ سے ہندوؤں سمیت تمام باشندے ریاست
سے وفادار رہے۔ یقیناً اسلامی دور ایک سنہری دور تھا جس نے اپنی روشنی سے
باقی دنیا کو بھی منور کیاجس کے نتیجے میں لالچی استعماری طاقتیں اِس کی
جانب متوجہ ہوئیں، انہوں نے یہاں تفرقہ وتقسیم کے بیج بوئے اور یہاں کے
لوگوں پراپنی حکمرانی کو یقینی بنایا۔
لہٰذا ایک معزز امت ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ہمیں ماضی کو دفن یا فراموش
نہیں کرنا بلکہ کشمیر کے زخم کو دلوں میں زندہ رکھنا ہے اور امریکا کے
ناپاک منصوبوں سے ناطہ توڑ کر بھارت کے عزائم کو خاک میں ملانے کی منصوبہ
بندی کرنی ہے۔ کیا پاکستان کے بوسیدہ نظام میں یہ سکت ہے کہ وہ وقت کے اس
اہم تقاضے کو پورا کر سکے؟ اگر نہیں تو پھر کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ
ایک نئی بنیاد پر ریاست کی تعمیر نو کی جائے؟
|